بھارت میانمار اور پاکستان
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
کہتے ہیں گیدڑ کی جب موت آتی ہے
تو وہ منہ اٹھا کے شہر کا رخ کرتا ہے۔شہر میں آکے پھر اس کی جو گت بنتی ہے
اس کے بعد وہ نسلوں کو وصیت کر کے جاتا ہے کہ کبھی شہر کا رخ نہ کریں۔بھارت
بھی لگتا ہے عنقریب انہی گیدڑوں کی صف میں شامل ہونے کو بے تاب ہے۔چار جون
کو بھارتی فوج کی ڈوگرہ رجمنٹ کے بیس سورما مارے گئے تھے۔جس کے جواب میں
بھارت نے ایک پڑوسی ملک میانمار کی بین الاقوامی سرحد عبور کی اور پندرہ
باغیوں کو ہلاک کر ڈالا۔بھارتی فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل
رنبیر سنگھ نے کہا کہ یہ آپریشن دوسرے ملکوں کے لئے بھی پیغام ہے۔یہ الگ
بات کہ ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ یہ خفیہ اچلاعات پہ کیا جانے
والا آپریشن میانمار کی حکومت کی اجازت سے کیا گیا۔اسی آپریشن کی آڑ میں
بھارت کے ایک وزیرراجیا وردھن راٹھور نے پاکستان کو نام لے دھمکی دے ڈالی
کہ اس طرح کا آپریشن پاکستان کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی فوج اور حکومت ڈرامے بازی کی ماہر ہے۔ذرا یاد کیجئیے امریکی صدر بل
کلنٹن کے دورہ کے موقع پر بھارتیوں نے خود اپنے ہی شہریوں کے خون سے ہولی
کھیل کے پاکستان کو بد نام کرنے کی کوشش کی تھی اور حقیقت کھلنے پہ ساری
دنیا کے سامنے اس کا منہ کالا ہوا تھا اور اسے خفت اٹھاناپڑی تھی۔بھارت کی
سیاست دراصل چانکیہ کے پندو نصائح کے ارگر گھومتی ہے جس میں سوائے دجل مکر
اور فریب کے کچھ نہیں۔بھارت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ بھارت کے تمام پڑوسی
رقبے ،وسائل اور طاقت میں اس سے بہت کم ہیں۔پاکستان کے علاوہ وہ جسے چاہتا
ہے گرا کے ولاقے کا تھانیدار بننے کی کوشش کرتا ہے۔اس کا ہر ایکشن خواہ وہ
دنیا کے کسی کونے ہی میں کیوں نہ ہواس کا ہدف ہمیشہ پاکستان ہوتا
ہے۔پاکستان ہندو کے دل کا کانٹا ہے اس کے گلے کی پھانس ہے جو اسے کسی کروٹ
چین نہیں لینے دیتی۔اکہتر میں اس کا بس چلا تو اس نے ملک کے مشرقی حصے کو
جو کہ ایک ہزار میل کی دوری پہ واقع تھا ملک سے الگ کر دیا جس کا اعتراف
مودی نے ابھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے ساتھ مل کے کیا ہے۔بھارت کو لیکن
یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ اکہتر بھی نہیں اور یہ اکہتر کا پاکستان بھی
نہیں۔پاکستان ایک مصدقہ اور تسلیم شدہ ایٹمی قوت ہے اور جس کے میزائیل
بھارت کے چپے چپے کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر بھارت کے پیٹ میں پاکستان دشمنی کا یہ مروڑ اچانک
اٹھا ہے یا یہ ان کی مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔یوں تو بنیا پاکستان کے وجود
ہی کی نفی کرتا ہے اور اسے اپنی ماتا کی تقسیم قرار دیتا ہے۔آپ خود ہی
سوچئیے کوئی پاگل اگر اپنے دماغ میں یہ خیال بٹھا لے کہ فلاں شخص میری ماں
پہ قابض ہے تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔پنڈت جواہر لال نہرو اندرا گاندھی
سے لے لال کرشن ایڈوانی اور ابھی مودی تک سبھی اس بے کار کے خبط میں مبتلا
ہیں ۔بی جے پی کی پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔یہ پاکستان
کو خاکم بدھن دنیا کے نقشے سے مٹانے کا نعرہ لگا کے اور پورے ہندوستان میں
جنگی جنوں پیدا کرکے بر سر اقتدار آتے ہیں۔اقتدار میں آ کیانہیں ان کے
سورما جب انہیں اصل تصویر دکھاتے ہیں تو ان کے پاکستان کو ختم کرنے کے سارے
خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ عوام کا منہ بند کرنے کے لئے پھر ان کے پاس لفظ
ہی رہ جاتے ہیں۔بس گھما پھرا کے یہ گیدڑ بھبکیاں دیتے رہتے ہیں۔یقین نہ ہو
تو ایٹمی دھماکوں کے بعد لال کرشن ایڈوانی کی ہزلیات یاد کریں ۔یوں لگتا
تھا کہ دھماکے کی کامیابی کی خبر ملتے ہی بھارتی فوج پاکستان پہ ایٹم بم
داغ کے خدا نخواستہ دنیا کے نقشے سے اس کا نام ونشان مٹا دے گی۔جونہی چاغی
کے پہاڑوں نے روشن ہو کے پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی گواہی دی لال کرشن
کی ساری نیلی پیلی بتیاں یکدم گل ہوئیں اور وہ مدت تک منظر عام پہ نہیں
آئے۔
بھارت اس سے قبل اپنے گماشتوں کے ہاتھوں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ
اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ظلم و بربریت کا جو کھیل کھیل رہا تھا اسے نئے
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی دلیرانہ قیادت نے نکیل ڈال ڈی ہے۔نام نہاد
طالبان کا ان کے بلوں میں گھس کے ناس مارا جا رہا ہے۔طالبان منتشر نہیں
ہوئے یہ دراصل بھارتی گماشتے ہیں جن کی تباہی اور بربادی پہ بھارت میں صفِ
ماتم بپا ہے۔بھارت ان کے ذریعے پاکستان کو ایک لمبے عرصے تک الجھائے رکھنا
چاہتا تھا لیکن ان کی بیخ کنی سے بھارت کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اگر
پاکستان میں امن آ گیا تو پاکستان کو ہمارے مقابلے کی طاقت بننے سے کوئی
نہیں روک سکتا۔پاک چین دوستی ہندو بھارت کے دل کا وہ کانٹا ہے جو اسے کسی
کروٹ چین نہیں لینے دیتا۔مودی صاحب دورہ چین کے دوران اعلیٰ چینی قیادت سے
اس معاملے پہ جھاڑ کھا چکے ہیں۔انہیں چین کے عزم صمیم کا اندازہ ہے۔اب ان
کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ کسی طرح ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ چین
اپنے اس منصوبہ کو ترک کر دے۔اس نے پاکستان میں اپنی حامی قوتوں کو بھی زور
وشور سے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل
بھارت پاکستان کی لائف لائن قرار دی جانے والی ایک اور کوشش کالا باغ ڈیم
کو بھی اپنے انہی گماشتوں کے ہاتھوں ختم کروا چکا ہے۔شنید ہے کہ بھارت اس
منصوبے کو روکنے کے لئے ہر سال اپنے پاکستانی کارندوں میں بارہ ارب روپیہ
تقسیم کرتا ہے۔
ہماری حکومت نے بھارت کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی
ہے۔ہمارے وزیر اعظم تو میٹرو جیسی تقریب میں بھی بھارت کو خوش کرنے کی کوشش
کر دیکھی ہے جس کے جواب میں بھارتی وزیر نے بھی رواداری کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے وزیر اعظم کی غلط فہمی کو پوری طرح دور کرنے کی کوشش کی ہے۔اﷲ
کا شکر ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں وہ اس ساری
صورت حال سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں اور اس پہ نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ بھارت کی کسی بھی دھمکی کا جواب اسلام آباد سے نہیں آتاراولپنڈی
سے آتا ہے یا پھر چوہدری نثار کی طرف سے جنہیں انہی طاقتوں کا ترجمان خیال
کیا جاتا ہے۔بد قسمتی سے ہم میں وہ اتحاد و اتفاق نہیں جس کی اس وقت
انتہائی ضرورت ہے۔ ہمارے ہی کچھ لوگ دوست نما دشمنوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی
بننے پہ ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔ہم دوسرے ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر
وقت سر بکفن نظر آتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عوام ِ پاکستان
بھارتی وزیر اطلاعات کے اس بیان پہ سراپا احتجاج ہوتے۔دنیا لیکن جانتی ہے
کہ پاکستانی قوم کے بھلے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہو۔دشمن انہیں کتنے ہی
حصوں میں بانٹنے کی کوشش کیوں نہ کرے۔بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستانی
قوم سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے اور تاریخ اس بات پہ گواہ ہے۔جنگ دسمبر ہو
یا کارگل پاکستانی قوم ہمیشہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑی ہے۔
ماضی میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ قیادت کی تھی۔ہمارے فوجی حکمران ایک نہیں
بہت سارے محاذوں پہ لڑ رہے ہوتے تھے۔ پاکستان میں اس وقت جمہوری حکومت ہے
اور فوج پوری قوت کے ساتھ جمہوریت کو سپورٹ کر رہی ہے۔اس کی نظر یں اندرونی
اور بیرونی دشمنوں پہ گڑی ہیں۔امید ہے کہ بھارت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے
ہوئے کسی بھی ایڈوینچر سے باز رہے گا اور بین الاقوامی برادری بھی اسے کسی
بھی حماقت سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرے گی۔برصغیر پاک وہند میں دو ایٹمی
ملکوں کے درمیان بھڑکنے والی ہلکی سی چنگاری بھی امنِ عالم کو تہہ وبالا کر
سکتی ہے۔بھارت کے حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہئیے کہ پاکستان
کے عوام اگر بھارت کی کسی جارحیت کے جواب میں مٹ بھی گئے تو اسلام پھر بھی
زندہ رہے گا لیکن شاید بھارتی حکمرانوں کی کوئی حماقت کہیں اﷲ کی زمین سے
ہندوؤں کا نام ونشان ہی نہ مٹا دے۔
جنگ کی صلاحیت ہی مکمل امن کی ضامن ہے۔طاقت کا توازن دراصل کسی بھی جارحیت
کو روکنے کا سبب ہوا کرتا ہے۔ پاکستان پر امن ملک ہے لیکن امن بھیک میں
نہیں ملتا۔اس کے لئے تن من دھن کی قربانی دینا پڑتی ہے۔آنکھیں اور کان کھلے
رکھنے پڑتے ہیں اور بھارت یاد رکھے کہ پاکستانی قیادت اس کے مقابلے پورے قد
کے ساتھ کھڑی ہے اور ان شاء اﷲ اس کی کسی بھی جارحیت کا پوری طرح جواب دینے
کی اہل ہے۔پاکستانی عوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہیں اور یہ پاکستانی
عوام ہی ہیں جو قوم کے اتحاد و اتفاق کی راہ میں مزاحم ہونے والی کسی بھی
روکاوٹ کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جانے کی پوری استظاعت رکھتے ہیں۔
امن کی خواہش اپنی جگہ اور اس کی اہمیت بھی لیکن کبھی کبھار دل چاہتا ہے کہ
بھارت یہ بھی کر کے دیکھ لے۔پتہ تو چلے کہ مرد میدان کون ہے۔بھارت نے کارگل
کے دوران ایک بار اپنی فضائی قوت سے ہمیں مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کے
فضائی برتری کے زعم میں پاکستانی سرحد پار کرنے والے طیاروں کا ملبہ شاید
آج بھی کشمیر کی لائن آف کنٹرول پہ کہیں پڑا بھارتی بے بسی کا گواہ ہو۔
|
|