بلدیاتی انتخابات اور یاسر عباسی

ویسے تو میں اکثر عافیہ صدیقی، اسلام اور دہشت گردی، اتحادواتفاق اور ہم سب صرف اور صرف پاکستانی ہیں کے موضوعات پر لکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی میرا قلم پاکستان میں ہونے والی تبدیلی اور مثبت کاموں کی تعریف کرنے کیلئے اٹھتا ہے جسکی وجہ سے مسلسل تنقیدکی زد میں رہتا ہوں، مسلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کو کسی کی تعریف راس نہیں آتی کیونکہ میڈیا نے ہمیں سنسنی خیز خبروں کے عادی بنا دیئے ہیں، ہم سوچتے ہیں کہ کوئی بھی سیاستدان اور حکمران ٹھیک نہیں ہوتا حالانکہ ہمارا سوچ کسی حد تک ،کے سوا ٹھیک نہیں۔۔۔۔کسی سیاستدان یاحکومت کی جائز تعریف کرنا کوئی غلط کام نہیں ہے، پھربھی اگراپنی ملک کی تعریف کرنا یا ملک میں ترقیاتی کاموں کو داد دینا جرم ہے تو میں مجرم سہی اور میں اس بات کا کوئی پروا نہیں کرتا لیکن مجھے افسوس ان لوگوں پر آتا ہے جو خود توکچھ نہیں کرسکتے اور دوسروں کو بھی کچھ کرنے نہیں دیتے۔۔۔۔

یہ سب باتیں لکھنا اس لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے اندازہ ہے کہ اس کالم کو پڑھنے کے بعد بھی لوگ مجھ پر تنقید کرتے نظر آئینگے۔تنقیدوں کایہ سلسلہ مجھ پر 5جولائی2014میں اُس وقت شروع ہوا جب میں نے ـ’’ آزادی مارچ اور یاسر عباسی‘‘ کے موضوع پر ایک کالم لکھا ، اُس میں ، میں نے لکھا تھا کہ دھرنہ، لانگ مارچ وغٖیرہ وغیرہ سے وفاقی حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہوگا، نقصان ہوگا صرف پاکستان کا اوراُن لوگوں کا جو اس لانگ مارچ کا حصہ بنے گا، اُس وقت لوگوں نے مجھے گالیوں سے نوازا ، بعد میں پتہ چلا کہ میں غلط نہیں تھا، اُس دھرنہ سے لوگوں اور ملک کا نقصان ہوا اور کچھ نہیں۔میں آج اسلام آباد میں پہلی بارہونے والی بلدیاتی انتخابات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔خیر آمدم بر سر مطلب

اسلام آباد میں الیکشن کیا آئے، سب امیدواروں نے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لئے طرح طرح کے وعدے شروع کر دیے۔جوں جوں الیکشن نزدیک ہوتا جارہاہے، ساری پارٹیوں کے اُمیدواروں،کارکنوں اور عام عوام میں ایک عجیب سا جوش نظر اناشروع ہوجاتاہے۔سیاستدانان اپنے اپکو مضبوط کرنے کے لئے طرح طرح کے سیاسی ڈرامے اور اپنے بُرے کارنامواں کوچھپانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دوسرے پارٹیوں کے اُمیدواروں کی برُائیاں اور اُن پر طرح طرح کے الزامات اور سیاسی حملے شروع کر دیتے ہیں۔آج کل وہی سب کچھ اسلام آباد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے آئیندہ 16 یا 17 جون پرالیکشن کیلئے تاریخ کا اعلان کیا جائیگا البتہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 25جولائی کوانتخابات ہونگے ۔اسلام آباد میںNA 48-49کو 79 یونین کونسلز پر تقسیم کیا گیا ہیں، جسمیں ہر یونین کونسل میں ایک چئیرمین، ایک وائس چئیرمین، چھ جنرل کونسلرز، دو لیڈیز کونسلرز، ایک یوتھ اور ایک لیبر کونسل ہوگا۔
میرا ایک دوست یاسر عباسی، جن کو میں برسوں سے جانتا ہوں اور ایک دو بار اُن کا ذکربھی کیا ہے ،کو بھی G11 , UC 61سے چئیرمین نشست کیلئے منتخب کیا گیا ہے، اُن کا تعلق پی ایم ایل این سے ہے، گزشتہ روز اُن کی کال آئی اور وہ مجھے سارا قصہ سُناتا رہا اور میں خاموشی سے سُنتا رہا، اصل میں بات یہ ہے کہ میں اس بھائی کو بہت تنگ کرتا ہوں، میں پی ایم ایل این پر تنقید کرتا ہوں اور وہ مسلسل اپنی دلائل سے مجھے غلط ثابت کرنے کی کوشش میں رہتاہے ، اُن کی سوچ اور بات کرنے کی انداز میری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ جب بھی میں کسی پارٹی پر تنقید کرتا ہوں تو اس پارٹی کے ورکرز کی باتیں سُن سُن کر میں مایوس ہو جاتا ہوں کیونکہ اُن کے پاس کچھ خاص دلائل نہیں ہوتے ، بس ادھر اُدھر کی باتیں کر کر کے جب ہار جاتے ہیں تو گالیوں کو اپنا بڑاہتھیار یعنی ایٹم بم سمجھ کرپھینکنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ یاسر عباسی اُن سب سے مختلف ہے ، تو بات ہو رہی تھی کہ انہوں نے فون کر کے بتایا کہ’’ بھائی جب میں دس سال کا تھاتو میاں صاحب نے 1998ء میں ملک کو ایٹمی طاقت سے نوازا، اُس وقت ہم سکول میں تھے، مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ سکول کی تقریب جو 28 مئی پہ منعقد کیا گیا تھا، میں نے ایک تقریر کی تھی۔اُس وقت سے میرا پی ایم ایل این سے وابستگی ہے، جب میں کالج گیا تو ایم ایس ایف کا صدر منتخب ہوا اور بھر پور اپنی پارٹی کو وضع کیا، اُس وقت مشرف صاحب کا دور تھا مگر میں نے اس کی پروا کیے بغیر اپنی پارٹی کا پرچم تھامے رکھا۔کالج دور سے لیکر آج تک بہت سی پارٹیوں کی طرف سے مجھے پیشکش آئیں کہ ہماری پارٹی میں شامل ہوجائے مگر میاں صاحب سے محبت اور ہمارے جسم میں دوڑتا ہوا خون شائد مسلم لیگ کا ہی ہے جو ہمیں اپنی پارٹی سے علیحدہ ہونے نہیں دیتا، پارٹی کیساتھ وابستگی کی وجہ سے بے شمار مشکلات سے گُزرنا پڑا، جیلیں بھی کاٹی، ایف آئی آرز بھی ہوئی،تقریبا 22 دن جیل کی ہو ابھی کھانی پڑی مگر کبھی پارٹی سے غداری کا سوچا اور نہ ہی سوچیں گے، پارٹی نے پارٹی کیساتھ وابستگی اور خدمات کی وجہ سے مجھے یوتھ ونگ اسلام آبادکا جنرل سیکرٹری بنایا اور میں نے آج تک اس عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا بلکہ یوتھ کے کام کو اپنا فرض سمجھ کر کیا۔میں اپنی ساتھیوں کا بے حد شکر گُزار ہوں جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔میں شُکر گُزار ہوں ساجد عباسی صاحب کا اور انجم عقیل خان صاحب کا جو کہ میرے استادوں میں سے ہیں اور ہر وقت میری رہنمائی کرتے ہیں۔یوتھ ونگ ساتھیوں کے جنون نے مجھے عزت بخشی اور ہر اچھے بُرے دور میں میرا ساتھ دیا۔‘‘

انہوں نے اور بھی بہت باتیں کیں جو میں یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور سمجھ گیا کہ اُس کی دل میں عوام کیلئے کتنا جگہ ہے اور وہ غریبوں، لاچاروں اور بے سہارا لوگوں کی کیسے اور کس حد تک مدد کرنا چاہتاہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میں یاسر بھائی کو پہلے سے جانتا تھا لیکن یہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی پارٹی سے کتنا محبت کرتا ہے اور خاص طور پر عام عوام کیلئے دل میں کیا سوچتا ہے،میں اُن کی اس جذبے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ اگر وہ چئیرمین بن گیا تو حقیقت میں وہ چئیرمین نہیں بلکہ عوام کا خادم ہوگا اور غریب لوگوں کی خدمت اور اُن کے مسائل کو حل کرنا اپنا فرض اول سمجھ کر کریگا۔۔۔

قومیت، اور پارٹی بازی سے بالاتر ہو کر ہمیں صرف اور صرف پاکستان کی ترقی کیلئے کچھ کرنا چاہئے اور اپنی دل میں یاسر عباسی کی طرح جذبہ رکھنا چاہیے ، جسمیں عام عوام اور غریبوں کی بھلائی ہو۔۔۔