صدر اور وزیراعظم نے نوٹس لے لیا

"ـصدر اور وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا "یہ جملہ آپ نے اکثر اخبارات میں اس موقع پر پڑھا ہو گاجب ٹارگٹ کلنگ کا کوئی بڑا حادثہ شہر میں رونما ہوتا ہے یا کوئی بڑا پولیس اہلکار ،رینجرز کے کسی سپاہی کا اہدافی قتل ہوجائے تو صدر،وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی طرف سے ان ہی الفاظ پر مشتمل بیان سامنے آتا ہے ۔وزیر اعلیٰ کا مسئلہ تو یہ ہے کہ انھیں شاید سوتے میں سے اٹھایا جاتا ہے ،وہ ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں کہتے ہیں واقع کا نوٹس لے لو اور یہ کہہ کر پھر سو جاتے ہیں ۔آج کی خبر ہے کہ شاہ لطیف تھانے کی حدود ظفر ٹاؤن میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار نامعلوم مسلح افراد نے موبائل پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی سائٹ مجید عباس شدید زخمی ہو گئے اور اسپتال جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ۔واضح رہے کے گزشتہ 6ماہ میں 60سے زائد پولیس اہلکاروں کو شہید کیا جاچکا ہے جن میں تین ڈی ایس پیز اور ایک سابق سپرنٹنڈنٹ جیل بھی شامل ہیں ۔

مقتول افسر بلدیہ ٹاؤن کیس کی تحقیقات کررہے تھے اور اس سلسلے میں وہ کافی معلومات جمع کر چکے تھے ۔اس سے قبل کراچی ایک لسانی تنظیم نے دوروزہ ہڑتال اس بنیاد پر کیا تھا اس کے ایک کارکن وسیم دہلوی کو عزیز بھٹی تھانے کی پولیس نے گرفتار کر کے اتنا شدید تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا ۔ اس کی جو اندرون خانہ داستان اخبارات میں شائع ہوئی ہیں اس کے مطابق لسانی تنظیم کا یہ کارکن سانحہ بلدیہ کیس میں مطلوب تھا یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس تنظیم کے بلدیہ شیرشاہ یونٹوں کے بیشتر کارکنان انڈر گراؤنڈ چلے گئے ہیں جن کے بارے میں یہ شک ہے کہ وہ سانحہ بلدیہ میں ملوث ہو سکتے ہیں ۔وسیم دہلوی کے گرد رینجرز نے گھیرا تنگ کردیا تھا اور عنقریب اس کی گرفتاری متوقع تھی یہ بات لسانی تنظیم کے علم میں آچکی تھی ایک اور مقامی اخبار نے تفصیل شائع کی کہ پولیس میں موجود لسانی تنظیم نٹ ورک کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا ۔

لوگ اپنے دفاتر میں تھے کہ گھروں سے فون آنا شروع ہو گئے کہ ایک لسانی تنظیم کے کارکن کو پولیس نے گرفتار کرکے تشدد کیا اور میڈیکو لیگل میں پولیس تشدد ثابت بھی ہو گیا اس لیے دو روز کی ہڑتال ہے جس کو تنظیم کے رہنماؤں نے تو دو روزہ سوگ کا نام دیا ہے لیکن عملاَ یہ ہڑتال ہی تھی ۔مجھے محلے ایک فرد نے بتایا کہ اس نے ایک علاقے میں مٹھائی کی دکان کھولی ہے اس واقع سے دو روز قبل کچھ لڑکے اس کے پاس آئے اور کہا کہ پرسوں کے لیے آپ مال نہیں بنانا دکانیں بند ہو سکتی ہیں آپ نے چونکہ نئی دکان کھولی ہے اس لیے آپ کو بتارہے ہیں کہ کہیں آپ کا نقصان نہ ہو جائے ۔وہ فرد بڑا حیران و پریشان کے حالات تو بالکل ٹھیک ہیں اور یہ ہڑتال کی بات کررہے ہیں ۔اس سانحے میں کئی چیزیں بڑی حیران کن ہیں کہ بظاہر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایک شخص پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے اس پر فوری ایسا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ جاں بحق ہوجاتا ہے پھر فوراَ ہی اس کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی تیارہو جاتی ہے جس میں ثابت ہوتا ہے کہ پولیس تشدد سے ہلاکت ہوئی ہے پھر کسی خاص میکنزم کے تحت "مقتول کے لواحقین "جن میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں تھانے کے باہر احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں دوسری طرف جناح اسپتال کے باہر لسانی جماعت کے کارکنان روڈ بلاک کر دیتے ہیں ،بائیک سواروں پر تشدد کرتے ہیں ،پھر پورے شہر میں کارکنان مارکیٹوں اور بازاروں میں نکل کر آجاتے ہیں اور دکانیں اور بازار بند کروانے کے لیے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ۔

پولیس تشدد کے بارے میں ماہرین تشدد برائے پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس تشدد کرتی ہے جرم اگلوانے کے لیے نہ کہ جان سے مارنے کے لیے اور یہ زیادہ تر چمڑے کے چھتر سے کولہوں ،پیٹھ اور پیروں پر ضرب لگائی جاتی ہے تاکہ جلد پر چوٹ کااحساس شدت سے ہو اور کوئی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹنے پائے وسیم دہلوی کی بعد از مرگ جو تصویر شائع ہوئی اس میں سر سے خون بہتا ہوا نظر آرہا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ سر پر کوئی ایسی شدید ضرب لگائی گئی ہے جس سے موت واقع ہوگئی ، یہ صریحاَ قتل عمد ہے اس تشدد کا مقصد کچھ اگلوانا نہیں بلکہ کچھ اہم رازوں کو نگلے ہی رہنے دینے کے لیے سانسوں کی ڈور کاٹ دینا تھا تاکہ زندہ رہنے کی صورت میں کسی اور کے سامنے کچھ اگل نہ پائے ۔ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ سنا کے اتنی سرعت سے میڈیکو لیگل رپورٹ بھی تیار ہو گئی جس میں پولیس تشدد بھی ثابت ہو گیا ۔جب کہ ہمارا مشاہدہ تو یہ رہا ہے کہ پولیس تشدد سے جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس میں پہلے تو میڈیکو لیگل کے سلسلے میں لیت و لال سے کام لیا جاتا ہے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں ڈیپارٹمنٹ کے لوگ اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے اس میں رد وبدل کی کوشش کرتے ہیں یا پھر پیسوں کا استعمال بھی ہوتا ہے ان سب کے باوجود میڈیکو اتنی جلدی تیار نہیں ہوتی جتنی جلدی اس کیس میں نظرآتی ہے ۔کسی جگہ پر مظاہرہ کرنے کے لیے لواحقین مرحوم کا جمع ہونا اتنا آسان کام نہیں ظاہر ہے یہ کام تنظیم کی افرادی قوت نے کیا جس میں کچھ مرحوم کے رشتے دار بھی ہو سکتے ہیں ،پھر یہ غمزدہ لواحقین روتے ہوئے ،حکمرانوں کو کوستے ہوئے ،دونوں ہاتھ پھیلا کر بددعائیں دیتے ہوئے اور آہ و زاری کرتے ہوئے تصاویر میں نظر آتے ہیں یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ تھانے کے دروازوں پر زور آزمائی کی جارہی ہے اس میں "مرحوم کے لواحقین "چیختے چلاتے اور دروازہ توڑتے ہوئے تو نظر آ رہے ہیں لیکن کوئی شدت غم سے رو رہا ہے نہ پولیس والوں کو بددعائیں اور کوسنے دیے جارہے ہوں ۔

دوروزہ ہڑتال کا سن کر اعلیٰ حکام کے ہوش اڑجاتے ہیں اور فوری طور سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کوئی پولیس والا فرار نہیں ہوتا کے اسے یقین ہے کہ اس کا کچھ نہیں ہوگا اس لیے کہ اس نے ایک بڑے کاز کے لیے یہ کام کیا ہے اس لیے جلد یا بدیر وہ اس کیس سے بری ہو جائیں گے ․لیکن ہم یہ مطالبہ کریں گے ایم کیو ایم کے کارکن وسیم دہلوی کے قتل میں جو پولیس اہلکار گرفتار ہوئے ہیں ان پرفوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور انھیں شارع عام پر پھانسی دی جائے ۔

جب 2003کورنگی میں جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق ایم پی اے جناب اسلم مجاہد کو اغوا کرکے ان پر اتنا اور ایسا تشدد کیا گیا کہ وہ شہید ہو گئے اسی وقت اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایسے نٹ ورک کا پتا لگایا جاتاجو جو کسی خاص قسم کے اشاروں پر مخالفین کا قتل کردیتے ہیں تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا تھا یہ اس لیے کہ اسلم مجاہد کے اغوا تشدد اور قتل کے حوالے سے اس وقت کے ایس ایچ او کے نام کی بازگشت سنی گئی تھی ۔

1992میں کراچی میں جو آپریشن شروع کیا گیا تھا وہ کچھ عرصے بعد غیر موثر ہو گیا تھا اس آپریشن کے نتیجہ خیز نہ ہونے کے اسباب اور وجوہات میں یوں تو بہت ساری چیزیں تھیں لیکن ایک اہم سبب یہ تھا پولیس اس میں ٹھیک سے کام نہ کرسکی،لیکن جب بے نظیر بھٹو کے دور میں آپریشن شروع ہوا تو انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ پہلے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں آپریشن کیا جائے چنانچہ بیشتر "مشکوک "پولیس اہلکاروں کے اندرون سندھ تبادلے کیے گئے کچھ نئے اور پر عزم لوگوں کو داخل کیا گیا اور پھر نصیر اﷲ بابر نے پولیس ہی کے ذریعے آپریشن کیا جو ایک کامیاب آپریشن تھا لیکن اس وقت جن کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا وہ ببانگ دہل یہ کہہ رہے تھے کہ ان پولیس والوں سے بدلہ لیں گے ،اور پھر جب بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی بعد میں نواز شریف کی حکومت میں اور بالخصوص پرویز مشرف کی حکومت میں ان تمام پولیس والوں کو چن چن کر ماردیا گیا جنھوں نے کراچی آپریشن میں حصہ لیا تھا ڈی ایس پی مجید عباسی کے بارے میں بھی یہی خبر شائع ہوئی ہے کہ یہ نہ صرف بلدیہ فیکٹری کیس کی تحقیقاتی ٹیم میں موثر رول ادا کررہے تھے بلکہ یہ کراچی آپریشن میں بھی فعال تھے ۔

کراچی پولیس کا مورال انتہائی نچلی سطح پر آچکا ہے اس لیے یہ آپریشن صرف رینجرز کا آپریشن ہے اور پولیس کی طرف سے ان کی پژمردگی ، موت کی سی خاموشی اور انجانا خوف اس آپریشن کو ۔۔ کوآپریشن (تعاون)میں تبدیل کررہا ہے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.