کیا مقصود ہے یوگا سے : ورزش یا ہندتو کلچر کا فروغ ؟

نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندتو تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے اور اس کے دائر ہ کار کو ہندوستان کی حدو د سے نکال کر پوری دنیا تک پہچانے میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ یوگا کو اقوام متحدہ سے منظو ر کراکر اس کے لئے ایک دن کی تخصیص ہندتو کلچر کو بڑھانے کے سمت میں ایک بہت بڑی کو شش ہے۔ یو گا کیا ہے ۔ اس میں ہوتا کیا ہے ۔ اس کا مقصد کیا ہے اس سلسلے میں پہلے کو ئی بحث نہیں ہوتی تھی ہندو مذہب کے باباؤ ں کا یہ خاص عمل سمجھا جاتھا لیکن اب یہ صرف ہندومت نہیں بلکہ پورے ہندوستان کلچر مانا جائے گا ۔ 21 جون کو دنیا بھر میں یوگا ڈے اس حیثیت سے منایا جائے گا کہ یہ ہندوستان کا کلچر ہے ۔ ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، بدھشٹ ، جین ، پارسی ، یہود پر مشتمل ہندوستان کی ایک سو پچیس کروڑ آبادی کا یہ عمل ہے۔

کہنے کو تو یوگا ایک ورزش ہے۔ اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے لیکن یہ ایک دکھاوا ہے ۔ پس پردہ ہندتو فعل اور کلچر کو عالمی پیمانے پر فروغ دینے کی ایک منظم کوشش ہے جس میں مودی حکومت کامیابی سے ہم کنار ہوچکی ہے ۔ ہندومت کے ماننے والوں کے لئے اس میں اچھے دن کا پیغام ہے ۔ کیوں کہ ان کا جو مذہبی کلچر ہندوستان اور نیپال تک محدود تھا اب اس کی آہٹ دنیا کے ہرخطے میں سنائے دے گی ۔ 21 جون ہرسال ایک سو نوے ممالک میں یوگا ڈے منایا جائے گا ۔

یوگا کو لے کر ہندوستان میں ایک مذہبی مسئلہ سامنے آگیا ہے ۔ مسلم قیادت کے لئے یوگا پر فیصلہ کرنا ایک نیا چیلنج ہے۔ کچھ نام نہاد مسلم رہنما اسے محض ورزش کا نام دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مکمل طو ر پرشریعت مخالف قراردے رہے ہیں۔ تو کچھ حضرات یوگا میں استعمال ہونے والے کفریہ اور شرکیہ کلمات کو مستثنی کرنے کے بعد ا س کے جواز کے قائل ہیں ۔اس ضمن میں دارالعلوم دیوبند سے منسوب ہندی اخبارات میں فتوی پرمشتمل ایک فرضی خبر شائع ہورہی ہے جو حیران کن ہے اور اس سے زیادہ حیران کن خبر یہ ہے کہ اس پر یقین کرکے کچھ مسلم صحافی دارا لعلوم کے فتوے پر اپنا فتوی دے رہے ہیں ۔ میں آپ کو بتادوں کے یوگا کے سلسلے میں دار العلوم نے کوئی فتوی جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہاں کے مہتمم صاحب نے اس سلسلے میں کوئی بیان دیا ہے ۔ جو کچھ دار العلوم کے حوالے سے خبریں شائع ہورہی ہے وہ ہندی میڈیا کا پیرو پیگنڈہ ہے ۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء اور وہاں کے مہتمم صاحب نے یوگا کے حوالے کسی طرح کا فتوی جاری کرنے یا کوئی بیان دینے سے صاف طور پر انکار کیا ہے۔

یوگا صرف ورزش نہیں ہے بلکہ یہ ہندوتو کا ایک کلچر ہے ۔ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ شرکیہ اور کفریہ ہیں ایسے میں اس یوگا کا پابند اگر ہرایک کو بنایا جاتا ہے تو پھر یہ ہندوستان کے سیکولزم کے منافی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے لئے یہ شرک اور کفر ہے ۔ اگر سوریہ نمسار اور دیگر کفریہ کلمات کو وہاں سے ہٹابھی دیا جائے توبھی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ یوگا کرے کیوں کہ بہر صورت یہ ہندو مذہب کا کلچر ہے ، اس سے وابستہ عمل ہے ۔ جس طرح نماز ہمارے لئے ایک عبادت ہے ۔ اس سے مقصود حکم خدواندی کی تعمیل ہے ۔ اگر اس عمل سے جسمانی یا دیگر کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو وہ ایک اضافی عمل ہے ۔یوگا سے مقصود اگر صرف ورزش ہے، صحت اور نندرستی کا حصول ہے تو اس کا دوسر ا طریقہ بھی ہے ۔ امت مسلمہ پر فرض ہونے والی پنج وقتہ نماز سب سے بڑی ورزش ہے اور اس کے ہر ہر عمل میں کئی کئی فائدے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں قبل بابار ام دیو نے کہاتھا کہ یوگا پر اصرار غیر ضروری بحث ہے ، نماز بھی ایک طرح کا یوگا ہے۔

یوگا کا مقصد اگر وزر ش ہے تو پھر ورزش کے کچھ ایسے طریقے بھی ہیں جس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے ۔ اس کو اختیار کرنے میں کسی بھی اہل مذہب کی دل شکنی نہیں ہوگی ۔اگر بات ہم مسلمانوں سے ورزش کرانے کی ہے تو ہماری نمازیں ہمارے لئے عبادت کے ساتھ بے شمار جسمانی فوائد پر مشتمل ہے ۔ سائنس نماز کے ہر عمل سے منسلک جسمانی فوائد کی تصدیق کرچکا ہے ۔پھر ہمیں کیوں یوگا کا پابندبنایاجارہا ہے ۔ مسلم بچوں سے اسکولوں میں زبردستی کیوں یوگا کرانے کا منصوبہ ہے۔مسلم قیادت کھل کر یوگا کی مخالفت کرنے کے بجائے دبے لفظوں میں یہ کہ رہی کہ نفس یوگا غلط نہیں ہے البتتہ اس میں کہے جانے والے الفاظ شرکیہ ہیں اسے اگر ہٹادیا جائے تو کو ئی مضائقہ نہیں ہے ۔لیکن اعتراض تو نفس یوگا پر ہے ۔ اس کا پورا ڈھانچہ ہندوتو کلچر پر مشتمل ہے ۔سوال صرف اس میں استعمال ہونے والے شرکیہ کلمات پر نہیں ہے بلکہ اس پورے عمل پر ہے ۔ شرکیہ کلمات ہٹائے جانے کے اس سے کفر قباحت ضرور ختم ہوجائے گی لیکن ایک غیر قوم کا شعار اور تشخص باقی رہے گا ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ مشہور حدیث ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(جس نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا شمار میں اسی میں ہوگا)

حکومت کا مقصد اگر ورزش ہے تو پھر اس دن تمام مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے احکامات دے ۔ یا یہ فرمان جاری کرے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اپنے کسی ایسے مذہبی عمل کو انجام دیں جو ورزش اور طبی فوائد پر مشتمل ہو۔

یوگا صر ف ورزش نہیں بلکہ ہندومت کا ایک عمل ہے ۔ مذہب کا فروغ ہے ۔ہندوستان جیسے ملک میں اس کو لازمی قرار دینا سیکولزم کے منافی ہے کیوں کہ یہاں ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اورخلاف عقیدہ اعمال سے اجنتاب برتنے کا قانونی حق حاصل ہے ۔
 
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163498 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More