نواز شریف کا تیسرا دور، اسحاق ڈار کا تیسرا بجٹ

میاں محمد نواز شریف پاکستان کے وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو 2013کے عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ پہلا دور یکم نومبر 1990سے شروع ہوا جولائی میں غلام اسحاق خان نے انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا ،دوسرے دور کا آغاز فروری 1997 سے ہوا 13سال 7ماہ اور 21 دن بعد12اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ان کی بِساط لپیٹ دی۔ تیسرا دور جون 2013میں شروع ہوکر تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہے۔ اس دوران بھی ایسے حالات آکر گزر چکے ہیں کہ جب یہ احساس ہوچلا تھا کہ میاں صاحب اب گئے کے جب گئے لیکن اﷲ نے انہیں محفوظ رکھا۔دھرنے اور انقلابوں کی تیز آندھی تیسری بار چراغ گل کرنے کو تھی لیکن قسمت کی دیوی نے ساتھ دیا اور میاں صاحب اس آندھی سے بچ نکلے۔ جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ ہر ایک عوام کی طاقت سے آنے والا اپنا مقررہ وقت پورا کرے، لیکن سیاست میں کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہوتی، کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔تھرڈ امپائر کسی بھی وقت ریڈ لائٹ جلاکر کھیل کی بساط لپیٹ سکتا ہے خواہ وہ دیکھنے میں سیدھا سادھا، معصوم سا ضیاء الحق ہی کیوں نہ لگتا ہو۔

میاں صاحب کے تیسرے دور کا تیسرا بجٹ میاں صاحب کے محبوب وزیرِ خزانہ ، سمدھی اور سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پیش کرچکے۔ کسی نے کیا خوب لطیفہ تیار کیا ہے کہ ’اگر نواز شریف نے اعلیٰ عہدوں پر اپنے رشتہ دار تعینات کیے ہیں تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے ‘ ورنہ آج کے دور میں رشتہ داروں کو پوچھتا کون ہے‘۔ بات تو درست ہے، عزیز رشتہ دار تو دور کی بات ہے خونی رشتوں میں خون سفید ہوگیا ہے۔ وزیر ِخزانہ کی تقریر دیکھی، سنی، اخبارات میں پڑھی اور اس پر اہل علم و دانش کے تبصرے و تجزیے بھی نظر سے گزرے۔میاں صاحب نے 1981میں پنجاب کی حکومت کے وزیر خزانہ کے طور پر ہی اپنی سیاست کا آغاز کیاتھا۔ ان کی اگلی منزل پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھی اور پھر یکے بعد دیگرے تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم کے مرتبے پر فائز ہوئے۔قبلہ اسحاق ڈار صاحب نے بھی وزیر خزانہ کا کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے لیکن ان میں وہ صلاحیت دکھا ئی نہیں دے رہی کہ یہ بھی میاں صاحب کی طرح وزارت ِ خزانہ سے وزارت اعظمیٰ کے مسند پر پہنچ سکیں۔ اول تو چھوٹے میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے تخت لاہور کے بعد اپنا تخت اسلام آباد میں بچھانے کے خواہش مندہوں گے۔ان کی موجودگی میں سمدھی صاحب نمبر دو ہی رہیں گے۔ قبلہ وزیر داخلہ بھی تو طاقت کا سرچشمہ دکھائی دیتے ہیں۔وہ بھی خوابوں کی جنت میں نظر آتے ہیں۔ کئی بار میاں صاحب کو خاموش پیغام دے چکے ہیں ۔ تین تین ماہ میاں صاحب سے ملاقات نہیں کرتے، آخر کو ملک کی اہم ترین وارت کو بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔

بات بجٹ کی کرنا تھی کہا ں سے کہاں نکلی گئی۔ موجودہ دور حکومت کا یہ تیسرا بجٹ وزیر داخلہ ڈار صاحب نے پیش کردیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں اس پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوچکا ہے۔قائد حزب ا ختلاف خورشید شاہ صاحب نے بجٹ پر طویل ترین تقریر کر کے سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ۔ اگر یہ بجٹ ان کی حکومت نے پیش کیا ہوتا تو یہ دنیا کا بہترین شاہکارہوتا کیونکہ وہ اس وقت سندھ کے علاوہ حزب مخالف کا کردار ادا کررہے ہیں اس وجہ سے انہوں نے اس بجٹ میں سینکڑوں خامیاں اور کیڑے گنوادئے۔ہماری سیاست میں حزب اختلاف نے اپنا کام اختلاف کرنا تصور کیا ہوا ہے، جب کے حزب اقتدار نے اپنے ہر عمل کو آسمانی صحیفہ تصور کرتے ہوئے ا س کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردینا ہے۔ جب پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ پیش کرتی تھی تو نواز لیگ مگر مچھ کے آنسو بہایا کرتی تھی، شورشرابہ کرکے یہ دیکھانا ہوتا تھا کہ وہ حزب اختلاف میں ہے حالانکہ اس وقت وہ حکومت وقت سے اندرون خانہ ملے ہوئے تھے۔ ظاہر کچھ باطن کچھ تھا ۔اب صورت حال اس کے برعکس ہے اب پی پی ظاہری طور پر مگر مچھ کے آنسوبہارہی ہے، بجٹ کو دنیا کا خراب ترین بجٹ گردان رہی ہے حالانکہ اندر سے معاملا مختلف ہے۔ مخالفت کا انداز ہی بتا ددیتا ہے کہ بناوٹی مخالفت ہے یا حقیقی۔ یہ نہیں کہ یہ بجٹ عوام دوست، عوام ہمدردہے یہ بھی سابقہ بجٹوں کی طرح ایک روایتی بجٹ ہے۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہر سال جون کا مہینہ غریب عوام کی جون بدل دیتا ہے۔ بجٹ خوف کی صورت میں ان پر پہاڑ بن کر گرتا ہے اور ان معصوموں کی کمر جھکا دیتا ہے۔

ہمارے سیاست دانوں کی پیدائشی تربیت اور تعلیم یہ ہے کہ اگر حکومت میں ہو تو سب اچھا اچھاکے گیت گانے کا نام سیاست ہے ۔ اگر حکومت میں شامل نہیں ہوسکے ،عوام نے اقتدار سے نکال باہر کیاتو اس صورت میں سب برا سب برا کی رٹ لگانا ہی سیاست ہے۔ کسی نے بہت درست کہا کہ بجٹ دراصل اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔ وزیر خزانہ خواہ کوئی بھی ہو اُسے بجٹ کی تیاری سے کیا لینا دینا، اُسے تو ہمارے بیوروکریٹ مسودہ تیار کر کے دیدیتے ہیں ، وزیر موصوف رات بھراُس کا رَٹا لگاتے ہیں صبح اسمبلی میں یاٹی وی اسکرین پرایسے بجٹ تقریر پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے یہ اعداد و شمار اور یہ الفاط اور یہ جملے خود ان ہی کے تخلیق کردہ ہوں، ماسوائے چند چیزیوں کے انہیں ککھ پتا نہیں ہوتا کہ بجٹ کیسے تیار ہوا۔ اس میں ان کا قصور بھی کیا ہے یہ تو ہماری سیاست کی روایت ہے۔ اقتدار میں آنے والی حکومتی پارٹی کا سربراہ خاص خاص حکومتی محکمے اپنے وفادار اور بہ اعتماد لوگوں کو سونپنے کی دھن میں رہتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ جو محکمہ میں کسی شخص کے سپرد کررہا ہوں وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے وزیر اعظم اپنے پاس کئی کئی محکمے بھی رکھے رہتا ہے یا پھرکسی ایسے شخص کو جو اس کا قریبی اوربہ اعتماد ہوکو کئی کئی شعبے دے دیتا ہے ، اگر منتخب رکن اسمبلی نہ ملا تو کسی بھی بہ اعتماد شخص کو متعلقہ محکمہ کا مشیر بنا کر ذمہ دریاں اُسے سونپ دیتا ہے۔ میاں صاحب کے پاس بھی بعض محکمے رہے۔ وزیر دفاع کا قلم دان بہت بعد میں اپنے اعتمادیے خواجہ آصف جو پانی وبجلی کے وزیر تو تھے ہی کوئی دوسرا اعتمادیہ نہ ملا تو اہم وزارت’ دفاع‘ کا قلم دان بھی انہیں سونپ دیا ۔ ایک اور اعتمادیے پرویز رشید جو اطلاعات کا قلم دان رکھتے تھے انہیں قانون و انصاف ، ہیومن رائٹس کا اضافی قلم دان بھی دے دیا گیا، ورزرت خارجہ کے لیے کوئی بہ اعتماد کا رکن اسمبلی نظر نہیں آیا تو مشیر سے کام چلایا جارہا ہے۔ سرتاج عزیز جو کامرس میں پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹس ، ہاورڈ یونیورسٹی کے Development Economics ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں کو اپنا مشیر برائے نیشنل سیکیوریٹی اور خارجہ امور کا قلم د ان سونپ دیا گیا ۔ سرتاج عزیز فائیناس کے آدمی ہیں ، ان کی ایکسپرٹیز معاشیات ہے انہیں بنانا ہی تھا تو وزارت خزانہ کا مشیر بنادیتے لیکن سمدھی کو چھوٹی موٹی وزارت تو دی نہیں جاسکتی تھی۔کیونکہ وہ بھی تو قریبی ہیں اور Chartered Accountant ہیں۔ سینیٹر ہیں، سابقہ ادوار میں بھی وزارتوں کا بوجھ اٹھا چکے ہیں۔ اہتماد کا آدمی ہے تو اُسے ایک سے زیادہ محکمے سپرد کردیے جاتے ہیں۔ ٹیلنٹ ، صلاحیت ، ملک و قوم کی بھلائی دوسرے نمبر ، مقدم اعتماد کا ساتھی ہونا ہماری سیاست ہے۔ ملک میں کیسا کیسا ٹیلنٹ، پڑھے لکھے، تجربہ کار، ھنر مند ، بہ صلاحیت لوگ موجود ہیں ان سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاناا س لیے گوارہ نہیں کہ ان کا ان کی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا۔ ہم اس ٹیلنٹ کو یہ کہہ کر ذائع کردیتے ہیں کہ ان کا سیاست سے کیا تعلق، ٹیلنٹڈ، پڑھے لکھے شخص نے اپنی زندگی حصول علم میں صرف کی ، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اگر وہ سیاست کرتا تو اس کا ٹیلنٹ ضائع ہوجاتا، پڑھ لکھ کر اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے اس نے نوکری ہی تو کرنی ہے۔ ہم اسے بیوکریٹ، سرکاری ملازم ، پروفیسر ، ڈاکٹرکہہ کر اس سے استفادہ کرنے کو اپنے شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔کبھی کسی بھی جامعہ کا وائس چانسلر ریٹائر ہونے کے بعدکسی محکمہ کا سربراہ ہوا، کوئی ماہر اقتصادیات ریٹائر ہونے کے بعد کسی سیاسی جماعت میں کسی اہم عہدہ پر دکھائی دیا۔ ڈار صاحب کیونکہ سمدھی ہیں اس وجہ سے ان میں اقتصادیات کی بلندی ہے، مہارت ہے، جابک دستی
ہے تمام تر صلاحیتیں ان میں سربراہ حکومت کو نظر آتی ہیں۔

موجودہ بجٹ برائے سال 2015-16کے اعدادو شمار کا تجزیہ تحریرکو طویل تر بنادیے گا اور حاصل کچھ بھی نہ ہوگا۔ اعداد و شمار ایک گورکھ دھندا ہے ۔ ویسے بھی میں اقتصادیات کا ماہر نہیں اور بجٹ کے اعداد و شمار لکھ لکھ کرقاری پر روب ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا ، نہ اس طرح اپنا دامن بچانا چاہتا ہوں ۔ بجٹ کی جذیات میں جانے سے قارئین کے ذہن کو بوجھل کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ چنانچہ اس کی موٹی موٹی باتوں کا ہی جائزہ لیاہے۔ جو بات بہت صاف نظر آرہی ہے وہ یہ کہ یہ کوئی خاص بجٹ نہیں، سابقہ بجٹ کے اعداد و شمار کو الٹ پلٹ دیا گیا ہے۔ بجٹ تو وہ مثالی ہوتا ہے جو عوام دوست ہو، اس میں غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کی گئی ہوں۔ اشیائے خورد و نوش کے سستا ہونے کے عملی اقدامات کیے گئے ہوں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کی مناسبت سے اضافہ کیا گیا ہو، محنت کشوں، مزدورں، غریبوں کے لیے ذریعہ معاش کے ذرائع پیدا کیے ہوں، عام کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کیے گئے ہوں۔ جوحکومت بجٹ سے چند روز قبل پیٹرول کی قیمت بڑھا دے اور بجٹ میں کہے کہ ہم نے پیٹرلیم مصنوعات کی اشیا ء کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں تووہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول چھو نکنے کے مترادف ہے۔ بجٹ تقریرمیں کہتے ہیں کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا، گھی اور تیل پر ڈیوٹی یا پیک دودھ کی قیمت نہیں بڑھائی، موبائل فون کی قیمت میں کمی ہوئی، جب پیٹرول بڑھ گیا تو سب کچھ بڑھ گیا۔ یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کامطلب
تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

گزشتہ سال کا بجٹ 39کھرب کا تھا اسے وزیر خزانہ نے بڑھا کر 44کھرب کے قریب کردیا۔ یہ پانچ کھرب کہاں سے آئیں گے۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے عوام پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا صرف عام دکاندار سے بڑے تاجر تک، دال سے لے کر عام اشیاء پر سو سو فیصد ٹیکس بڑھا دیا گیا۔جن اشیاء پر ٹیکس عائد کیا گیا ان میں مشروبات، پیکٹ والا دھی، مکھن، پنیر، پیکٹ میں دستیاب دودھ، موبائل فون، سیگریٹ، کاسمیٹکس شامل ہیں۔ مہنگائی نے ایک عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے، ہر کوئی اس بات سے باخوبی آگاہ ہے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے لیکن ہمارے وزیر خزانہ کو اس مہنگائی کے مقابلے میں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کو صرف ساڑے سات فیصد اضافہ کافی لگا ، یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، ہر کوئی اسے ایک مزاق گردان رہا ہے۔ حتیٰ کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور ، شماریات اور نجکاری نے اپنے اجلاس میں جو سینیٹر الیاس بلور کی زیر صدارت ہوا قائمہ کمیٹی نے سرکاری ملازین کی تنخوہوں میں دس فیصد اضافے کی شفارش کی ہے۔حکومت سندھ نے اتنا ضرور کیاکہ مرکز سے سبقت لے جاتے ہوئے دس فیصد اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وزیر اعظم صاحب بجٹ کے پاس ہونے تک سرکاری ملازمین اور پینشنرز کی تنخواہوں میں دس فیصد کا اعلان اپنے چھیتے وزیر خزانہ سے کرادیں گے ۔

16کھرب 25ارب روپے کے اس خسارے کے بجٹ میں 200ارب روپے سے زیادہ کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ بر آمدات کا ہدف 20.5ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ ترقی کی شرح نمو 6فیصد رکھی ہے ، ہم تو مقروض ملک ہیں ہماری شرح نمو 6کیا 5بھی زیادہ ہے۔ صحت کے لیے 11ارب 10کروڑ رکھے گئے ہیں، فلاح و بہبود کے لیے 5ارب 10کروڑ مختص کیے گئے ہیں، صنعتی ترقی کا ہدف 6.4فیصد رکھا گیا ہے۔ٹیکسٹائل کے لیے 64ارب روپے کا مالیاتی پیکج اور دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ شمسی توانئی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی صنعتوں کو پانچ سال تک ٹیکس سے مکمل چھوٹ بجٹ کا حصہ ہے، سیمنٹ سستا کرنے کا اعلان ہے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1514ارب روپے رکھے گئے ہیں،تعلیم و صحت کے لیے صرف 97ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سب سے اہم دفائی اخراجات کے لیے 80ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں ، تعلیم و صحت پر بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہ کرنا حکمرانوں کی سوچ کس جانب ہے اس کا پتہ دے رہی ہے۔ خیبر پختون خواہ میں 2018تک لگائے جانے والے صنعتی یوینٹو کو پانچ سال ٹیکس سے مثتثنیٰ کردیا گیا ہے، کراچی پر اپنی عنایتیں کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے 16ارب روپے کی لاگت سے گرین لائن بس منصوبے کا اعلان کیا ہے۔یہ گرین بس سروس پہلے بھی شروع کی گئی تھی جو کہ بری طرح ناکام ہوئی۔ ایک اچھی بات جو بجٹ میں نظر آئی وہ یہ کہ سرکاری محکموں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل ملازمین کو 10ہزار روپے ماہانہ کا الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے تو دوسری جانب ریٹائر ہوجانے والے پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل اساتذہ سے یہ سہولت واپس لے لینا نہ انصافی اور غیر اخلاقی ہے۔ عزت و اعزاز دے کر واپس لے لینا کسی بھی طور مناسب نہیں ۔ اس سہولت کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔کسانوں کے لیے قرضہ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، بیت المال کے بجٹ میں اضافہ اچھا اقدام ہے۔

بجٹ میں مختلف شعبہ جات میں رقم کے ردو بدل کر دینے سے ملک ترقی نہیں کرتا ۔ بلکہ بجٹ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں، حکومت اپنے اخراجات کیسے پورے کرے گی، کرپشن کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا، تعلیم و صحت کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دفاع پر توجہ دینا اہم ہے خاص طور پر جب کہ ہمارا پڑوسی ملک ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے بعد اس بات کے امکانات بہت کم ہوگئے ہیں کہ اب مستقبل میں دونوں ممالک کسی بھی جنگ میں گودیں، کوئی بھی حکمراں ایسی غلطی ہرگز نہیں کرے گا۔ چنانچہ اب اس طرف سے توجہ تعلیم اور صحت پر مرکوز کرنا بہت ضروری ہے۔ تعلیم کواہمیت نہ دینا ہماری ایسی غلطی ہے کہ جس کا تدارک ہم صدیوں نہیں کرسکیں گے۔ ہمارے ملک میں بے شمار مسائل تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے کے باعث جنم لے رہے ہیں، ہماری ترقی کا دارومدار بھی تعلیمی اصلاحات پر ہے۔ لیکن ہم تعلیم کو اپنی ترجیحات میں رکھ ہی نہیں رہے، ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں جس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ میں تعلیم و صحت کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھا جائے ۔ تب ہی ہم حقیقی معنوں میں ترقی کرسکیں گے۔(15جون2015)


 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437775 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More