برما ! مسلم کشی اور بے حس مسلم حکمران

ظلمت و تاریکی میں غرق یہ علاقہ کفرکا گڑھ تھا۔یہاں بتوں کی پوجا پاٹ کا سلسلہ صدیوں سے جاری تھا۔اس دھرتی پر رب ِیکتاکا نام لیوااورماننے والاکوئی نہیں تھااورنہ ہی یہاں کے لوگ محمدعربی ﷺکی حیات ِ مبارکہ سے واقف تھے۔رنگون کے ساحلوں پراُترنے والے عرب تاجراورآبادکارمسلمان مہاجرین یہاں رہائش پذیرہوئے، پھرمسلمان فاتحین آئے،ان لوگوں نے یہاں شادیاں کیں۔اس باہمی میل جول سے یہاں کے کچھ مقامی لوگوں نے اِسلام قبول کیا۔اِسلام قبول کرنے کے بعد یہ لوگ اکثریت سے کٹ کراقلیت بن گئے۔جتنی پرانی تاریخ اس خطہء میں اِسلام کی روشنی پھیلنے کی ہے،یہاں کے مسلمانوں پر مظالم کاسلسلہ بھی اتنا ہی قدیم اورطویل ہے۔یعنی جس دن سے یہاں کے لوگوں نے اِسلام قبول کیا،اُس دن سے مقامی لوگوں نے انہیں اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ان کے معصوم بچوں کوان کی نظروں کے سامنے ذبح کیاجاتا، ان کی عورتوں کی عصمت دری کی جاتی،یہاں تک کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیا ۔مگران لوگوں نے اپنے دین وایمان کا سودا نہ کیا۔یہ دین ِ اِسلام کی خاطرمقامی اکثریتی آبادی کا ہرظلم وجبرخاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ ان کا قصورصرف اتنا تھا ،کہ یہ لوگ بت پرستی چھوڑ کر رب ِیکتا اورمحمدعربی ﷺ کے ماننے والے بن گئے۔

1997 میں بُدھ مت کے غنڈوں نے منظم سازش کے تحت مسلم کش فسادات کا آغازکیا،جس کے تحت برما کے مسلمانوں پر اجتماعی طور پرحملے کئے گئے۔ان پرتشددحملوں اور ہنگامہ آرائی کے دوران ابتدائی طورپرتین مسلمان شہیدہوئے۔جب کہ بے شمارمسلمانوں کے کاروباراور گھروں کولوٹ لیاگیا۔ان کی دوکانوں اورمساجدکو پیڑول چھڑک کر نظر آتش کردیاگیا ۔2001میں تشدد پسندبدھ بھگشوؤں کی جانب سے وسیع پیمانے پرمسلمان مخالف پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔جن میں افغانستان کے شہربامیان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی کوبنیاد بناکر"اِنتقامی کارروائی "کے لئے مسلم مخالف جذبات کو بھڑکایا گیا۔ان فسادات کے ابتداء ہی میں 200 مسلمانوں کوشہیداوربے شمار گھروں ومساجد کوجلایادیاگیا ۔فسادات کی جڑیں روزبروزگہری ہوتی گئیں ہرطرف سے مسلمانوں پر حملے ، لوٹ ماراورمسلم اکثریتی آبادی کے علاقوں میں قتل عام کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا۔برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم ریاستی دہشت گردی کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتاہے کہ اس تمام ہنگامہ آرائی میں فوج اور پولیس نے خاموش تماشائی کاکردار ادا کیا۔

برما میں پہلے سے جاری دہشت گردی میں نئی لہر پہلے سے بھی بدترتشدد اور ہلاکتوں کا باعث بنی۔جس کی ابتداء 3جون 2012برما کے مغربی علاقہ راکھان(راکھائن) سے ہوئی ۔جہاں بوزی قبائل کے دہشت گردگروپ نے ایک مسافربس میں سوار تبلیغی جماعت کے10افرادکو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔جس کے ردِعمل میں صوبائی دارلحکومت "اکیاب" اور"منگڈو" شہر کے مضافات میں پرامن احتجاج کے لئے لوگ جمع ہوئے توبدھ دہشت گردوں نے اندھا دھندفائرنگ سے سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کوبے رحمی سے شہیدکردیا۔اس کے بعدمسلم مٹاؤ پالیسی کے تحت وسیع پیمانے پر قتل وغارت گری کے واقعات میں روزبروزتیزی آتی گئی۔صوبائی دارلحکومت" ا کیاب" کی تمام مسلم بستیاں جلا دی گئیں۔ محض 10دنوں3جون سے 12جون تک مسلمانوں کے 500سے زائددیہات صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے۔کم وبیش 50ہزارمردوں،ضعیف العمربزرگوں، عورتوں اورمعصوم کو بچوں قتل کردیاگیااورہزاروں مسلمان نوجوانوں کو غائب کردیا گیا۔

برما میں گزشتہ بیس سال سے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ یہاں کے بدھ دہشت گردبے رحم اوربھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ رہے ہیں۔عورتوں،ضعیف مردوں،معصوم بچوں کے قتل ِ عام کے بعدان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اس درندگی میں مسلمانوں کے شہر، بستیاں اور دیہات جلا کر خاکستر اورصفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔ برما کی گلیوں اور ندی نالوں میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔عام شاہراوں اور جنگلوں میں جابجامظلوم مسلمانوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔
سارے کا سارا کفر ایک دوسرے کا حمایتی اور یکجاہو چُکا ہے۔آج تمام غیراسلامی قوتیں اُمت ِمسلمہ کے خلاف متحداوراکٹھی ہوگئی ہیں۔ تمام غیرمسلم طاقتیں مسلمانان ِ عالم کی اس حالت زار پرخوش ہیں ۔ایک طرف یہ غیر مسلم طاقتیں مسلم ممالک کے وسائل کو بے رحمی سے لوٹ رہی ہیں تو دوسری جانب ان وسائل سے حاصل شدہ آمدن کواُمت ِ مسلمہ کے معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل ِ عام کے لئے وقف کررکھاہے۔یہود ونصاریٰ مسلمانوں کے درمیان ،فرقہ بندی،تفرقہ بازی ،اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پرعرصہ ِدراز سے عمل پیرا ہیں۔

جبکہ دوجہاں سے بے فکر ، جھوٹ ، مکروفریب ،خودپسندی وخود فریبی میں مبتلا مسلمان اس دھوکہ میں پڑے ہیں کہ شاید یہ بد ترین اورکٹھن حالات صرف برما کے مسلمانوں کے لئے ہیں۔ ہم تو ہمیشہ اسی طرح آسودہ حال اورچین سے رہیں گے۔ آج دُنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کردیا ہے ۔اسی غفلت اورنااہلی کے سبب آج کے مسلمانوں نے اجتماعی طورپراپنے اِسلاف کا کرداراوراِسلام کاشاندار ماضی بھی یکسر بھلادیا ہے۔

ہمارامیڈیا، حکمران اورسیاسی راہنما کفر کے ہاتھوں اس قدربے بس و مجبور ہوچکے ہیں کہ ہرطرف خاموشی اور بے حسی کاراج ہے۔ آج پوری اسلامی دُنیامیں اﷲ سے ڈرنے والا ، قانون وانصاف کا پابند اورصاحب کردار ایک لیڈر بھی نہیں جوعالم ِ اِسلام کے تمام مسلمانوں کو آپس میں متحد اوریک جاں کرسکے۔جو دُنیا بھرکے مسلمانوں کی نمائیندگی کرتے ہوئے ،برما کے بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل ِ عام کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔

برما کے بدھ بھگشوؤں کی درندگی اوربربریت کی مثال تاریخ ِ انسانی میں نہیں ملتی ۔تمام عالمی ادارے،اِنسانی حقوق کی تنظیمیں،این ۔جی ۔اوز عالم ِکفرکے زیرکنڑول ہیں۔اس لئے برما کے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم،سفاکیت اوردرندگی پر ان کی خاموشی توسمجھ میں آتی ہے۔مگر عالم ِاِسلام کے تمام ممالک کے سربراہان کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔آخرانہیں اپنے غریب و مجبوراور مظلوم مسلمان بھائیوں کی پرواہ کیوں نہیں؟ برمامیں وسیع پیمانے پرمسلم کشی روکنے کے لئے کوئی دلیرانہ اورٹھوس اقدام کیوں نہیں کیا جارہا؟

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔کہ جو شخص ایسے وقت میں مسلمان کی مدد نہ کرے کہ اُس کی آبروریزی ہو رہی ہوتو اﷲ جل شانہ،اس کی مدد سے ایسے وقت میں اعراض فرماتے ہیں جبکہ وہ مدد کا محتاج ہو۔

تمام مسلمانوں کو جسم ِواحد قراردیا گیا۔ کہ جسم کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم بری طرح تڑپ اُٹھتا ہے۔ اسی طرح اگر دُنیاکے کسی حصہ میں کسی مسلمان کوتکلیف پہنچے تو ہر مسلمان کواپنے بھائی کے لئے بے چین ہوجانے کی تعلیم دی گئی ہے۔برما کی مقامی آبادی کے لوگ جو اول اول مسلمان ہوئے ، شایداُنہوں نے سوچا ہوگا ،چونکہ سارے عالم کے مسلمان ایک جسم کی مانندہیں ،ہم یہاں کے لوگوں کے اختلاف کے باوجود مسلمان ہو گئے توبھی کوئی ڈریاخوف نہیں۔ ان مقامی لوگوں کی مخالفت اورایذارسانی پردُنیابھر کے مسلمان ہماری مدد کو آپہنچیں گے۔ شاید اُنہوں نے ہند وستان کی ایک بیٹی کی فریاد پر،عرب سے لشکرکی آمداورراجہ داہرکی گوشمالی کا قصہ بھی سن رکھا ہوگا۔مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ آنے والے وقتوں میں یہ مسلمان آپس کی تفرقہ بازی اوردُنیا کے جاہ جلال میں اس قدر منہمک ہوجائیں گے کہ ان کے ہمسائے میں ہماری نسل کی عورتوں اور معصوم بچوں کے زندہ جلائے جانے پرترس آئے گا اورنہ ہی ان کی آنکھ سے آنسو ٹپکے گا۔

اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالم ِاسلام میں امن و سکون عطاء فرما ۔ (آمین ثم آمین یارب العالمین)۔
 
MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92447 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.