بھارت کی جانب سے پاکستان پرحملے
کی دھمکی کے بعد ملک میں جس اتحاد، یکجہتی اور یکسوئی کا مظاہرہ دیکھنے کو
مل رہا ہے، وہ قابل اطمینان بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ وہ اس لئے کہ ہمارے
ہاں بھارت کے ہر کھلے اور بڑے سے بڑے جرم اور دشمنی پربھی مذہبی اور غیر
مذہبی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کی جانب سے بالعموم مکمل خاموشی ہی اختیار
کی جاتی ہے۔ویسے تو یہ بھی آج تک سمجھ میں نہیں آ سکا کہ بھارت کی بڑی سے
بڑی ملک دشمنی پر بھی اس کے خلاف زبان کھولتے ہوئے ملک پر مر مٹنے اور سب
سے اول وفاداری کے دعویداروں کو بھی آخر کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟ بہرحال
اب کے کچھ حالات تو یوں بدلے کہ بھارت نے اپنے دعوے کے مطابق برما کی سرحد
کے اندر جا کر اپنے مخالف ماؤنواز آزادی پسندوں کو نشانہ بنایا۔ اس دعوے کی
بھی مکمل تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ ابھی تک تو اس کی (جعلی ہی سہی) تصاویر
تک بھی نہیں دکھائی گئیں۔ اس کارروائی پر بھارتی سرکار کچھ کہتی ہے، فوج
کچھ، میڈیا کچھ اور بھارت کے قومی دانشور کچھ، ساتھ ہی برما کی جانب سے بھی
تردید آ چکی ہے کہ بھارت نے اس کی سرحد کے اندر آ کر کوئی حملہ نہیں کیا۔
ساتھ ہی کہا کہ بھارت نے عسکری کارروائی اپنی سرحد کے اندر ہی کی ہے۔
چلئے جو بھی تھا…… بھارت کا ایسے دعوے کے بعد پاکستان کو دھمکی دینا ہمارے
لئے ایک بڑا لمحہ فکریہ تھا۔ اس کے جواب میں ہمارے ہاں ہر سطح سے زبردست
جواب سننے کو ملے۔ ’’منہ توڑ جواب دیا جائے گا، ہم برما نہیں، ہم ایٹمی قوت
رکھتے ہیں، ہمارے پاس انتہائی طاقتور فوج ہے، قوم متحد ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ……
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں اور کسی کی تردید یا تنقیص بھی مقصود نہیں،
البتہ اس کی اصلاح اس حوالے سے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اور
مسلمان کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا دفاع اس کے رب تعالیٰ کی طرف سے ہوتا
ہے۔ ہمیں بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی بات کرتے وقت اپنے رب کو کبھی اور
کسی صورت نہیں بھولنا چاہئے۔ اس کے لئے قرآن و حدیث میں ہمارے لئے صاف اور
روشن رہنمائی موجود ہے۔ حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کے واقعہ ہی کو دیکھ
لیجئے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ کا حکم پورا کرتے ہوئے اپنے اکلوتے لخت جگر
کو لٹا کر ان کے گلے پر چھری چلانا چاہی لیکن اﷲ کی طرف سے چھری کو چلنے کا
حکم نہیں تھا، سو وہ نہیں چلی۔ حالانکہ چھری کا کام تو ہرحال میں کاٹنا ہے۔
وہ کبھی دوست دشمن، اپنا پرایا تو نہیں دیکھتی لیکن جب اس چھری کو اﷲ کی
طرف سے کاٹنے کا حکم نہیں تھا تو بے جان ہو کر بھی اس نے اپنا طے شدہ کام
نہیں کیا۔ ہماری ہر عسکری صلاحیت و قوت اپنی جگہ کہ اس کا حکم بھی اﷲ نے
دیا ہے اور قرآن میں اﷲ نے صاف فرمایا ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو تاکہ
تمہارے اور ہمارے (اﷲ کے) دشمن تم سے ڈرتے رہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس
کا کہیں قطعاً مطلب یہ بیان نہیں ہوا کہ مسلمان کا سارا سہارا اس کے ظاہری
اسباب پر ہی ہوتا ہے۔
اسلام کی تاریخ کے پہلے سب سے بڑے معرکے غزوہ بدر کی مثال لے لیجئے، کہنے
کو تو اہل اسلام کے پاس مقابل آنے والی قوت سے لڑنے کیلئے کچھ بھی نہیں
تھا۔ اب بھلا عرب کی انتہائی طاقتور، تربیت یافتہ اور ہر طرح کے اسلحہ سے
لیس فوج کا کھجور کی چھڑیوں اور بچوں، بوڑھوں کی بھی معقول تعداد رکھنے
والی کہیں کمتر عددی نفری کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے……؟ بظاہر تو ہرگز
نہیں لیکن جب اس میں اﷲ کا حکم اور مرضی شامل ہوئی تو اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں
سے فرشتوں کی فوج اتار دی کہ اہل ایمان تو اپنے اسباب نہیں اﷲ کی مدد و
بھروسے پر ہی میدان میں اترے تھے۔ ہمیں اپنے ایٹمی ہتھیاروں، ایٹمی
میزائلوں، بہادرو تجربہ کار فوج کے ساتھ دشمن بھارت کا مقابلہ کرنے کے
اعلان کے ساتھ ہمیشہ اپنے رب تعالیٰ کا نام، اس کی مدد اور اس کی نصرت کی
طلب کو ضرور شامل کرنا چاہئے کیونکہ ہم تواس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ اگر محض
عسکری قوت اور مال و دولت سے جنگ جیتنا ممکن ہوتا تو ابتدائے اسلام سے لے
کر آج تک شاید ہی مسلمان کبھی کوئی جنگ جیت سکتے۔ کیونکہ تاریخ میں ایسے
واقعات شاذ ہی نظر آئیں گے کہ مسلمانوں کے پاس لڑنے کی قوت کفار کے برابر
نہیں، قریب قریب رہی ہو، یہ اصول تو دنیا میں کہیں بھی یقینی نہیں۔ کیا روس
کے پاس عسکری قوت کی کمی تھی کہ وہ افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں بدترین
شکست سے دوچار ہو گیا؟ اگر عسکری قوت و صلاحیت ہی سب کچھ ہوتی تو روس کا
کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا تھا۔ روس کے خلاف افغان جہاد ہمارے سامنے کی
بات ہے کہ کیسے عرب دنیا کے لوگ یہاں آتے تھے۔ وہ صرف اﷲ کی رضا کیلئے اپنا
سب کچھ پیش کرتے تھے۔ اﷲ سے مضبوط اور گہرا تعلق، عبادت و دعا ان کا ہتھیار
ہوتا تھا اور پھر اس کے ثمرات دنیا نے دیکھ لئے۔ دور کیوں جائیں ابھی
امریکہ کو 48اتحادیوں سمیت افغانستان میں منہ کی کھانا پڑی، وہ کیسے ممکن
ہوا؟ امریکہ اور اس کے اتحادی تو دنیا کے ’’مالک و مختار کل‘‘ ہونے کے
دعویدار تھے۔ کیسے ان کے کیمپ، قافلے ہی نہیں، بڑے بڑے اڈے اور بڑے بڑے
افسران افغانستان کے نہتے مجاہدین کا نشانہ بنے۔ کابل تک سے امریکہ اور اس
کے اتحادی آج تک لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ سب مقابل کی برابر کی قوت کے
ہاتھوں ہو رہا ہے، ہرگز نہیں، افغانستان کے ان دلیروں کو مٹانے کے لئے
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن وہ آج تک نامراد ہیں……
آخر کیوں؟ مقبوضہ کشمیر کی مثال دیکھ لیجئے…… بھارت نے گزشتہ اڑھائی
دہائیوں سے وہاں 8لاکھ ریگولر جبکہ 2لاکھ پیراملٹری فورسز متعین کر رکھی
ہیں۔ بھارت کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین کی تعداد لگ بھگ
اڑھائی سو ہے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھ لیجئے، ایسی مثال نہیں ملے گی کہ
ساری دنیا کی مدد و حمایت اور ہر طرح کا اسلحہ و قوت رکھنے والی دس لاکھ
فوج کا مقابلہ کبھی اڑھائی سو ایسے لوگوں نے کیا ہو کہ جن کے پاس کوئی زمین
نہیں، وسائل نہیں، قوت نہیں، کوئی ان کا حمایتی نہیں اور بھارت ان اڑھائی
سو مجاہدین کشمیر کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ کامیابیوں کے دعوے تو کرتا
ہے لیکن اپنا ایک فوجی بھی کشمیر سے واپس نہیں بلا سکا۔ ساری کشمیری قوم
نہتی ہو کر بھی بھارت کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ اس لئے ہمیں ہر لمحہ ہر
لحظہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان کا اصل اسلحہ اور قوت اﷲ کی مدد ہے جو
ہمیں اﷲ سے تعلق مضبوط کر کے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہم اپنی قوم، اپنے
ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ملک سے محبت اور ملک کا دفاع کرنے والے ہر
ہمدرد سے یہی کہیں گے کہ ملک و ملت کے دفاع کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے اﷲ
کا نام ضرور لیں اور اس سے مدد ضرور طلب کریں۔ ہم 1965ء میں کمزور تھے لیکن
کامیاب رہے، 1971ء میں پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر بھی ناکام رہے۔ وجہ؟
1965ء کے کارناموں میں جہاد فی سبیل اﷲ، جذبہ شہادت، نصرت الٰہی کے طلب
کرنے کے واقعات و تذکرے زیادہ ملتے ہیں جبکہ 1971ء میں معاملہ اس سب سے
مختلف ہے تو نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا یاد رکھئے کہ بطور مسلمان سب
کچھ کرنے والا، لینے اور دینے والا صرف اورصرف اﷲ ہے۔ ہم نے ہمیشہ ہر بات
میں اس کا نام لینا ہے اسی سے مدد مانگنی ہے تاکہ ہم سرخرو ہو سکیں، وگرنہ
تاریخ کے اسباق ہمارے سامنے ہیں۔ |