مسلمانوں کی تعلیم اور مودی کے خوشنما ارادے
(Syed Mansoor Agha, India)
سشماسوراج للت مودی اورانسانی
ہمدردی
وزیراعظم نریندرمودی نے 15جون ،پیرکی شام اپنی سرکاری رہائش گاہ پرہندستان
میں مسلمانوں کی تعلیم کے موضوع پر نوبل ایجوکیشن فاؤنڈیش کی کتاب ’مسلم
ایجوکیشن ان انڈیا‘ کا اجرا کرتے ہو ئے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی حکومت
’مسلمانوں کوتمام ترتعلیمی مواقع فراہم کرانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے
گی۔‘ اور یہ کہ ابھی تکـ’مسلمانوں کو تعلیمی مواقع فراہم نہیں کئے گئے‘’ اب
وقت آگیا ہے کہ انہیں تعلیم کی ہر منزل سر کرنے کے لئے آگے بڑھایا جائے۔‘
وزیراعظم نے ممتاز مسلم دانشوروں اور تقریبادو درجن مسلم ممالک کے
سفارتکاروں کے درمیان یہ یقین دہائی بھی کرائی، ’ ہماری حکومت ہر طبقہ کی
ترقی کا عز م کئے ہوئے ہے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
…… مسلمانوں کو تعلیمی مواقع کی فراہمی کے لئے تمام تجاویز پر سنجیدگی سے
غور کیا جائے گا۔‘
ہم وزیراعظم کی ان یقین دہانیوں خیرمقدم کرتے ہیں۔ ملک کے 17 کروڑ60لاکھ کی
مسلم آبادی کے تعلیمی مسائل پر وزیراعظم کو براہ راست توجہ دلانے کا کام
اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ 15 دانشوروں کے مقالات پر مشتمل اس کتاب کی
تیاری، اشاعت اوراس تقریب کے انعقاد میں جناب سراج قریشی کی مساعی بھی
مستحق تحسین ہیں۔
کتاب کے اجراء کے بعد وزیراعظم نے قرآ ن کے حوالے سے علم کی فضیلت کے باب
میں بڑی اچھی اچھی باتیں کہی ہیں۔ اہم بات یہ کہ یہ یقین دہانیاں اسی شخص
نے کرائی ہیں جس نے گجرات کے وزیراعلا کی حیثیت سے مسلم اقلیت کے لئے مرکز
کی تعلیمی وظیفوں کی اسکیم کو نافذ نہیں ہونے دیا تھا۔ اب وزیراعظم کے منصب
پرسرفرازی کے بعداگران کا نظریہ بدل گیا ہے (جس پرانگشت نمائی غیرمطلوب ہے)
تو پہلے قدم کے طور پرکیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تعلیمی وظائف کی اس کو
مزید بہتر کیا جائے اوراس کو تمام ریاستوں میں موثرطور پر نافذ کرنے کے لئے
اقدامات کئے جائیں؟اس اسکیم کا کے موجودہ محدود دائرہ کو وسیع کیا جانا بھی
ضروری ہے۔ مثلاًسردست آمدنی کی مقررہ حد (بعض اسکیموں میں صرف ایک لاکھ
روپیہ) نہایت حقیر اورغیرحقیقی ہے۔ ان اسکیموں کا فائدہ (جن میں فیس کا ’ری
امبرسمنٹ‘ بھی شامل ہے) ان تمام طلباء کو ملنا چاہئے جن کے ورثا کی آمدنی
وسیع نہیں ہے۔ آمدنی کی حد کا تعین خاندان کے کل افراداوراس میں طلباء کی
تعداد کا لحاظ رکھ کر کیا جانا چاہئے۔لڑکیوں کے کیسوں میں مزید رعایت مطلوب
ہے۔
اسکالرشپ اسکیم میں خامیوں اوربڑی مسلم آبادی والے اضلاع اوربلاکس کے لئے
مخصوص تعلیمی اسکیموں کے نفاذ کے طویل مطالعہ کے بعد آل انڈیا ایجوکیشنل
موومنٹ نے اس میں خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ایک محضرنامہ سابقرمرکزی وزیر
کے رحمٰن خان کو سونپا گیا تھا، مگربدقسمتی سے اس پرکوئی توجہ نہیں دی گئی،
یہاں تک وہ ملاقات کو موقع بھی فراہم نہیں کرسکے۔ اس پر توجہ دی جانی
چاہئے۔
ایک اہم مسئلہ اقلیتوں کے قائم کردہ عصری تعلیمی اداروں کی منظوری اوران کے
اقلیتی درجہ سے متعلق بھی ہے۔وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ’ مسلمانوں کو
تعلیم کے کافی مواقع نہیں دئے گئے ۔‘، اس ضمن میں خصوصا مسلم تعلیمی این جی
اوزکی ایک بڑی شکایت یہ بھی شامل ہے کہ سرکاری انتظامیہ ہمارے تعلیمی
اداروں کو اقلیتی تعلیمی ادارہ کا سرٹی فکیٹجاری کرنے میں اناکانی کرتا ہے۔
اس کی ضرورت ختم کی جانی چاہئے اوراس کی جگہ اسکول انتظامیہ کا یہ حلفیہ
بیان اوراشتہارکافی سمجھا جانا چاہئے کہ ان کا ادارہ اقلیتی ادارہ ہے۔
یوپی اے حکومت نے اس طرح کی شکایات کے ازالہ کے لئے ایک ادارہ ’نیشنل کمیشن
فار مائنرٹی انسٹی ٹیوشنس‘ قائم کیا تھا، جس نے جسٹس سہیل احمد صدیقی کی
سربراہی میں سنہ1198ء سے دسمبر 2014تک اپنی آٹھ سالہ مدت کار میں اہم خدمات
انجام دی ہیں ۔ ہزاروں تعلیمی اداروں کو (جن میں مسلم ادارے کم ہی تھے)
اقلیتی سرٹی فکیٹ جاری کئے گئے۔ مگر دسمبر 2014میں جسٹس صدیقی کی مدت کار
مکمل ہونے کے بعد سے آج تک کمیشن تعطل میں پڑا ہے، اس کوفوراً بحال کیا
جانا اس ارادے کے عین مطابق ہوگا جس کا اظہار وزیراعظم نے کیا ہے۔
مسلمانوں کی ایک دیرینہ شکایت یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں اکثریتی فرقہ کے
مراسم عبادات اورعقائد کو مسلط کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ہمیں کوئی اعتراض نہ
ہوگا اگراخلاقی تربیت کے لئے کچھ تعلیم مذہب کے حوالے سے دی جائے مگراس میں
کسی خاص مذہب کی تبلیغ اوردیگر کی تحقیر قطعی نامناسب ہے۔ حال ہی میں سوریہ
نمسکار اور سرسوتی وندنا جیسی خالص مذہبی چیزوں کو طلباء پرمسلط کرنے کا
کام ان کی پارٹی کی سرکاروں نے کیا ہے۔ ان وجوہات سے مسلم طلباء کا خوش دلی
کے ساتھ ان اسکولوں میں پڑھنا دشوارہوگیا ہے۔ اپنے بچوں کے عقیدے کی حفاظت
کے پیش نظربہت سے والدین سرکاری اسکولوں میں بچوں کو نہیں بھیجتے۔ اس مسئلہ
پر توجہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلم تعلیم کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ ختم
کی جائے۔
سابق میں ہماری حکومت کو مدارس کی جدید کاری کی تو بڑی فکررہی، لیکن اس کی
نیت پر شک کی ہمیشہ گنجائش رہی۔ خصوصاً اس لئے کہ اس نے مسلمانوں کی عصری
تعلیم کے تقاضوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں
سے متعلق شکایتوں پر کبھی کان نہیں دھرا۔ حال ہی میں مسلم یونیورسٹی نے
مدارس سے فارغین کے لئے برج کورس شروع کیا ہے جس کے نہایت حوصلہ افزا ء
نتائج سامنے آرہے ہیں۔ مرکزی وزارت تعلیم اوریوجی سی کو اس اسکیم کے لئے
فراخدلی سے فنڈ فراہم کرانے چاہئیں اوردیگریونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کے
کورس جاری ہونے چاہئیں۔
مسلم تعلیم کے اوربھی بہت سے پہلو ہیں جن پر حکومت کی ہمدردانہ توجہ بڑاکام
کرسکتی ہے۔ ہم یہ کوشش کریں گے اس پر ایک جامع محضرنامہ جلد حکومت کو پیش
کردیا جائے۔ بیشک مسٹرمودی کی یقین دہانیاں بڑی دلکش ہیں لیکن ہمیں
انتظاررہیگا کہ ان یقین دیانیوں کو جو انہوں نے غیرملکی سفارتی نمائندوں
اورہندستانی ممتاز دانشوروں کے جلسہ میں کرائی ہیں ، عمل کس طرح اورکتنا
ہوتا ہے؟
سشما سوراج، للت مودی اورانسانی ہمدردی
میڈیا میں اکثر ایسے مسائل چھا جاتے ہیں جن سے بنیادی عوامی مسائل سے توجہ
ہٹ جاتی ہے۔ اس وقت جب کہ مودی سرکار کی وعدہ خلافی پر دل برداشتہ سابق
فوجیوں کا دہلی میں دھرنا و پردرشن چل رہا تھا، میانمار میں فوجی کاروائی
کے سلسلے میں مرکزی وزیروں کی لن ترانیاں اوردروغ بیانیاں بے نقاب ہورہی
تھیں، ’کسی‘ نے چپکے سے یہ بات لیک کردی کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے محترمہ
سشما سوراج نے آئی پی ایل کے سابق چیرمین للت مودی کی کچھ مددکردی۔سشما
سوراج نے بھی نہایت جرأت کے ساتھ اعتراف کرلیا اوراس کی کچھ تاویلات بھی
پیش کردیں۔ لیکن اس اشو کے اچھل جانے کا اثر یہ ہوا کہ مہنگائی کی مار،
کاشت کاروں کی حالت زار اور جنوب مشرقی ریاستوں میں تشد کی بیار اورنکسلیوں
کی قیامت خیزیاں سب پس پشت چلی گئیں۔ لوگ یہ بھول گئے کہ حال ہی میں پے
درپے پٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھائے گئے جبکہ عالمی بازار میں کمی کا رجحان
برقرار ہے۔ مودی سرکار کی مدت کار کا ایک سال پورا ہوجانے کے باوجود بے
روزگاری سے نوجوان پریشان ہیں۔ لیکن ان سب کو پس پشت ڈال کر ذکراس بات کا
ہو رہا ہے کہ سشماسوراج نے برٹش ہائی کمشنر کو فون کرکے یہ کیوں کہہ دیا کہ
اگر برطانوی سرکار للت مودی کو سفری دستاویزات جاری کرتی ہے تو ہند اس کا
برا نہیں مانے گا؟اوراس میں نام مدھیہ پردیش کی وزیراعلا وجے راجے سندھیا
کا بھی جڑ گیا ہے۔
للت مودی کی شخصیت بڑی ہی سحر انگیز ہے۔انہوں نے آئی پی ایل کا آئیڈیا ہی
نہیں دیا بلکہ چار سیزن تک اس کے کامیاب انعقاد سے کرکٹ کی ایک نئی تاریخ
رقم کردی۔ اس تدبیر سے نہ صرف یہ کہ کرکٹ کے نوخیز کھلاڑیوں کی کھیپ کی
کھیپ ابھرکرآئی اورپرانوں کی چھٹی ہو گئی بلکہ بی سی سی آئی پردولت کی بھی
بارش ہوگئی۔ انہوں نے غضب یہ کیا یوپی اے ایک وزیر سمیت کرکٹ کنٹرول بورڈ
قابض بعض دیگربااثرافراد کو ناکوں چنے چبوا دئے۔ نتیجہ کار ان پر شدید مالی
بدعنوانی کے الزام لگے۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی )ان کے خلاف حرکت میں
آگئی۔سنہ 2010ء کے آئی پی ایل سیزن کے بعدایک اعلا اختیاراتی کمیٹی نے ان
کے خلاف شکایا ت کی جانچ کی اوران پر کرکٹ کے معاملات میں حصہ لینے پر
تاحیات پابندی لگا دی۔ خاص بات یہ ہے کہ مودی کابینہ کے اہم وزیرارُن جیٹلی
اس کمیٹی کے کلیدی رکن تھے جس نے للت مودی کو کرکٹ سے باہرنکالنے میں اہم
رول ادا کیا تھا۔اس کے بعد للت کے خلاف ماحول بنا۔ جو وی آئی پی تھا وہ
اچھوت گردانا جانے لگا۔ لیکن بہر حال کچھ لوگ حقیقت کو جانتے ہیں، للت کی
دولت فراہمی کی صلاحیتوں کو پہنچانتے ہیں۔
اس معاملے میں سشما سوراج کی پوزیشن ارن جیٹلی سے قطعی مختلف ہے۔ ان کے
شوہر، کشال سوراج للت مودی کے 22سا ل سے قانونی مشیر ہیں۔ دونوں خاندانوں
میں گھریلوتعلقات بھی ہیں۔یقینا للت مودی کی اہلیہ مینالنی سے بھی گھر سشما
سوراج انسیت رکھتی ہونگیں۔سنہ 2010ء میں جب یوپی اے سرکار میں للت مودی کو
گھیراگیا تو وہ لندن چلے گئے۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے ان کا پاسپورٹ
منسوخ کردیا۔ اس سارے معاملے پر غورکیا جائے تومحسوس ہوتا ہے ساری کوشش اس
بات کی رہی کہ للت مودی ہندستانی کرکٹ سے دوررہیں۔ ان کے خلاف کوئی کیس درج
نہیں ہوا اور صرف چند نوٹس ہی دئے گئے جن کی پیروی ان کے وکلاء کرتے رہے
ہیں۔اگران کے خلاف کافی ثبوت ہوتے (جن کوحاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی
علم میں نہیں آئی) تویقینا ان پرشکنجہ کسا جاتا۔
ادھر جب مینالنی مودی پرتگال کے شہرلسبن میں سینے میں کینسر کے آپریشن کے
لئے داخل تھیں اور 4اگست 2014آپریشن کی تاریخ طے تھی، تب انہوں نے اس سے
چندروز قبل جولائی میں اپنا پاسپورٹ بحال کئے جانے کی درخواست دی
اوربرطانوی حکومت سے بھی سفری دستاویزجاری کرنے کی گزارش کی جس کی قانون
میں گنجائش ہے۔ لیکن اس میں ایک رکاوٹ یہ آرہی تھی کہ یوپی اے کے دور میں
برطانوی حکومت سے یہ کہا گیا تھا کہ مودی کے ساتھ کوئی رعایت برتی گئی تواس
کے ہند برطانیہ تعلقات خراب اثرپڑ سکتا ہے۔ چنانچہ للت مودی نے سشما سوراج
سے رابطہ کیا اورجواب میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے سشما سوران نے برطانوی
حکومت کو یہ پیغام دیا کہ اگرمودی کو لسبن جانے کے لئے سفری دستاویزات جاری
کئے جاتے ہیں تو اس سے ہند، برطانیہ رشتے خراب نہیں ہونگے۔
یہ سچ ہے کہ سشما سوراج غیرممالک میں دشواریوں میں گھرے ہوئے کئی دیگر
افراد کی بھی مستعدی سے مددکرچکی ہیں اوریہ کوئی بری بات نہیں ہے۔اس پر
شوروغل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئندہ غیرممالک میں پھنسے کسی ہندستانی کی
مدد نہ کیا کریں۔ لیکن غورکرنے کی بات یہ ہے کہ للت مودی کی مدد کا یہ
معاملہ جوگزشتہ سال جولائی کاہے، وہ اب کہاں سے نکل کر میڈیا میں آگیا
اوراس کا مقصد کیا ہے؟اس کا پس منظریقینادلچسپ ہے۔
یہ بات عام طور سے معلوم ہے کہ بی جے پی میں اندرونی اٹھاپٹخ جاری ہے۔
کابینہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ مودی کو وزیراعظم کے منصب کا امیدوار
بنائے جانے اورسیاسی منظرنامے پر چھاجانے سے قبل سشما سوراج ہی وزیراعظم کے
منصب کی مضبوط ترین دعویدارتھیں لیکن مودی بازی مارلے گئے۔ ایک مرحلے پر یہ
گمان بھی ہورہا تھا کہ سشما شاید کابینہ میں شامل نہ ہوں، مگروزارت خارجہ
کی کرسی میں بڑی کش ہے ۔مگر مودی کابینہ میں ان کا قد دب گیا اورارن جیٹلی
کا قد بڑھ ہوگیا۔ مودی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر جب تمام وزارتوں کی
کارگزاریاں سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ سشماسوراج کی ٹوپی میں توکلغیاں ہی
کلغیاں ہیں، جب کہ ارن جیٹلی کی وزارت مالیات کی کارگزای سوالوں میں گھری
ہیں۔ ایسی صورت میں سشما سوراج مخالف کیمپ کے لئے یہ لازم ہوگیا تھا کوئی
شگوفہ ایساچھوڑا جائے جس سے سشما سوراج کی شبیہ خراب ہوجائے۔لیکن راہل
گاندھی اوران کے دائیں بائیں رہنے والے لیڈروں سے صبر نہ ہوا کہ چندروز
ٹھہر کر زرا بھاجپا کے اندر کی اس لڑائی کے گل بوٹے باہرنکل آنے دیتے۔
فوراً سشماسوراج کے خلاف محاذ کھول دیا اورنریندر مودی کے بھی استعفے کا
مطالبہ کرڈالا۔ اپوزیشن کی اس عاجلانہ یلغار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی
صدراور وزیرداخلہ خود کود پڑے۔لیکن ارون جیٹلی کی خاموشی یقینا معنی
خیزرہی۔
معاملہ اس قدر کشیدہ ہوگیا کہ راجناتھ سنگھ نے دونوں کواپنے دفتر میں بلاکر
ڈانٹا ڈپٹا اورارن جیٹلی کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھ ان کے منھ سے یہ
کہلوادیا کہ ساری سرکاراورپارٹی سشما کی پشت پر ہے۔ یہ اظہار یک جہتی اتنا
بودا نکلا کے دراڑیں صاف نظرآرہی ہیں۔
ہرچند کہ للت مودی کی اس مدد میں سشماسوراج نے اپنے قدیم رشتوں کے بجائے
’انسانی ہمدردی‘ کے جذبہ کا حوالہ دیا ہے، مگر ان کا یہ دعوا اس وقت سردپڑ
جاتا ہے جب 88سالہ حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی کے پاسپورٹ کا معاملہ
سامنے آتا ہے۔ معمر گیلانی اپنی علیل بیٹی کی عیادت کے لئے سعودی عرب جانا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے 5جون کو پاسپورٹ فارم کی تکمیل کی ضابطہ کی کاروائی
بھی مکمل کرلی تھی، مگرپاسپورٹ کے اجراء پر سیاست کی جارہی ہے۔ اگرللت مودی
کی مدد میں کچھ دیگر عوامل شامل نہیں ہیں اورپیمانہ صرف انسانی ہمدردی ہی
ہے تو پھر اس دورنگی چال کا کیا مطلب ہے؟ (ختم) |
|