صحافی سراپااحتجاج کیوں؟
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
صحافت (Journalism) کسی بھی
معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر
قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت کرنے والے کو
صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں
لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔
اداروں جیسے حکومتی اداروں اور تجارت بارے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ
صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی اجاگر کرتی ہے جس میں فنون لطیفہ،
کھیل اور تفریخ کے اجزاء شامل ہیں۔ شعبہ صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت،
تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ بنیادی کام ہیں۔
جدید دور میں، صحافت مکمل طور پر نیا رخ اختیار کر چکی ہے اور عوامی رائے
پر اثرانداز ہوئی ہے۔ عوام کا بڑے پیمانے پر اخباروں پر معلومات کے حصول کے
لیے اعتماد صحافت کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اب اخباروں کے ساتھ ساتھ بڑے
پیمانے پر عوام تک رسائی ٹیلی ویڑن، انٹرنیٹ اور ریڈیو کے ذریعے بھی کی
جاتی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بارے معلومات کا
حصول انتہائی آسان ہو گیا ہے۔
لیکن تاریخی حوالے سے پاکستان میں چند صحافتی اداروں کے مالکان اخبارات میں
کام کرنے والے صحافیوں کو غلام سمجھاتے ہیں۔اور اپنی انا کی خاطر قومی
اداروں کیخلاف مہم جوئی بھی شروع کردیتے ہیں۔کئی بارے ایسے اخبارمالکان کو
معافی بھی مانگنی پڑی لیکن سازشوں سے بارنہ آئے۔
تحریک پاکستان کو کامیاب بننے میں اخبارات نے اہم کردار ادا کیا۔جن روزنامہ
جنگ بھی شامل ہے۔روزنامہ جنگ میر خلیل الرحمن نے 1940ء میں دہلی سے شروع
کیا۔اس وقت کے پیش نظربرصغیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اورمسلم
لیگ کی ترجمانی تھا۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد کراچی کو دارلحکومت
بنایا گیاجہاں ہوائی اڈے کے علاوہ بندرگاہ کی سہولت بھی موجود تھی کراچی
ایک ابھرتا ہوا صنعتی شہر تھا۔جہاں اخبارات کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ دہلی کے
تین مسلم اخباروں یعنی روزنامہ ڈان،روزنامہ جنگ اورروزنامہ انجام نے آزادی
کے بعد اپنے دفاتر کراچی منتقل کئے۔کراچی منتقلی کے بعد جنگ اور انجام میں
مقابلہ جاری رہا۔مقابلے کی اس دور میں یہ اخبارات جدید فنی مہارت اور تکنیک
کو بروئے کار لائے۔ان کی رنگارنگ تحریروں اور خوبصورت طباعت کی وجہ سے
قارئین میں اخبار بینی کا شوق بڑھا۔روزنامہ جنگ اور ڈان کی اشاعت میں اضافہ
ہوا۔جبکہ انجام کی اشاعت اسکا ساتھ دینے سے قاصر رہی۔آج روزنامہ جنگ
پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی،راولپنڈی،اسلام آباد، کوئٹہ اور ملتان
کے علاوہ برطانیہ کے شہر لندن سے بھی شائع ہوتا ہے جبکہ دیگر بڑے شہروں میں
بیورو آفسز قائم ہیں۔ روزنامہ جنگ نے11فروری 1991سے لاہور ،راولپنڈی اور
کراچی سے بیک وقت انگریزی اخبارTHE NEWSجاری کیا جو بین الاقوامی معیار کا
اخبارہے۔روزنامہ جنگ خبروں کے حصول میں ہمیشہ آگے رہتاہے۔ روزنامہ جنگ نے
1981میں کمپیوٹر کمپوزنگ متعارف کروائی جو اردو زبان کی ترقی کے لیے ایک
انقلابی اقدام تھا۔میر خلیل الرحمن کے بعد اب ان کے چھوٹے بیٹے میر شکیل
الرحمن اخبار کے مالک ہیں۔ روزنامہ جنگ کی ترقی کے پیچھے دراصل میر خلیل
الرحمن کی ذہانت نہیں بلکہ مکاری کار فرما ہے کہ جس کو بروئے کار لاتے ہوئے
انہوں نے ایک طرف تو روزنامہ انجام جیسے اخبار کو اس کے انجام تک پہچایا۔
مئی 2015ء میں میر شکیل الرحمن نے لاہور میں کئی اخبارات کے مالکان سے
ملاقات کی۔اور چندروزبعد ملک میں ڈیکلن والش کی سٹوری پر پاکستان کے چند
معتبر میڈیا ہاؤسز نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کہ اپنے ہی ملک کے
خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں کی روایت برقرار رکھی جس سے پوری دنیا کی نظروں میں
پاکستانیوں کامذاق اڑایا گیا۔ کئی پاکستانیوں کو نوکریوں سے فارغ
کردیاگیا۔یہ سب کچھ اس وقت سامنے آئے جب پاکستان میں چین ارب ڈالرکے منصوبے
شروع کر نے والا ہے۔اور پوری دنیاکی نظروں پاکستان کی طرف ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی تاریخ میں پہلے بارے کسی میڈیاہاؤس کے مالک نے
ورکروں کو اہمیت دینے کا عزم کیا ۔جس سے چند بڑے اخبارات کے مالکان پریشان
تھے ۔ایسی دوران پاکستان اور صحافیوں کے خلاف سازش کرنے والاکو بے نقاب
کرنے نوجوان صحافی فداشیرازی نے آواز بلندکی۔بول فرینڈزتحریک آغاز کردیا۔جس
تحریک کے تحت 26مئی 2015کو بول کے حق میں پہلا احتجاجی مظاہرہ سرگودھا میں
کیا گیا۔اس کے بعدکراچی ، لاہور،اسلام آباد،سیالکوٹ، نارووال،
گوجرانوالہ،ملتان سمیت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بول
فرینڈزتحریک تحت احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔غیرملکی پاکستانیوں کی جانب سے بھی
پہلی آواز بول فرینڈز مانچسٹر ،آج وائس آف پاکستانی امیریکنز،وائس آف
پاکستانیز ابراڈ ،پاکستانی امیریکنز لائرز ایسوسی ایشن اور دیگر
آرگنائزیشنز کی رہنمائی میں بول فرینڈز ایک انٹرنیشنل تحریک بن چکی ہے ۔vopaکے
بانی اور امریکہ میں پاکستانیوں کی پہچان آغا محمد صالح نے تحریک کی
کامیابی کیلئے بول فرینڈز کو اپنا قیمتی وقت دیا اور آج اُنہی کی وجہ سے
نیویارک سٹی میں پاکستانی کمیونٹی نیویارک ٹائمز سے نالاں نظر آتی ہے اور
شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے ۔امریکی اخبار کی سٹوری کا خوشی منانے
والوں کے اپنے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔بہر حال جمود ٹوٹ گیا ہے،کہتے
ہیں کہ جھوٹ کا نہ سرہوتا ہے اورنہ پاؤں، بات سچ ثابت ہونے لگی ہے۔ ہزاروں
صحافتی کارکنان کا معاشی قتل کرنیوالوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی،چند
اجارہ دار فرموں کی خوشنودی کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے،روز اول سے بول
فرینڈز کارکنان کے شانہ بشانہ ہے اور رہیں گے،بول ورکرز اس وقت اپنے حقوق
کی جنگ جیت چکے ہیں۔ماہرین اورمبصرین کا کہناہے کہ پاکستان سے غداری کر نے
والے انجام دنیاکے سامنے ہے۔جلدغیرملکی میڈیاکے ذریعہ پاکستان بدنام کرنے
کی سزاملے گی۔ |
|