تحریر!ماجد خان کراچی
ہندوستان و پاکستان کی تشکیل دو قومی نظری کہ بنیاد پر ہوئی ۔ یہ وہ ادھورا
سچ ہے جسے آج پورا سچ مان لیا گیا۔ باقی آدھا اوراوجھل سچ یہ ہے کہ غیر
منقسم ہندوستان کی 565شخصی ریاستوں کو پاکستان یا بھارت سے الحاق کے ساتھ
ساتھ آزاد اور خود مختار رہنے کا بھی حق حاصل تھا۔اس ضمن میں حیدرآباد دکن
جو کہ ایک بڑی ریاست تھی نے اس حق کو سب سے پہلے استعمال کیا اور اس کے اس
اقدام کے دوران پاکستان نے جو کردار ادا کیا وہ بھی بہت اہم تھا۔ پاکستان
کا یہ کردار ان حضرات کے لئے بھی قابل غور ہے جو ریاست جموں کشمیر کی خود
مختاری کے مخالف ہیں۔اس مضمون میں کو شش کی گئی ہے کہ مستند حوالے اور ٹھوس
شواہد بیان کئے جائیں تاکہ جوابہام ہیں وہ دور ہوسکیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے جب ہندوستان سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا
تو انہوں نے اس حوالے سے ہندوستانی لیڈران اور والیان ریاست سے بات چیت کے
لئے سر سٹیفرڈ کرپس، سر پیتھک لارنس، اور سر اے ای الیگزینڈر پر مشتمل ایک
وفد ہندوستان بھیجا۔ اس وفد کو cabinet missionکا نام دیا گیا۔وفد نے اپنی
سفارشات ایک یاد داشت کی صورت میں ہندوستانی ریاستوں کی یونین چیمبر آف
پرنسز کے سربراہان کے سامنے رکھی۔ان سفارشات کے مطابق! جب برطانوی ہند میں
نئی خود مختار حکومت یا حکومتیں وجود میں آ جائیں گی تو ہز مجسٹیز گورنمنٹ
کے اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ ہو جائیگا اس سے مراد یہ ہے کہ تاج برطانیہ کے
ساتھ ریاستوں کے تعلقات کے نتیجہ میں جو استحقاق وجود میں آئے تھے ان
کااختتام ہوجائیگا اور ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ انہیں واپس مل جائیگا-
20 فروری 1947کو ہز مجسٹیز گورنمنٹ نے ایک تفصیلی اعلان کے ذریعہ جون
1948تک اقتدار اعلیٰ ہندوستانی نمائندوں کے ہاتھوں میں دینے کا ارادہ ظاہر
کیا گیا تھا۔ اعلان کی شق نمبر18 میں یہ وضاحت کی گئی تھی کے اس اعلان کا
اطلاق صرف برطانوی ہند پر ہوگا۔ ۔۔ ریاستوں کے بارے میں حکومت برطانیہ کی
پالیسی وہی رہے گی جو کیبنٹ مشن کے 12مئی 1946والے میمورنڈم میں بیان کی
گئی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
17 جولائی1947قانون آزادی ہند منظور کر لیا جس کی منظوری18جولائی کو شاہ
برطانیہ نے دے دی تھی۔قانون کی دفعہ نمبر 1میں15اگست 1947کو برطانوی
ہندوستان کو تقسیم کر کے دو مملکتوںDOMINIONSبھارت اور پاکستان کے نام سے
قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔۔۔دفعہ نمبر 2شق نمبر2میں ان علاقوں کا ذکر کیا
گیا جو پاکستان میں شامل ہوں گے۔ ان میں مشرقی بنگال، مغربی پنجاب، سندھ و
بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبہ شامل تھے۔دفعہ نمبر7شق(ب) میں کہا گیا
کہ !۔۔۔ نئی مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی ہندوستانی ریاستوں پر ہز مجسٹی شاہ
برطانیہ کا اقتدار اعلیٰ ختم ہوجائیگا اور ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں اور
ہز مجسٹیز کے مابین وہ تمام معاہدے اور سمجھوتے جو اس قانون کے منظور ہونے
کے وقت زیر عمل ہوں گے از خود منسوخ ہو جائیں گے۔ اس طرح سے تاج برطانیہ کی
ریاستوں کے بارے میں تمام زمہ داریاں اور ریاستوں یا ان کے والیان کے ساتھ
تاج برطانیہ کے کئے ہوئے تمام عہدو پیمان، اختیارات، حقوق اورقانونی دائرہ
اختیارات اختتام کو پہنچ جائیں گے۔
لارڈ مائنٹ بیٹن نے 25جولائی1947کو برطانوی نمائندے کی حیثیت سے ریاستی
حکمرانوں کی تنظیم چیمبر آف پرنسز سے اپنے خطاب میں کہا !۔۔۔کیبنٹ مشن
کے12مئی1947مے میمورنڈم کو تمام ریاستوں نے اجتما عی طور پر منظور کر لیا
ہے اور ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے 3 جون 1947کے اعلان کو بھی قبول
کر لیا ہے۔ اس طرح انہوں نے اس حقیت کا مکمل ادراک کر لیا ہے کہ تاج
برطانیہ کے اقتدار اعلیٰ اٹھا لینے کے نتیجہ میں تمام ریاستیں اپنی مکمل
حاکمیت اعلیٰ کی مالک ہوجائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔تمام ریاستوں کو مکمل آزادی حاصل
ہوجایگی اور وہ تکنیکی اور قانونی طور پر خود مختار ہو جائینگی۔
ریاستوں سے متعلق کانگریس اور مسلم لیگ میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔
کانگریس ریاستوں کی آزادانہ حیثیت کے خلاف تھی۔جبکہ مسلم لیگ ریاستوں کی
آزادی کے حق میں تھی۔آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری نواب زادہ لیاقت
علی خان جو س وقت ہندوستان کی عبوری حکومت کے وزیر خزانہ تھے21اپریل 1947کو
اخباری بیان میں مسلم لیگ کے مؤقف کا اعلان ان لفاظ میں کیا۔
ہندوستانی ریاستیں ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ معاہدے کرنے کے لئے آزاد
ہیں، یا وہ اپنے لئے مکمل آزادی کا اعلان بھی کر سکتی ہیں۔
ریاستوں کی خود مختاری سے متعلق اس حق کو سب سے پہلے ریاست حیدرآباد دکن
جسے مملکت آصفیہ بھی کہا جاتا ہے، نے استعمال کرتے ہوئے 11جون1947کو اپنی
آزادی کا اعلان کردیا۔ 21اگست1947کواپنے شاہی فرمان میں نواب عثمان علی خان
والیٗ ریاست نے اپنے فیصلہ کا اعادہ کیا اور کہا ۔۔۔ جس طرح بھارت اور
پاکستان ا ّزاد و خود مختار مملکتیں ہیں اسی طرح حیدرّآباد بھی ایک آزاد و
خودمختار مملکت ہے جو کسی بھی ڈومینین میں شرکت نہیں کریگا۔اس اعلان کے
فوری بعد بھارت نے مختلف طریقوں سے نواب پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ اس
اعلان کو واپس لے اور ریاست کا الحاق ہندوستان سے کرے۔دھمکیوں اور سازشوں
کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔اس دوران ریاست حیدرّآباد اور بھارت کے درمیان
مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ بھارت نے ریاست میں رائے شماری کا مطالبہ شروع کردیا
اور کہا کہ نواب حیدرآباد کا فیصلہ نا قابل قبول ہے۔ نواب حیدرآباد عثمان
علی خان نے اس مطالبہ پر عمل درآمد کی حامی بھر دی لیکن بھارت بعد میں ا سے
بھی مکر گیا اور پھر نہرو نے بھارتی یونین میں شمولیت یا موت کا اعلان
کردیا۔ ریاست حیدرآباد اور بھارت کے درمیان معاہدہ جاریہ بھی ہوا جیسا
پاکستان اور ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ کے مابین ہوا تھا۔ستم ظریفی
دیکھیں کہ نہ تو بھارت نے اس معاہدہ کا پاس کیا اور نہ ہی پاکستان نے اور
دونوں نے بزور طاقت ان ریاستوں کو اپنے ساتھ ملانے کی براہ راست اور
بالواسطہ کوششیں کی۔ بھارت کامیاب ہو گیا جبکہ پاکستان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
آزادکشمیر الگ ریاست بن گیا اور گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت بنانے کے
باوجود آئینی طور پر اپنا حصہ نہیں بنا سکتا۔
حکومت پاکستان نے حیدرآباد دکن کے اعلان آزادی کو تسلیم کیا ۔ نواب نے
مشتاق احمد خان کو کراچی (پاکستان) میں اپنا ایجنٹ جنرل (سفیر) تعینات کیا
اور ریاست حیدرآباد کا سفارتخانہ9کلفٹن میں قائم ہوا۔ مشتاق احمد خان نے
اپنی اسناد سفارتی اسناد20اپریل 1948کو قائد اعظم کو پیش کیں۔17ستمبر1948کو
حیدرآباد پر بھارت نے قبضہ کرنے کے باوجود ’’مشتاق احمد خان ‘‘بطور سفیر
1953تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے ،یکم جون 1948کو قائد اعظم نے نہرو کی
نواب حیدرآباد کو دی گئی کھلی دھمکی کی پرزور مذمت کی۔ قائد اعظم نے کوئٹہ
سے جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ۔۔۔ریاستوں کے معاملے میں رائے حکومت
ہند اور حکومت حیدرآباد کو معلوم ہے۔ حیدرآباد ایک آزاد و خود مختار سلطنت
ہے اسے اختیا ر حاصل ہے کہ وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کرے یا آزاد
ررہنے کا فیصلہ کرے۔حکومت ہندوستان کے لئے یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ وہ
مملکت آصفیہ کو شمولیت پر مجبور کرے۔اس طرح بھارت کے وزیر اعظم’’ نہرو‘‘ کی
دھمکی پر عالمی سطح پر سخت رد عمل سامنے آیا۔برطانیہ کے سابق وزیر اعظم
چرچل نے برطانوی دارلعوام میں بحث کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ
حیدرآباد ہندوستانی علاقہ سے گھرا ہوا ہے اور یہ کہ ارضی اعتبار سے بھی وہ
چاروں طرف سے محصور ہے اور اس کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے لیکن اس قسم کے
حالات کا حق آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یوں دیکھا جائے تو سوئزلینڈ بھی
ارضی اعتبار سے چاروں طرف سے محصور ہے اور اس کی کوئی بندرگاہ بھی نہیں ہے
لیکن اس کے باوجودسینکڑوں سال سے خود مختاری کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
جون 1948مصر اور مشرق وسطی ٰکے قائد محمد علی علویہ پاشا نے کہا حکومت ہند
کو متنبہ کرتا ہوں کہ اگر سلطنت حیدرآباد کو کوئی بقصان پہنچایا گیا تو
مسلمانان عالم کے جذبات مشتعل ہوجائیں گے۔ حیدرآبا د ایک آزاد سلطنت ہے اور
ہمیشہ آزاد و خود مختار رہے گا۔ حیدرآباد عالم اسلامی کو اس قدر محبوب و
عزیز ہے اور مسلمان اس کو اسقدر اہم دیتے ہیں کہ وہ سلطنت کو ہمیشہ کامل
طور پر آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔
17جون1948کو مصر کے سرکاری ترجمان اخبار الاساس میں حیدرآباد کے تعلق سے
عرب یونین پارٹی کے صدر کا اعلان جاری کیا جس میں کہا گیا!
میں ہند یونین کو متنبہ کرتا ہوں کہ حیدرآباد کے خلاف کوئی بھی اقدام
دنیائے اسلام میں ہیجان پیدا کردیگا۔ہندوستان ایک ایشیائی ملک ہونے کی وجہ
سے اس بات کو خوب جانتا ہوکہ دوسری قوم کے جذبات و احساسات کا اعتبار نہ
کیا گیا تو دنیا میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ حیدرآباانصاف اور مساوات کے
قانون کے ماتحت آزاد رہنا چاہتا ہے اور وہ منشور اقوام کے تحت اس حق
رکھتاہے۔
مفتی اعظم فلسطین نے 2 6جون1948 کو اپنے بیان میں کہاکہ مسلمانان عالم
حیدرآباد کو بڑی اہمیت دیتا ہے، مسلمانان عالم اس سلطنت کے خلاف کوئی
جارحانہ اقدام ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ہندوستان حیدرآباد کی آزادی کو
تسلیم کرلے اور اسی طرح مشرقی قوتوں سے اپنے تعلق کو کشیدہ ہونے سے بچائے۔
شاہ فاروق فرمانروائے مصر نے 6ستمبر 1948 قاہرہ سے جاری بیان میں ! ہم
حیدرآباد کی ہر طرح سے اعانت کے لئے صرف اس لئے تیار نہیں کہ وہ اسلامی
مملکت ہے بلکہ اس کی امداد کے لئے اس لئے بھی آمادہ بیٹھے ہیں کہ وہ ایک
آزاد خود مختار ملک ہے جو اپنی آزادی کی برقراری کی کشمکش میں مبتلا ہے اور
باعزت زندگی کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔
13 ستمبر1948کو بھارت نے حملہ کردیا اور 17ستمبر کو پوری طرح قابض ہوگیا۔
ان ہی دنوں میں حیدرآباد دکن کے وفد نے پیرس میں سیکورٹی کونسل سے رابطہ کر
کے حیدرآباد کے مسئلہ پر اجلاس بلانے کی درخواست کی جس پر 14ستمبر کو اجلاس
ہوا اور بھارت پر کڑی نکتہ چینی کی گئی۔اسی روز یعنی 16 ستمبر کو برطانوی
دارالامراء میں حیدرآباد پر بھارتی حملے کی پر زور مذمت کی گئی اور اس پر
افسوس کا اظہار کیا گیا۔
ریاست حیدرآباد دکن کے حوالے سے ایک بات یہاں ثابت ہو جاتی ہے کہ دو قومی
نظریہ کا اطلاق ریاستوں پر نہیں ہوتا تھا اور ریاستوں کے حکمرانوں کو آزاد
رہنے کا حق حاصل تھا۔ ان حضرات کے لئے یہ مثال ہے جو کشمیر پر دو قومی
نظریہ کا اطلاق کرنے کے حامی ہیں اور کشمیر کی خود مختاری کے مخلاف ہیں۔ |