ایک ملاقات ضروری ہے مگر.........

گزشتہ دنوں تیس افراد پر مشتمل ایک وفد نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی جہاں وزیر اعظم سے کچھ مخصوص ایجنڈوں پر گفتگو کی گئی ۔میٹنگ کی تمام باتیں تو منظر عام پر نہیں آ سکیں لیکن میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کچھ باتیں ضروری بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئیں جن میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مودی نہ مسلم مخالف ہیں اور نہ ہی فرقہ پرستوں کی حمایت کرتے ہیں۔اس وفد کو مسلمانوں کا نمائندہ وفد باور کرانے کی بھی خوب کوشش کی گئی جس پر مسلم حلقوں میں ملاقاتیوں میں شامل وفد کے ارکان پر زبر دست تنقید کی گئی، کہیں قوم کے غدار تو کہیں مفاد پرست ،تو کہیں ایمان فروش اور کہیں میر جعفر و میر صادق جیسے القاب سے ملقب کئے گئے ۔چونکہ وفد کی قیادت آل انڈیا امام آرگنائز یشن کے صدر امام عمیر الیاسی نے کی تھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ واجپئی حمایت کمیٹی میں بھی شامل رہ چکے ہیں اور بی جے پی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ،اس سے قبل اسرائیلی دور ہ پر جانے والے ہندوستانی وفد کی بھی قیادت کر چکے ہیں۔اس لئے ایسی متنازع شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانا مسلمانوں کی جانب سے کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔

بہر حال اس بات سے قطع نظر کی وزیر اعظم مودی کی چوکھٹ پر اپنے مطالبات لے کر جانے والے کون لوگ تھے ،انہیں مسلمانوں کے رہنما کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں ان کا سابقہ ریکارڈ کیا ہے ؟یہ بات قابل غور ہے کہ ایک وزیر اعظم سے کسی کی ملاقات غلط نہیں ہے۔چونکہ وزیر اعظم پورے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے ہر مذہب کے ماننے والوں کا قائد ہوتا ہے اس لئے اس سے ملاقات بجا اور ضروری بھی ہے ۔اپنے مسائل اور ملک کے دیگر طبقات کی پریشانیوں سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے مگر مخصوص ایجنڈے کے سلسلے میں ملاقات کر کے ،مسائل کو پس پشت ڈال کر حکمراں جماعت کی خوشنودی کے حصول کیلئے ان کی تعریفوں کے پل باندھنا اور کامیاب حکمرانی کیلئے مبارکباد دینا پھر خود کو پوری قوم کا نمائندہ بتانا قطعی مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وفد کا افسوسناک کارنامہ ہی کہا جائے گا۔

وفد نے ملاقات کے دوران وزیر اعظم کو ان کے ایک سال کی حکمرانی پر مبارک باد بھی پیش کی اور مسلم نوجوانو ں کی گرفتاری میں آئی کمی پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔میٹنگ میںوزیر اعظم کی جو بات اخبارات کی شہ سرخی بنی اس میں مودی کے ذریعہ اس بات کی یقین دہانی کی تھی کہ رات کو بارہ بجے بھی اگر آپ مجھے پکاریں گے تو اپنی مدد کے لئے آپ مجھے تیار پائیں گے ۔ مودی کی اس بات پر وفد میں شامل ارکان پھولے نہیں سما رہے ہیں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کی مبارکباد دینے والوں نے کیا مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے والے ،مسلمانوں کو پتھر مارنے والے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کے ذریعہ تشدد پسندانہ اور نفرت انگیز بیانات پر احتجاج درج کرایا ؟ جس وقت وزیر اعظم سے وفد کی ملاقات ہو رہی تھی عین اسی وقت دہلی سے محض تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اٹالی گائوں کے مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سرو سامانی کی حالت میں پولیس تھانے میں رات گزارنے پر مجبور تھے۔کیا خود کو مسلمانوں کا نمائندہ کہنے والے وفد نے ان مسلمانوںکی حالت زار کا مودی کے سامنے ذکر کیا ؟یا مودی نے کسی کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔کیسی حکمرانی کے لئے مودی کو مبارک باد دے رہے تھے۔ایسی حکمرانی جہاں راجدھانی کی ناک کے نیچے دو ہزار مسلح شدت پسندوں نے اٹالی گائوں کے مسلمانوں کی جائیداد کو لوٹ لیا ان کے گھروں میں آگ لگا دی،ان کی املاک کو ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ کر دیا ۔وہ دس دن تک اتنے خوف زدہ اور دہشت میں مبتلا رہے کہ انہو نے پولیس اسٹیشن میں بے سر و سامانی کی حالت میں رات گزارنا گوارا کر لیا لیکن یقین دہانیوں کے باوجود گائوں لوٹ نا گوارا نہیں کیا۔جن کی ہمدرد ی میں نہ وزیر اعظم نے ایک جملہ کہا اور نہ ہی ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے کچھ کہنے کی زحمت کی۔افسوسناک یہ ہے کہ اس وفد نے بھی ملاقات کے دوران ان مظلوموں کا ذکر نہیں کیا۔

مودی کو اچھی حکمرانی کیلئے مبارکبادی دینے والے پہلے ان اٹالی گائوں کے مظلوم مسلمانوں سے بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتے جو برسوں کی کمائی سے بنائے مکانات کے ڈھیر پر آنسو بہا رہے تھے ۔اس بوڑھی خاتون سے بھی اچھی حکمرانی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے جس کی ڈیڑھ سالہ پوتی کو درندوں نے جلتی ہوئی بھوس میں پھینک دیا تھا ۔جلے ہوئے مکانات کے سیاہ دھبوں کو مٹانے کی کوشش کر رہے مظلوموں سے بھی پوچھتے کہ مودی کی سال بھر کی حکمرانی کیسی رہی؟مہنگائی اور بے روز گاری کے خاتمے کے نام پر اقتدار میں آئی مودی سرکار کو کس اچھے دنوں کی مبارکباد دے رہے تھے ۔جس میں بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ، غریبوں کے لئے دو وقت کی روٹی جٹانا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔مہنگائی پر حکو مت کے کنٹرول کے بارے میں معلومات حاصل کرنیہو تو مودی کی لچھے دار تقریروںپر بھروسہ کرنے کے بجائے کسی چائے کی دکان پر 7روپے فی کپ کے حساب سے ملنے والی چائے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پینے والے مزدوروں سے معلوم کریں کہ مہنگائی کتنی کم ہوئی۔زیر تعمیر مکان کی دیوار کے سائے میں شدت کی گرمی میں آ رام کر رہے کسی دہاڑی مزدور کی جیب سے معلوم کیجئے کہ مہنگائی پر مودی نے کتنا کنٹرول کیا۔

آپ وزیر اعظم سے ضرور ملیئے،ملاقات میں کوئی حرج نہیں ہے۔اپنی بات رکھنے کیلئے ملیئے،لوگوں کے مسائل اور پریشانیوں سے حکمراں کو با خبر کرنے کیلئے ملاقات کیجئے،حکومت کے ایسے اقدامات اور فیصلے جس سے ایک طبقے کی دل آزاری ہو رہی ہو،اس کی مذہبی آزادی پر حرف آ رہا ہوان مسائل کی آگاہی کیلئے ملاقات کیجئے ۔ لیکن حکومت کی واہ واہی ، چاپلوسی اور حاشیہ بر داری کیلئے قوم کے نام پر ملاقات مت کیجئے،اپنے ذاتی مفاد کیلئے پوری ملت کا بیڑہ غرق مت کیجئے۔

خبروں کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے با وقار ، معتبر مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ لکھنؤ میں منعقد ہوئے اجلاس میں ارکان بورڈ نے وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے ماحول ساز گار بنانے کی بات کہی ہے ۔مجلس عاملہ میں وزیر اعظم سے ملاقات پر کافی بحث ہوئی کچھ ارکان نے زور دے کر ملاقات کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی وکالت کی ہے اوراطلاعات کے مطابق اگر حالات بہتر ہوئے اور ماحول سازگار ہوا تو رمضان میں ورنہ عید کے بعد ملاقات ہو سکتی ہے ۔مجلس عاملہ کے ارکان کو اس بات کا احساس ہے کہ اس وقت مودی سرکار دبائو کے پوزیشن میں ہے تو دبائو بڑھانے پر غور کرنا چاہئے۔مودی سے ملاقات پر غور پرسنل لا بورڈ کی ایک اہم پہل ہے ۔مسلمانوں کا ایک با حیثیت اور با وقار ادارہ ہونے کی حیثیت سے منصوبہ بند طریقے سے مسلم ایجنڈوں کے ساتھ ملاقات اگر ہوتی ہے تو اس کا اثر ضرور حکمرا ںطبقے پر پڑے گا۔گرچہ کچھ لوگ ضرور کہیں کہ ابھی ملاقات کا وقت نہیں آیا لیکن وہ بھی ملاقات سے انکار نہیں کر رہے ہیں بلکہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔بہر حال مناسب وقت اور مناسب ماحول میں منصوبہ بند ایجنڈے کے ساتھ گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی سے نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم سے ملاقات میں کوئی حرج نہیں ہوناچاہئے۔
۰۹۹۱۰۶۸۳۱۳۰
atabanarasi
About the Author: atabanarasi Read More Articles by atabanarasi: 3 Articles with 2105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.