شرم حیا اور اس کے دعویدار

نواز شریف صاحب پاکستان کی سیاست میں کوئی انجان شخصیت نہیں ہیں پاکستان میں موجود چند لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے جن کو کسی نا کسی وجہ سے بہت سے لوگ جانتے ہیں۔مورخین ِ پاکستان نے ان کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔خواہ وہ سیاست کے فرعون کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں۔مختلف مقامات پر مختلف وجوہات کی بنا پر ان کا نام لکھا گیا ہے۔سیاست میں ان کی انٹری کا سہرا پاکستان آرمی کے ایک جرنیل کے سر جاتا ہے۔جن کی قیادت میں میاں محمد نواز شریف کو عملی سیاست میں لایا گیا۔اور ایک خاص وقت تک میاں صاحب بھی ان کے اس احسان کو قبول کرتے رہے اور ان کے مشن کی تکمیل کا ارادہ بھی ظاہر کرتے رہے۔پھر حالات بدلتے چلے گئے۔میاں صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔وہ صوبائی سطح سے قومی دھارے میں الیکشن لڑنے نکل پڑے۔تھوڑے تھوڑے عرصہ کی دو بار وفاقی حکومت ان کو سونپی گئی۔ کیوں اور کیسے کا تذکرہ اب بے معنی ہے۔اس کے علاوہ مسلسل پنجاب سے کئی بار تخت و تاج کے والی وارث رہے۔اگر یوں کہہ لیا جائے کہ ایک مخصوص عرصہ سے پنجاب پر ان کے گھرانے کی حکومت ہے تو بے جا نا ہوگا۔لیکن اگر اس مخصوص وقت میں ان کی کارکردگی کا تذکرہ کیا جائے تو اس سے سیاست شرما جائے۔خدمت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں نے نا صرف عدلیہ کو روندنے کی کوشش کی بلکہ پولیس کو اپنی جاگیر کے طور پربھی استعمال کیا۔مسلسل پنجاب کی حکومت سنبھالنے والے اگر اپنے علا ج کے لیے پنجاب سے کوئی ڈاکٹر نا ڈھونڈ سکیں تو ان کی کار کارکردگی پر سوالیہ نشان تو آجاتا ہے۔مگر ٹھہریے یہاں یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔چوری کی وارداتوں کا تذکرہ کیا جائے تو اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اغوا ء برائے تاوان آج بھی ہوتے ہیں۔اور ایسے ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔نا گورنرمحفوظ ناہی گورنر کے بچے محفوظ رہے۔ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا کر لیا گیا اور ابھی تک اسے بازیاب نا کرایا جاسکا۔مگر رکیے یہ تو باہر کے قصے ہیں۔ان کے اپنوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔کہیں کوئی ایم پی اے تھانے پر حملے کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کہیں کوئی ایم پی اے استاتذہ کی ٹانگیں توڑتا دکھائی دیتا ہے۔کسی ایم این اے پرمنی لانڈرنگ کا کیس ہے اور کئی موصوف جعلی ڈگریوں کا سہرہ سرپر سجائے بیٹھے ہیں۔کبھی قبضہ مافیا سے کسی ایم این اے کا رشتہ جڑا نظر آتا ہے تو کہیں انسانیت کی تذلیل کرتی کوئی حکومتی رکن سامنے آجاتی ہے۔قصہ یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتا جناب۔کبھی کسی لڑکی کے اغواء میں کسی ایم پی اے یاایم این اے کا نام آجاتا ہے تو کبھی نکاح کرکے مکر جانے والا اپنا ہی بیٹا نکل آتا ہے۔کبھی کسی مزدورر کو نشان عبرت بنانے والی بیٹی نظر آجاتی ہے تو کہیں بڑے بڑے منصوبوں کے گھپلوں میں کسی رشتہ دار کا ہاتھ واضح ہوجاتا ہے۔بات یہاں سے بھی آگے جاتی ہے بہت آگے جاتی ہے۔ یہ سب تو وہ تھا جس کو ماننے کے لیے بھی پاکستان مسلم لیگ نون کا کوئی ورکر یا لیڈر تیا ر نا ہو۔اب اس کی طرف آتے ہیں جس کو خود مانتے ہیں۔پنجاب کے هسپتالوں کی زبوں حالی کا تذکرہ چھوٹے میاں اکثر کیا کرتے ہیں۔پنجاب میں تعلیم کی ڈگماتی ناؤ کے قصے ان کی زبانی سنے جاتے ہیں۔بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد تو شائد ان کو یاد ہی نا ہو۔زرداری صاحب کو چور لٹیرا خود کہا؟مشرف کو غدار کہا؟غریب پرور بننے کی بات کی؟نوجوانوں کی بے روزگاری کے مسلے کو تسلیم کیا؟بے روزگاری کے خاتمے کی بات کی؟سرکاری خرچ کم کرنے کی بات کی؟میرٹ کا واویلا کیا؟یہ سب کیا مگر کب کیا؟ الیکشن مہم میں کیا۔اور جب الیکشن ہوگیا پھر کیا کر کے دکھایا؟سنیے ذرا۔هسپتال آج بھی مشینری اورکئی هسپتال بلڈنگ سمیت ڈاکٹروں کی دستیابی کو بھی ترس رہے ہیں۔حکومت دو سال سے زائد چل گئی نا گورنر کا بیٹا بازیاب ہوا، نا ہی سابقہ وزیراعظم کا بیٹا ماں باپ کے سینے سے لگ سکا۔تھانوں پر حملے کرنے والے آج بھی ان کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں۔اساتذہ پر ظلم کرنے والا سرگودھا کا سابق ایم پی اے ابھی تک اپنے جرم کی سزا نا پاسکا۔منی لانڈرنگ کا اعتراف کرنے والے موصوف آج بھی اس ملک کے فنانس منسٹر ہیں۔جعلی ڈگریوں والے عوام کے لیے قانون سازی کرنے میں مصروف ہیں۔میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجٹ کی تقریر سن کر سوائے افسوس کرنے کے اور کچھ نا کر سکتا تھا جس میں نا صحت کے لیے خاطر خواہ فنڈز رکھے گئے اور نا ہی تعلیم کی ترقی کے لیے اس میں کوئی بات کی گئی۔قحط سالی کا شکار بننے والے کئی خاندانون اور ان کے علاقے کے لیے بھی چند ٹکے سرکار کی جیب سے نا نکل سکے۔زرداری صاحب سے پیسے برآمد کرانے اور ان کو گھسیٹنے والوں نے ان سے معافی مانگ لی۔مشرف صاحب اپنی ایک پارٹی کی تشکیل میں مصروف ہیں میاں صاحب ان کے معاملے پر بھی جواب دینے سے قاصر ہیں۔نواز شریف صاحب نے غریبوں کی غربت کا خیال رکھتے ہوئے اپنا ایک دن کا سرکاری خرچ بڑھا کر کروڑ روپے کے قریب پہنچادیا۔نوجوانوں کو قرضے دینے کے نام پر اپنی بیٹی کو سربراہ بنانے والے کتنے نواجوانوں کو صاف شفاف طریقے سے قرضہ دے سکے؟ اس کا جواب ایک ہنسی کے سوا کچھ بھی نہیں۔مگر ایسا بھی نہیں کہ ترقی نہیں ہوئی۔ترقی بھی ہوئی ہے۔ اور ترقی کے لیے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔اپنے ذاتی کاروبا ر میں بے پناہ ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے سے منسلک لوگوں کو نوازنے میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔صرف یہی نہیں رمضان بازار میں سستی چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر پر سفر کر کے رمضان بازاروں کے از خود دوروں کا بھی سلسلہ تیار کیا گیا ہے۔اور بیرون ملک دوروں پر ٹیکس دینے والوں کی رقم سے خاطر خواہ پیسہ خرچ کرنے کا منصوبہ بھی بن گیا ہے۔بجلی کو پورا کرنے کے لیے کیا ہوا اس کا نہیں علم۔تعلیم دیہات میں کیسے ممکن بنے گی اللہ جانے۔غریب کے علاج کا کیا ہوگا اس کی خیر خبر نہیں۔انصاف کی صورتحال کس قدر گر گئی ہے اس سے کوئی فرق پڑتا نہیں۔غریب کا جان و مال کس قدر غیر محفوظ ہے اس سے ان کو سروکار نہیں۔بے روزگاری کا آسیب کتنے گھروں پر سایہ ڈال چکا یہ جاننے کی زحمت تک نہیں کی۔لوٹا ہوا مال کہاں گیا کیوں بتائیں کسی کو۔کسی ایک بھی مشہور قتل کے کیس میں مجرم پکڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔اپنی کہی ایک ایک بات سے پھر گئے اور ڈھٹائی سے اس طرز منافقت پر قائم ہیں۔میری سمجھ سے بالاتر تھا کہ ان حالت پر کیا کہوں اللہ بھلا کرے وزیر دفاع کا۔ان کی تقریر یاد آگئی شائد وہ در پردہ اپنی پارٹی کے لیے ہی فرما گئے ہیں
کوئی شرم ہوتی ہے۔
کوئی اخلاقیات ہوتی ہے۔
کوئی حیا ہوتی ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے واقعی کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے مگر ان کو کیا پتہ وہ کیا ہوتی ہے۔
ضیاۓ قلم از ضیا ء الله خان
About the Author: ضیاۓ قلم از ضیا ء الله خان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.