عالمی فادر ڈے 21 جون 2015 کے موقع پر ایک دل سے لکھی
جانے والی تحریر جو دل کی آنکھوں سے پڑھی جائے گی ۔
ہرسال ( جون کے تیسرے اتوار ) یعنی اس سال 21 جون 2015 کو عالمی فادر ڈے ہے
۔ یہ ہمارے لیے صرف تہوار نہیں بلکہ خدمت و عزت کا نام ہے ۔امریکہ میں
بیسویں صدی کے اوائل میں ماں کے عالمی دن کی کامیابی کے بعد والد کی عظمت
کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اس یوم کو منانے کا سلسلہ شروع ہوا تاہم اس
کو عالمی سطح پر مقبولیت 1966ء میں اس وقت ملنا شروع ہوئی جب امریکی صدر
لنڈن جونسن نے جون کے تیسرے اتوار کو فادر ڈے قرار دیا جبکہ 1972ء میں اسے
امریکی قومی تعطیل قرار دیا گیا جس کے بعد سے ہر سال جون کا تیسرا اتوار
دنیا کے بہت سے ممالک میں فادرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں جتنے جوش و خروش سے دنیا بھر میں مدرڈے منایا جاتا ہے ، اس
جوش خروش سے فادر ڈے نہیں منایا جاتا ،مغربی دنیا میں تو ایسا کیوں ہے کی
وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں اکثریت کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا
باپ کون ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جس شدت سے بچے ماں کے دن کا انتظار کرتے ہیں
اور جیسے تحائف اس دن اولاد کی جانب سے والدہ کو ملتے ہیں وہ انتظار ، ویسا
جوش و خروش اور اًس طرح کے تحائف بہت کم والدکے حصے میں آتے ہیں، اس میں
بھی بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں زیادہ اپنے والد سے اپنی محبت کا اظہار کر
کے یہ دن مناتی ہیں ۔لیکن ہم مشرق میں ،اپنے پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں کہ
والد کی نسبت والدہ کی زیادہ عزت کی جاتی ہے ،اور یہ بھی کہ والد سے زیادہ
محبت ان کی بیٹیاں ہی کرتی ہیں ۔ ہم یہاں والد کی شان میں چند اقوال کی
روشنی میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں والد جو کہ جنت کا دروازہ ہے
اس بارے میں کم لکھا جاتا ہے ۔میں نے اس پر جتنی تحریریں دیکھیں ان میں سے
اکثر بیٹیوں کی طر ف سے لکھی ہوئی تھیں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ بیٹے والد سے
محبت نہیں کرتے میں یہ کہ رہا ہوں والد کے بارے میں بیٹوں نے کم لکھا ہے
۔اسی طرح جب اسلامی تعلیمات کا ذکر ہوتا ہے تو بھی زیادہ والدہ کی خدمت پر
زور دیا جاتا ہے حالانکہ قرآن پاک سورۃ بنی اسرائل کی آیات کا مفہوم (فرمان
ہے کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر
ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو اف تک نہ کہو
اور نہ ان کو جھڑکوبلکہ ان سے نرمی سے بات کرو اور اپنے بازوں کو نرمی اور
عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ؤ اور ان کے لیے یوں دعا کرو ۔اے میرے رب تو ان
پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی
(مفہوم سورۃ بنی اسرائیل آیت 32 تا 42 ) اور بہت سی احادیث میں زیادہ تر
والدین کا ذکر آیا ہے یعنی ماں اور باپ دونوں کا ۔( صرف والدہ کا ذکر نہیں
ہے )۔اسلام میں والد کے حقوق واحترام پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ اس لیے
ہمیں چاہیے کہ اس تہوار عالمی فادر ڈے کو صرف تہوار نہ سمجھیں-
بلکہ اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق والدین کے حقوق پورے کریں ۔ ان کے ادب
و خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دیں ۔ بچوں کو والد کی قدر اس وقت محسوس ہوتی
ہے ، جب وہ اس دنیا سے پردہ کر جاتا ہے ۔ آقا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ، جو
اپنے والد کی عزت نہیں کرتا وہ میرا اْمتی نہیں ہو سکتا ۔ اگر ہم آج اپنے
والدکی عزت و احترام نہیں کریں گے ، تو کل آنے والی نسل ہمیں بھی عزت سے
محروم رکھے گی ۔ جس گھر میں والدین ہوں ، وہ گھر رحمت خداوندی کا آستانہ
ہوتا ہے ماں باپ کی دعاؤں سے بلائیں ٹلتی ہیں مسلمانوں کا ہر لمحہ ماں باپ
کے لئے وقف کیاگیاہے حتیٰ کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین
کی رضا سے منسوب ہیں ۔موجودہ دور نفسا نفسی کا ہے اس میں اب ہم سب اپنی
روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کے فرائض
سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے کہ
مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں والدین
کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے
۔اور اس بے حسی ،ظلم ،پر ذرا بھی شرمسارنہیں ہے موجودہ عہد میں والدین سے
بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔
اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا
وقت نہیں ہے۔مغرب میں اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے
ہیں ،مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے ،پاکستان جو
کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں ،جہاں بوڑھے اپنے دکھ
درد ،داستان حیات سنا سنا کر وقت گزاری کرتے ہیں ۔ہالینڈ سے ایک خبر ٹھنڈی
ہوا کے جھونکے کی طرح آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہالینڈ کے ایک اولڈ
ہوم کی انتظامیہ نے وہاں مقیم بوڑھوں کی تنہائی دور کرنے کے لیے کالج اور
یونیورسٹی کے طالب علموں کومنفرد پیش کش کی ہے کہ وہ روزانہ اگرایک گھنٹہ
اولڈ ہوم میں مکین بوڑھوں کے ساتھ گزاریں تو ان کو بلامعاوضہ رہائش فراہم
کی جائے گی ۔اب تک کافی طالب علم وہاں رہائش پذیر ہو چکے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علما ء ،اساتذہ،اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے
ساتھ ساتھ شوشل میڈیا وغیرہ پر حقوق العباد پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جانا
چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے اسلامی فرائض کو جان سکے۔سب سے اہم یہ ہے کہ آخرت
کے حساب کتاب کا احساس دلایا جائے یہ ہی دانائی ہے کہ آخرت کا خوف ہو۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی گناہ کبیرہ ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا
گناہ ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ والدہ کی طرح والد بھی ایک ذمہ دار انسان ہے جو
اپنے خون پسینے کی کمائی سے اولاد کی پرورش کرتا ہے اکثر والد دن رات اپنی
اولاد کی پرورش کے لیے محنت کرتے ہیں لوگوں کی غلامی کرتے ہیں باتیں سنتے
ہیں اور سارا دن جو کما کر لاتے ہیں وہ اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں باپ ایک
مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی اپنے خاندان کی نگرانی اور حفاظت کرتا ہے اپنی
اولاد کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے ۔سچا دوست ہے پھر کیا و جہ ہے کہ اس بارے
میں کم لکھا جاتا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے ،سمجھنے کی بات ہے ، ماں کے لیے تو
سبھی دعا کرتے ہیں ،ماں کا پیار تو سب کو نظر آتا ہے ،کبھی کسی نے باپ کا
پیار بھی محسوس کیا باپ کو بھی اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے ۔والد کے انتقال
سے پہلے پہلے اس کی قدر کرنی چاہیے ان کی زندگی ہمارے لیے کھلی کتا ب ہے اس
کتاب کے ایک ایک صفحے ایک ایک سطر ،ایک ایک لفظ سے ہم کو استفادہ حاصل کرنا
چاہیے ۔اس کے الٹ ہم دیکھتے ہیں کہ اولاد خود تجربات کرتی ہے اور جب وہ
اپنے تجربات اپنی اولاد کومنتقل کرتی ہے تو بالکل ان کی طرح اولاد بھی اپنے
تجربات خود کرتی ہے باپ کی کمائی کے تو اولاد حق دار بنتی ہے مگر اس کے
دیگر تجربات ،تعلق اس کی دوستیاں،اصول ،سے کم ہی فائدہ اٹھاتی ہے حالانکہ
باپ ایک کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں اپنے والد کو خود سے دور مت
کریں بلکہ اس کے تجربات سے سیکھنا چاہیے لیکن ہم دیکھتے ہیں نئی نسل والدین
سے خود کو زیادہ عقل مند خیال کرتی ہے اپنے والد کے تجربات سے سیکھنے کی
بجائے نئے تجربات کرتی ہے ۔اکثر والدایسے دیکھے ہیں جن کو یہ گلہ ہوتا ہے
اولاد نافرمان ہے کہا نہیں مانتے ،جہاں سے روکیں وہاں جاتے ہیں مخالفین سے
تعلقات رکھتے ہیں اور جن کو ہم عزیز رکھتے ہیں ان سے دور رہتے ہیں ہمارے
کہنے پر جن سے ہم کو الفت ہے ان کا احترام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ والد کا
احترام کرو تا کہ تمہاری اولاد بھی تمہارا احترام کرے ۔والد کی عزت کرو تا
کہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔والد کی باتیں غور سے سنو تا کہ دوسروں کی باتیں
نہ سننی پڑیں ۔اپنے والدکے سامنے اونچی آواز سے نہ بولو ورنہ اﷲ پاک تم کو
نیچا دکھا دے گا ۔والد کے آنسو تمہارے دکھ اور تکلیف سے نہ گریں ورنہ اﷲ
پاک تم کو جنت سے گرا دے گا ۔جب اولاد والدین کی بخشش کے لیے دعا کرنی چھوڑ
دے تو اس کا رزق روک لیا جاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ رزق میں برکت نہیں رہتی رزق
ہوتا ہے مگر کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اس میں برکت نہیں ہوتی ،ہوس بڑھ
جاتی ہے ،انسان سکون محسوس ہیں کرتا ۔ وہ جو والدین کو ستاتے ہیں اور
والدین ان کے لیے دعا کرنی چھوڑ دیتے ہیں ۔ بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنے
والدین کی خدمت کر کے ان کی دعا نہیں لیتا اور دوسرے لوگوں سے کہتا پھرتا
ہے میرے لیے دعا کرنا ۔ باپ ایک رحمت خداوندی ہے جو سدا ایک چادر کی طرح سر
پر تنی رہتی ہے۔ جب تم اپنے والدین سے سختی سے بات کرتے ہو اونچی آواز سے
ان کو جھڑکتے ہو تو اس وقت اﷲ اور اس کے فرشتے تم پر لعنت کرتے ہیں ۔اور
آخر میں ایک بہت زبردست قول کہ اس وقت تمہاری نماز ،روزہ،حج ،زکوۃ کس کام
کا جب تم سے تمہارے والدین ہی خوش نہ ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اس کی ناک
خاک آلود ہوئی (ذلیل ہوا) یہ بات آپ نے تین دفعہ فرمائی۔ لوگوں نے پوچھا اے
رسول اﷲ کون ذلیل ہوا؟ آپ نے فرمایا ’’وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے
کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں
داخل نہ ہوا‘‘۔(مسلم) |