روئے زمین پر یتیم النسلی گروہ

روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بہرحال پورے خطے میں جاری مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تصادموں سے الگ ہے ۔اگرچہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 7سے 8 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن میانمار حکومت اور اشرافیہ کسی بھی طرح انہیں تسلیم کررہے ہیں ۔ موجودہ بحران کے بیج 1962ء میں میانمار میں قائم ہونے والی فوجی آمریت کے بوئے ہوئے ہیں ، جنرل نے ون نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی روہنگیا کے مسلمانوں کیخلاف آپریشن کا آغاز کردیا گیا تھا جو 1982ء میں بری قانون شہریت کے نفاذپر منتج ہوئے جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برماکی شہریت سے محروم کیا گیا اوروہ بنگالی مہاجر کہلائے جانے لگے اور یوں لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں اجنبی ، بے گھر اور بے گانے و نے ریاست ہونے پر مجبور ہوگئے یعنی وہ دنیا کی ان بدقسمت اقلیتوں میں شمار ہونے لگے جن کا وجود کرہ ارض پر ہے مگر وہ کسی دنیا کے کسی ملک کے شہری تک نہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2004ء کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں روہنگیا مسلمان مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں اور ان کی نقل و حرکت ، تعلیم اور شادیوں پر پابندی عائد ہے ۔ 2012ء میں رکھائین ریاست میں ہنگاموں کے باعث سینکڑوں افراد جان سے گئے ، بہت سے زخمی ہوئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔ ماضی کے واقعات نے 2015ء کے حالیہ بحران کو جنم دیا جب ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے عشروں سے جاری ظلم و ستم سے نچنے کیلئے اسمگلروں کی کشتیوں پر سوار ہوکر دوسرے ملکوں کی جانب پناہ کی خاطر سفر کرنے کی ٹھانی۔روہنگیا کے کئی مسلمان اس سے قبل بھی برما کے مظالم سے تنگ آکر دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرچکے ہیں ۔ پچھلے چند ماہ سے جاری نحران میں نیا موڑ آیا جب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں محصور پڑے ہوئے ہیں وجہ یہ ہے کہ انہیں کوئی بھی ہمسایہ ملک قبول کرنے یا پناہ دینے پر تیار نہیں ہے۔یہ لوگ بے آسرااور بے سرو سامنی کے عالم میں سمندر میں بٹھک رہے ہیں ، اس دوران کئی ہلاک بھی ہوچکے ہیں جبکہ خواتین سمیت بڑی تعداد میں بزرگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں ،خطرناک بات یی ہے کہ ہمسایہ ممالک نے بجائے امداد کے اپنی سرحدوں کی سیکیورٹی مزید سخت کردی ہے تاکہ وہ کسی بھی طرح سے ان کے ساحلوں کے قریب آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حسب روایت اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی تنظیم اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی کا بھرپور کردار اداد کررہی ہے ۔57ممالک کی اس اسلامی ممالک کی تنظیم میں چند ممالک روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور امداد کیلئے سرگرم نظرآرہے ہیں جو بہرکیف ناکافی ہیں ۔یہ صورتحال نہایت سنگین ہے اس کے باوجود عالمی برادری حیران کن حد تک اس سے پہلو تیہ کررہی ہے جس سے رونگیا مسلمانوں کے کرب اور کسمپرسی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ 1982ء میں چھینی گئی برمی شہریت کے باعث روہنگیا کے مسلمان بنگالی تصور کئے جانے لگے لیکن بنگلہ دیش حکومت انہیں برمی ہی قرار دے رہی ہے لیکن دنیا ہے کہ انہیں کہیں کا نہیں سمجھ رہی ۔ یہ لوگ بے وطن قراردئے جاچکے ہیں اور اقوام متحدہ جسے دنیا بھر میں امن کے قیام اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی برابرتقسیم کا ٹھیکیدار سمجھا جاتا ہے اس کے جنرل سیکرٹری کے بقول روہنگیا مسلمان روئے زمین پر سب سے یتیم نسلی گرہ ہے لیکن ٹہرئے یہ کوئی اکیلا یتیم نسلی گروہ نہیں یا یہ کوئی پہلا گروہ نہیں کہ جس پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہوں ۔ 1947ء سے تاحال کشمیرو مسلمانوں کے حقوق پر بھارت کی جانب سے ڈاکا ڈالا جارہا ہے ۔ کشمیری مسلمان قیام پاکستان سے اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور حق خودادارادیت کی خاطر کئی جانوں کے نذرانے دے چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ میں یہاں استصواب رائے کیلئے قراردادیں منظورہوچکی ہیں ،، دنیا بھر میں کشمیر کے مسئلے کے جمہوری حل کیلئے اتفاق رائے پایا جاتا ہے اس کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی کے آگے اقوام متحدہ بے بس ہے اور اس کی کشمیریوں پر جاری جارحیت پر استفسار کی ہمت تک نہیں ہے ۔دوسری جانب اسرائیل 1948ء سے فلسطینیوں کو اپنے ہی زمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے اور ان کی حق خودارادیت کی آواز کو دبا رہا ہے جبکہ دنیا کی جانب سے فقط مذمت کی صدا ہے بلند ہوتی ہے اقدامات ندارد ہیں ۔مصر کے مسلمانوں کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہوں بنیادی طور پر فی زمانہ یتیم النسلی گروہ کی حیثیت سے کم حالت میں نہیں ہیں اور اسلامی ممالک اور ان کے سربراہ اس بھی کئی گنا بے اختیار ہیں جو اپنے ہی بہن بھائیوں پر ظلم و ستم ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔
 

Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 49065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.