کھسیانی بلی اور آصف زرداری
(Muhammad Shahid Yousuf Khan, )
کالم لکھنے سے پہلے تو مجھ سے یہ
فیصلہ نہیں ہورہا تھا کہ کھسیانی بلی پہلے لکھوں یا آصف علی زرداری ۔خیر
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی ضرب المثل پُرانی ہے اس لئے آصف زرداری اس کی
جگہ نہیں لے سکتے لیکن اس کا کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ اس مثل پر پورا
اترنے کی کامیاب کوشش میں ہیں ۔16جون کو کی جانے والی تقریر نے آصف زرداری
اور ان کی جمہوریت پسند حکومت کی راہیں ایک بار پھر الگ کردی ہیں ۔زرداری
نے اس مرتبہ اپنا غصہ جمہوریت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فوج پر نکالا
۔اب یہ ہم جیسے طالبعلموں کو اس سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس بار فوج پر اتنا
گرم کیوں ہورہے ہیں جبکہ انکی شلوار اتارنے کا کام تو ان کے اپنے ایکس
قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا کررہے ہیں۔ڈالر گرل ایان علی بھی اپنے جرم میں
گرفتار ہوئی ہے اور ابھی تک عزیر بلوچ بھی وعدہ معاف گواہ نہیں بنے۔نہ ہی
آرمی اور رینجرز نے ان کی جماعت کے خلاف کراچی یا دوسرے شہروں میں تادیبی
کاروائی کی ہے۔
16جون کو اسلام آباد میں ہونے والی فاٹا کے ارکین کی حلف برداری کے نام سے
رکھی جانے والی تقریب میں زرداری نے تقریر کا آغاز جئے بھٹو کے نعرے سے
آغاز کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو گنوایا جس میں ’جیالوں ‘کا جوش وجذبہ
برھایا اور انہیں حسب روایت ’روٹی کپڑہ اور مکان‘ کی اصطلاح پیش کی۔لکھی
جانے والی اس تقریر میں لڑکھڑاتے ہوئے بھی نظر آئے۔جمہوریت کی حمایت کے
ساتھ ساتھ جمہوری حکومت کو بھی اپنے احسان یاد دلائے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی
تجزیہ کاروں پر بھی تنقید کا حق ادا کیا اور ان تجزیہ کاروں کو ظالم قرار
دیا جو ان کے خلاف اپنا قلم چلاتے ہیں۔لیکن زرداری صاحب کے چہرے کے آثار اس
وقت تبدیل ہوگئے جب زرداری صاحب نے فوج کو للکارا اور ایسا لگ رہا تھا کہ
ان کا لاوا بہت گرم ہوچکا ہے اور کیوں ہوچکا ہے یہ انہوں نے نہیں بتایا۔فوج
کو للکارنے کے ساتھ فوج کا ’کچا چٹا‘ یعنی فوج کے گناہوں کی لسٹ دکھانے کی
بات کی اور ملک کو بچانے کے احسانات بھی یاد دلائے اورمزید پاکستان کو بند
کرنے کی ’گیدڑ بھبکی‘ بھی ماری۔ جنگ کرنے کی بھی دھمکی دی لیکن یہاں یہ
سمجھ نہیں آئی کہ وہ فوج کو ،اداروں کو،حکومت کو یا بھارت کو دھمکی دے رہے
تھے ان کے الفاظ اور چہرے کا غضب تو فوج پر ہی برس رہا تھا۔اس کے علاوہ
’گیم بنانے ،پالے ہوئے طوطے ٹائیں ٹائیں کرنے کا ذکر اورفوج اور اداروں
کواپنی حدمیں رہنے کا حکم دیا ہے۔جس سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ اب خود ہی ساری
گیم جس گیم کا ذکر کررہے تھے خوب جانتے ہیں اور یہ تقریب بھی اسی سلسلہ خاص
میں منعقد کی گئی ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق زرداری اب ایسے جال میں
پھنسنے والے ہیں جس سے بچنے کی وہ بھرپور کوشش میں ہیں تاکہ اپنی مظلومیت
کارونا رو کے وہ ’جیالوں‘کی داد سمیٹ لیں کہ بعد میں کہیں وقت نہ ملے اور
یہ زرداری صاحب کا اپنی جماعت اور جیالوں کو متحرک کرنے کا طریقہ ہے۔اس
تقریر میں فوج کو مخاطب کرنا صرف فوج کے لئے ہی نہیں تھا بلکہ اس تقریر اور
تقریب کا لب لباب حکومت کو ہی تنبیہ کرنا تھا۔
اس گرماگرم تقریر کے بعد ئکم رمضان کوسیاسی جماعتوں کے لئے لاہور میں عشایۂ
کروانے کا مقصد بھی ایک تحریک لگ رہا ہے۔وزیراعظم اور حکمران جماعت کو اس
افطاری پروگرام میں مدعو کیا گیا لیکن میاں صاحب اس مرتبہ اس عشائیہ کا
نکار کردیا بلکہ انکار والے دن ہی چیف آف آرمی سٹاف جو بیرونی دورے پر تھے
فون کر کے زرداری کی حالیہ تقریر پر اپنے موقف سے آگاہ کیا۔اس موقف سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاک فوج اس وقت مضبوط ہوچکی ہے۔خیر میاں صاحب نے
زرداری کی اس تقریر میں ادا کئے جانے والے بیانات کو نامناسب قرار دیا۔
افطاری پروگرام میں اہم رہنماوں میں چوہدری شجاعت حسین اپنی جماعت کے ساتھ
دوڑے دوڑے پہنچے اور ان کے علاوہ اے این پی کے میاں افتخار حسین اور ایم
کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی اپنے اپنے وفد کے ساتھ پہنچے ۔سننے میں آیا
ہے کہ جماعت اسلامی کو دعوت نامہ ہی موصول نہیں ہوااگر ملا ہوتا تو وہ حسب
روایات پیغام مفاہمت لے کر ضرور پہنچتے ا س کے علاوہ جمیعت علمائے اسلام ف
کے ممبرز بھی شریک ہوئے ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کو بھی اس
عشائیہ کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا جبکہ فرحت اﷲ
بابر نے بتایا ہے کہ انہوں نے تین جماعتوں کو ہی دعوت افطار دی تھی اور وہ
شریک بھی ہوئے۔اس تقریب کے بعد شیریں رحمان اور قمرالزمان کائرہ نے میڈیا
کو بتایا کہ’’ زرداری کی حالیہ تقریر میں صرف ڈکٹیٹروں کوہی مخاطب کیا گیا
ہے۔اور تمام جماعتوں نے ضرب عضب مکمل ہونے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے‘‘۔
یہاں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ باقی جماعتوں نے زرداری کی اس تقریر فوج
کے خلاف دئے جانے والے بیانات سے اعتماد نہیں کیا۔
اس وقت زرداری صاحب گرداب میں پھنستے نظر آرہے ہیں اور وہ بھی اپنوں کی ہی
وجہ سے اس لئے ان کا پارہ گرم ہورہا ہے اور وہ کھسیانی بلی کے مصداق اچانک
ابل پڑے ہیں ایک طرف ان کے ایکس دست راست ذوالفقارمرزا کے خاص عُزیر بلوچ
بھی نئے راز افشاں کرسکتے ہیں ان اہم رازوں میں بے نظیر کا قتل بھی شامل ہے
اور اس کے علاوہ گرل ماڈل ایان علی بھی ضرور کچھ گل کھلائیں گی،جس کو ابھی
تک لاکھوں روپے کے میک سامان کے علاوہ مادلنگ لباس جیل میں ہی مہیا کئے
جارہے ہیں اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سب ایک مجرمہ کو کیسے اور کہاں سے فراہم
کیا جارہا ہے۔کراچی میں کیا جانے والا آپریشن ایم کیوایم کے بعد پیپلز
پارٹی کے گروہوں کے خلاف بھی ہونے کو ہے جس کے لئے زرداری کا غصہ سمجھ آرہا
ہے اور سندھ حکومت کی ہونے والی کرپشن پر سائیں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ
اچانک ہوش میں آگئے ہیں اور اس غصے میں اپنی نااہلی چھپانے کے لئے انہوں نے
چار وزراء کو بھی فارغ کردیا ہے۔ کالم نگار برادرم مظہر چوہدری کے مطابق
قومی احتساب بیوروپہلے سے ہی سندھ حکومت کے وزراء اور افسران کے خلاف گھیرا
تنگ کررہی ہے۔عزیر بلوچ اور ڈالر گرل ایان علی کے کیس میں حکومت زرداری کو
کسی حد تک بچا سکتی ہے لیکن سندھ حکومت کی ہونے والی مبینہ کرپشن میں حکومت
چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتی۔اب زرداری صاحب کھسیانی بلی کی طرح کھمبے
ہی نوچتے پھریں۔ |
|