ہمارے معاشرے میں دو طبقہ ہے ایک
ظالم اور دوسرا مظلوم،ظالم طبقہ زندگی کے مختلف شعبوں پر مافیاز کی صورت
میں طاقت کے ذریعے قابض ہیں ،تجارتی مافیا،سیاسی مافیا،صحافتی مافیا اور
حتی کہ مذہبی اور گداگر وں کا مافیا،سب ہی سرگرم عمل ہیں۔حیران کن بات یہ
ہے کہ ملک کا ظالم طبقہ جو مافیاز کی شکل میں کام کررہا ہے اس کی تعداد
بنسبت ان لوگوں کے جو ظلم سہنے پر مجبور ہے،انتہائی کم ہے،اس کی وجہ غالبا
ظالم طبقہ کا قانون اور تہذیبی اصولوں سے آزاد ہونا اور مظلوم طبقہ کی بے
حسی ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کامیاب شخصیات اپنے قوم کی
رہنمائی کرتے ہیں اور ان کو ظلم سے نجات دلاتے ہیں، چاہے مد مقابل طاغوت
زمانہ ہو ،یہی طرز عمل انبیاء علیہم السلام کا رہا،حضرت موسی علیہ السلام
نے زمانہ کے سب سے بڑےظالم کے سامنے کلمئہ حق بلند کیا اور فرعون کو ظلم سے
روگا،یہی زندہ دل لوگوں کا طریقہ کار ہے کہ وہ ظلم کے خلاف لیت ولعل کے
بجائے سینہ سپر ہوجاتے ہیں،خود رسول اللہ ۖ نبوت سے پہلے مکہ کے ان
نوجوانوں میں شامل تھے جنھوں نے آپس میں عہد کیا تھا کہ مکہ میں کسی کو ظلم
اور زیادتی نہیں کرنے دیں گے،اور نبوت کے بعد تو پوری امت کو قاعدہ بتا دیا
"خدا کی قسم تم اس وقت تک نجات نہیں پاؤگے جب تک کے ان کو ظلم سے نہ روک دو"۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ظلم علی النفس (گناہ) کو روکنے کے لیے
منظم جماعتیں اور تحریکیں چلتی ہے(جو کہ ایک مستحسن امر ہے) صرف ملک کے
اندر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہزاروں پاکستانی اس مقصد کو پورا کرنے کے
لیے کابند ہے،لیکن ملک کے اندر کرپشن،قبضہ اور لوٹ مار کی صورت میں جو ظلم
ہورہا ہے اس کو روکنے کی لیے عوام کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے،حالانکہ اس
کا نقصان صرف کرنے والے کو نہیںبلکہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے اور رسول اللہ
ۖ کا صریح ارشاد ہے "ظالم کو ظلم سے روکتے رہو اور اسکو حق بات کی طرف
کھینچ کرلاتے رہو" لیکن یہ تو اس وقت جب ہم اپنےاطراف میں ہونے والی قتل
وغارت کو ظلم سمجھے اور اس کا احساس کرے،حبیب جالب نے آج سے کئی سال پہلے
کہا تھا:
دس کڑوڑ انسانوں---زندگی سے بیگانوں
صرف چند ہزار لوگوں نے---حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر---یہ بھی کوئی جینا ہے
آخر کب تک ہم اس ظلم کے نظام کے غلام رہیں گے اور چند ہزار لوگ ہمیں بیوقوف
بنائیں گے؟پارلیمنٹ سے لے کر تھانے تک عوام کو ایک کھلونا سمجھاجاتا ہے،جس
پر طرح طرح کے ظلم کیے جاتے ہیں،ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ عورتوں کے منہ پر
سیدھی گولیاں چلانا اس کی واضح مثال ہے۔یہ طے شدہ بات ہے کہ اگر ہمیں زوال
کے کھنڈرات سے نکلنا ہے تو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا پڑیگا،اور کمزور و ضعیف
کو اسکا حق دلانا ہوگا،رسول اللہ سے منقول ہیں" اللہ اس قوم کو عظیم کیسے
بنا سکتا ہے جس کے طاقتور سے ضعیف کا حق نہ لیا جائے"۔(ابن ماجہ)
آج سے تقریبا ستر سال پہلے اگر ہمارے اباء واجداد ہماری طرح خودغرضی اور
خوف کا شکار ہوتے، تو آج ہم مودی سرکار کے رحم وکرم پر ہوتے،ہمارے اباء
واجداد ن ےتو آزاد ملک دے کر اپنا فرض نبھادیا لیکن ہجرت کےے دوران لاکھوں
انسانوں کا خون اس لیے نہیں بہاتھا کہ آج ہم بےگناہوں کوقتل ہوتا دیکھے اور
خاموش رہے،عورتوں نے نہروں میں اسلیے نہیں چھلانگ لگائیں تھی کہ آج ہم تھر
میں ماں کی گود میں بچے کو دم دوڑتا دیکھے اور صرف افسوس پر اکتفا کریں،جس
طرح ہم سے پہلوں نے ہندوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کی ،اب ہمارا فرض ہے کہ
ہم اس ملک کو مفاد پرست ظالم طبقہ سے آزاد کرائے،ہر میدان میں ظلم کا
مقابلہ کریں، خاص طور پر سیاست جو سارے معاشرے پر براہ راست اثرانداز ہوتی
ہے، ہمیں بلاوجہ اسکو اپنے لیے شجرۂ ممنوعہ بناکر ملک دشمنوں کو مواقع نہیں
فراہم کرنے چاہیے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک میں کوئی سیاسی تنظیم
ملکی مفاد کے لیے کام نہیں کررہی،اگر واقعی یہ بات ہے تو پھر قوم کے ہر فرد
پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسی سیاسی تنظیم تشکیل دے جو ملک کو اندرونی
وبیرونی خطرات سے بچائے،یہ ہمارا دینی،قومی اور اخلاقی فرض ہے،اور مصصم
ارادہ رکھنے والے کے لیے کوئی خاص مشکل بھی نہیں:
ارادے جن کےپختہ نظر جن کی خدا پر ہو۔۔تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں
کرتے
بصورت دیگر ،ملک میں ہونے والے ظلم اور جبروت کے ہم بھی بارگاہ خداوندی میں
جوابدہ ہوں گے۔ |