جعلی پیر

اول تو موجودہ دور میں کثرت ان لوگوں کی ہے جو ا س بات سے ہی بالکل بے خبر ہیں کہ ان کے اس جسمانی وجود کے اندر ایک باطنی وجود بھی ہے جس کو اس جسمانی وجود کی طرح بیماریاں لگتی ہیں اور جس کے علاج کے لیے انہیں ایک روحانی طبیب کی شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ بیمار وجود ان کے اور قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہے کہ قربِ الٰہی صرف پاک و صاف وجود کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر چند لوگوں کو اپنے باطنی وجود کی موجودگی کی خبر ہے بھی تو و ہ اپنے اس جھوٹے زعم میں گرفتار ہیں کہ ہم باطنی طور پر بالکل پاک صاف ہیں، ہمیں حسد، لالچ، کینہ، تکبر، عُجب، ریاکاری کی کوئی بیماری نہیں اس لیے ہمیں کسی سے علاج کرانے کی ضرورت نہیں حالانکہ یہ بات تو طے ہے کہ سوائے انبیاء کے اس روئے زمین کا کوئی شخص باطنی بیماریوں سے پاک نہیں۔ ان لوگوں کا یہ گمان کہ ہمیں اپنے روحانی علاج کے لیے کسی طبیب کی ضرورت نہیں، ان کی سب سے بدترین روحانی بیماری تکبر کی وجہ سے ہے۔ اگر قسمت سے چند لوگوں کو ایسی توفیق مل ہی جاتی ہے کہ وہ اپنے باطنی وجود کی فکر کریں اور اس بات کی فکر کریں کہ روزِ قیامت اللہ کے سامنے یہی باطنی وجود لے کر حاضر ہونا ہے کیونکہ جسمانی وجود تو قبر میں گل سڑ چکا ہوگا، اسی باطنی وجود نے حساب کتاب دینا ہے اور میدانِ حشر میں ہم سب اسی باطنی وجود کے ساتھ حاضرہوں گے۔ جس قدر یہ گندا، بیمار اور لاغر ہوگا اسی قدر سب کے سامنے ہماری شرمندگی اور پشیمانی کا باعث بنے گا، اس بات کی فکر کرنے والے وہ چند لوگ کسی روحانی طبیب کی تلاش میں اس خوف کے مارے نہیں نکلتے کہ اس زمانے میں ہر جگہ جعلی پیروں نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں، ہر جگہ فراڈ ہو رہا ہے، بندہ خود کو علاج کے لیے حوالے کرے بھی تو کس کے؟

اللہ کے ہاں بھی demand اور supply کا اصول کاربند ہے۔ جب ہم نے خالص ہو کر اپنے روحانی علاج اور قربِ الٰہی کے حصول کی طلب چھوڑ دی تو اللہ نے بھی ہمیں ایسے اولیاء کاملین کی بارگاہوں سے دور کر دیا جو اس راہ میں کامل اور ماہر تھے۔ ان اولیاء کاملین نے بھی خود کو دنیا کی نگاہوں سے چھپا لیا۔ جب ہم نے دنیا اور اس کی خواہشوں کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تو ہمارے اردگرد ایسے ہی پیروں فقیروں کی بہتات ہو گئی جو اس کام کے ماہر تھے کہ کس طرح فریب سے دنیاکی خوشیوں اور ترقی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔دنیا تو خود فریب ہے اسے فریب کے بغیر کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تعویذ گنڈوں کے ذریعے لوگوں کی تقدیر بدل دینے کا دعویٰ کرنے والے نہ پیر ہیں نہ فقیر بلکہ پیری فقیری کو بدنام کردینے والے جعلی فراڈانسانوں کے روپ میں شیطان ہیں جن کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ ’’انسانی شیطان جن شیطان سے زیادہ سخت ہے‘‘ اور مولانا جلال الدین رومیؒ نے فرمایا کہ
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نہ باید داد دست
ترجمہ: بہت سے شیطان انسانوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ پس ہر شخص کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دے دینا چاہیے۔

تعویذ گنڈوں کے ذریعے لوگوں سے پیسہ بٹورنے والے اور دم درود و جھاڑ پھونک سے لوگوں کی بیماریاں دور کرنے والوں کا روحانیت اور روحانی اصلاح سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔نہ ہی ایسے لوگوں کا تصوف و طریقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ ہے۔ ان لوگوں نے اپنی مکاری او رشعبدہ بازی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ لوگ بھی اپنے ایمان اور توکل کی کمزوری کے باعث اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس جانے لگے۔ کہیں کاروبار اور مال میں اضافہ کے لیے عملیات ہونے لگے، کہیں محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے، کہیں ساس بہو کو زیر کرنے کے لیے او رکہیں بہو ساس کو قابو میں لانے کے لیے تعویذ گنڈے کرنے لگی۔ ان جعلی پیروں کا کام چل نکلا۔ عام سادہ لوح لوگوں نے ان جعلی پیروں کے طرزِ عمل پر غور کیا تو انہوں نے ان کے قول و فعل میں خیانت اور تضاد کو ملاحظہ کیا، ان کے حجروں میں خواتین کے ہجوم دیکھے، ان کی نظروں میں شہوانیت دیکھی اور پھر ناجائز طریقوں اور فریب سازی سے لوگوں سے مال بٹورتے دیکھا تو یہ گمان کر لیا کہ صوفیاء کرام کا طریقہ بھی یہی ہوگا۔حالانکہ ایسے لغو افعال سے صوفیاء و اولیاء کا دور سے بھی واسطہ نہیں۔ اولیاء کرام اللہ کے وہ دوست ہیں جنہیں اللہ نے اپنے قرب کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی قوت عطا کی ہے تاکہ وہ روحانی پاکیزگی عطا کر کے لوگوں کا تعلق اللہ سے مضبوط کریں اور ان کی باطنی رہنمائی کریں۔ یہ اولیاء کرام اللہ کے محبوب ہیں ان کے متعلق ایسا گمان کرنا بھی اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ یہ اولیاء کرام ہر زمانے میں خلقِ خدا کے رہنمائی کے لیے دنیا میں موجود رہتے ہیں دنیا کبھی بھی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ اللہ ان کے طفیل ہی خلقِ خدا پر ہر طرح کی مہربانیاں کرتا ہے۔

یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ نقلی اور جعلی مال وہیں تیار ہوتا ہے جہاں اصل موجود ہو۔ البتہ نقلی مال سستا ہونے کے باعث عام دستیاب ہوتا ہے۔ اس مال کو طلب کرنے والے بھی عامیانہ درجے کے لوگ ہوتے ہیں اور جلد ہی دھوکہ کھا لیتے ہیں۔ ان کی طلب بھی کمتر، ان کو حاصل ہونے والی شے بھی کمتر اور نتائج بھی کمتر۔ لیکن اللہ کے سچے طالبوں کا رہنماخود اللہ ہوتا ہے جیسا کہ اس نے سورۃ العنکبوت میں فرمایا ترجمہ: ’’اور ہم اپنی طرف آنے والوں کو اپنی راہ سجھا دیتے ہیں‘‘ ۔ جن کی طلب ذاتِ حق تعالیٰ کا قرب ہو وہ کبھی بھی ان جعلی پیروں کے ہتھے نہیں چڑھتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان جعلی پیروں کے طرزِ عمل کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اصل روحانی مرشدین کاملین سے بھی بدظن ہو چکی ہے اور ان کی طرف رجوع کرنے سے گریز کرتی ہے حالانکہ جتنا روحانی فیض ان اولیاء اللہ سے حاصل ہوتا ہے اور قربِ الٰہی کی جو منازل ان کی رہنمائی میں طے ہوتی ہیں وہ ان کے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے۔ طریقت، تصوف اور روحانی پاکیزگی کا سبق انہی کے پاس ہے اور انہی کے پاس ہے روحانی بیماریوں کے علاج کا علم۔ ان کی بارگاہ تک رسائی کے بغیر کسی انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنا ہی عبادت گزار کیوں نہ ہو۔ جو انسان سچے دل سے اللہ کے قرب ورضا کا طلبگار ہے، اگر وہ اللہ سے شدت سے صراطِ مستقیم طلب کرے گا تو اللہ کبھی اسے جعلی پیروں کے چنگل میں پھنسنے نہ دے گابلکہ خود اس کی رہنمائی اپنے ان دوستوں تک کر دے گا جن کے ذمے خلقِ خدا کو قربِ الٰہی کی منازل طے کرانے کی ڈیوٹی لگی ہے۔ جعلی پیروں کے ڈر سے قربِ الٰہی کی طلب ہی چھوڑ دینا یا اس طلب کے حصول کی خاطر اصل اولیاء اللہ کی بارگاہوں سے بھی دور ہوجانا ہمارے شدید اخروی نقصان کا باعث ہے۔ اللہ ہمیں اپنی ذات کی سچی محبت عطا کرے اور اپنے قرب کے حصول کے لیے صحیح اور کامل اولیاء اللہ کی بارگاہوں تک خود ہماری رہنمائی فرما دے (آمین)
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 51953 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.