شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کی نا قا بل فراموش خدمات

قر آ ن کر یم میں اﷲ پا ک ا ر شا د فر ما تے ہیں ہر جا ندار چیز کو مو ت کا مزہ چکھنا ہے مو ت وہ راہ بر حق ہے جس پر روز اوّل سے لے کر روز قیا مت تک ہر جا ندار کو جا نا ہے بچہ جب رحم ما در میں ہو تا ہے تب ہی اسکی موت کا وقت اور جگہ مقرر ہو جا تی ہے زند گی کی یہ خو شنما ئیاں ہمیں اپنی مو ت سے غا فل تو کر دیتی ہیں لیکن موت کو ٹا ل نہیں سکتیں فر عون اور قا رون جیسے ما لدار ،مغرور اوردنیا پرور لوگ بھی اﷲ کے بنا ئے ہو ہے اس قا نون کے سا منے بے بس رہے۔ ایک نبی کے پا س موت کا فر شتہ انکی جان قبض کر نے آ یا تو انہوں نے جان دینے سے انکار کر دیا اور با ری تعا لیٰ سے التجا کی تو اﷲ تعا لیٰ نے فر ما یا کہ اس بھیڑ کے بالوں کو اپنی مٹھی میں پکڑو جتنے بال تمھا ری مٹھی میں آ ئیں گے اتنے سا ل تمھا ری عمر بڑ ھا دی جا ئے گی نبی نے عر ض کیا اس کے بعد کیا ہو گا ؟تو اﷲ تعا لیٰ نے فر ما یا پھر مو ت تو نبی نے عر ض کیا کہ ا گر اسکے بعد بھی موت ہی آ نی ہے تو کیو ں نہ ابھی جان قبض کر وا لوں ۔موت وہ تلخ حقیقت ہے کہ اگر اسے یا د کیا جا ئے تو زندگی کی رونقوں میں کھونا انسان کے لیے نا ممکن ہو جا ئے روح کا پرواز کر جا نے کے بعد اس جسد خا کی کو خاک کے حو الے کر دینے کا حکم ہے مر نے والا تو سا نسوں کے رک جانے کے بعد ہی اس عا رضی چمک دمک سے دور چلا جا تا ہے مگر اسکے چا ہنے والے بلکل بے بس دکھا ئی دیتے ہیں کبھی جن کے ہو نے کا مان کیا جا تا تھا وہی اپنے ہا تھوں سے منوں مٹی تلے دفنا دیتے ہیں۔

سعودی فرما نرواں خا دم الحرمین الشریفین عبداﷲ بن عبدالعزیز 23 جنوری بروز جمعہ بوقت رات ایک بجے اس دنیا ئے فا نی سے رخصت ہو گئے اور اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے اور مسلم امہ کو ایک عظیم رہنما سے محروم کر گئے دنیا ئے اسلام کے لیے انکی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا شا ہ عبداﷲ چھٹے سعودی با دشاہ تھے با دشا ہت کا یہ سلسلہ عبدالعزیز سے شروع ہوا۔ انہوں نے 1902میں آزادی کی لڑائی کا آ غا ز کیا اور1922میں نجد یعنی ریاض اور القصیم اور ان سے ملحقہ علا قوں پر فتح حا صل کی جو کہ 28% سعودی آ با دی پر مشتمل ہے پھر 1925 میں حجاز یعنی وہ حصہ جو بحرئے احمر کے سا تھ منسلک ہے فتح کیاجو کہ 35% سعو دی آ با دی پر مشتمل ہے اور بلا آ خر 1932میں انھیں اپنی منز ل حا صل ہو گئی اور مکمل سعو دی عر ب پر فتح حا صل کر لی اور یوں عبدالعزیز 1932میں پہلے سعودی با د شاہ بنے ان کی وفا ت کے بعد 1953میں السعود نے بادشا ہت سنبھا لی اسی طر ح با الترتیب 1964الفیصل،1975 الخا لد، 1982الفہد اور اس طر ح 2005 میں شاہ عبداﷲ نے با دشا ہت سنبھا لی اپنی دس سا لہ با دشا ہت میں انہوں نے سعو دی عر ب میں بہت سے تر قیا تی کا م کر وائے جن میں سر فہرست مسجد الحرام اور مسجد النبوی کی تو سیع ہے شاہ عبد اﷲ نے اپنے دور میں تعلیم پر خصو صی تو جہ دی اور کئی یو نیورسٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا جن میں کنگ عبداﷲ یو نیورسٹی اور پر نسز نو رہ یو نیورسٹی ایک جا مع منصو بہ ہے اسکے سا تھ ساتھ انہوں نے بہت سے تعلیمی پیکجز متعا رف کر وا ئے تا کہ سعو دی عوام کی تو جہ تعلیم کی طرف مر کو ز کی جا ئے بہت سے طا لب علموں کواندرونی یا بیرونی مملکت میں تعلیم حا صل کر نے کے لیے وظا ئف سے نوازا گیا اُن کی اِن تعلیمی کو ششوں کے اثرات وا ضح ہیں شاہ عبداﷲ نے بہت سے انڈسٹریل شہر بھی قا ئم کیے جن سے سعو دی عرب کی درآ مدات میں خا طر خواہ کمی آ ئی شاہ عبداﷲ 1924کو ریا ض میں پیدا ہو ئے اپنی ابتدائی تعلیم شا ہی محل میں ہی حا صل کی شاہ عبداﷲ کو بچپن سے ہی اپنی ثقا فت سے بہت لگا ؤ تھا جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انکے والد نے انھیں کم عمری میں ہی صحرا ئی قبا ئل کے سا تھ چھوڑا تا کہ وہ اپنی ذمہ داری ،بہا دری اور ثقا فت کو قر یب سے سمجھ سکیں یہی وجہ تھی کہ شا ہ عبداﷲ نے اپنی ثقا فت کو خوب متعارف کر وایا اپنے دور با دشا ہت میں عام سعودی شہری کے لیے بہت سے فلا حی کا م کیے۔

شاہ عبداﷲ کی پا کستان سے خا ص محبت تھی انہوں نے ہمیشہ کڑ ے وقت میں پا کستان کے شا نہ بشا نہ کھڑے ہو کر اس با ت کا ثبوت دیا کہ وہ واقعی پا کستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ اس با ت کا اظہار کر تے تھے کہ پا کستان اور سعودیہ کا رشتہ دوستوں اور بھا ئیوں سے بھی بڑھ کر ہے ہم ہر پل ہر موقع کسی بھی صورتحال میں پا کستان کے سا تھ ہیں۔ 2005 میں آنے والی قدرتی آ فت جس نے ہمارے با لا ئی علا قوں کو نست ونا بود کر نے میں کو ئی کسر با قی نہ چھوڑی اور لا کھوں لو گوں کو بے سروسامان کیا لا تعداد لوگ لقمہ اجل بھی بنے اسی طر ح 2010 اور2011میں آ نے والے سیلاب کی تبا ہ کا ریوں کے لیے بھی سعودی عرب نے سات سو ملین ڈالر کی امداد کی تھی شاہ عبداﷲ کے دور حکمرانی میں پا کستان کے مختلف حصوں میں بڑ ے بڑے پراجیکٹوں کی تکمیل کے لیے امداد فراہم کی گئی جن میں تعلیم،ہا ؤ سنگ،انفا اسڑکچر ،صاف پینے کا پا نی اور بجلی کے شعبہ جا ت شا مل ہیں حا لیہ دنوں میں پا کستان اور سعو دیہ نے لون ایگریمنٹ پر دستخط کیے ہیں جن کی ما لیت دو سو بہتر ملین ڈالر سے زائد ہے پا کستان کے زرعی شعبے میں بھی سعو دی عر ب نے بہت سر ما یہ کا ری کی۔ سعو دی عر ب کا شمار اُن اولین مما لک میں ہوتا ہے جس نے پا کستان کو بحثیت آ زاد ریا ست کے قبول کیااور آ زدی کے بعد سے ہی پا ک سعو دی تعلقات دن بدن مضبوط ہو تے چلے گئے پہلی با رکنگ السعود نے 1954میں پا کستان کا دورہ کیا تھاجس نے پاک سعودی سفا رتی تعلقات کی راہ ہموار کی شاہ عبداﷲ بھی پا کستان چار مرتبہ دورے پر آ ئے جو ان کے دل میں پا کستان سے اپنا ئیت کا واضح ثبوت ہے پا ک سعو دی تعلقات صرف ان دونوں ممالک کی بقا کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی بقا کے لیے ہیں۔

پا کستا نی عوام کے دلوں میں سعودی عر ب کا مقا م بہت بلند ہے پا کستانیوں نے بھی ہمیشہ سعو دی عرب کو اپنا دوسرا گھر تصور کیا اور انکے ثا لثی قردار کو ہمیشہ سے سراہا ہے پندرہ لا کھ سے زائد پا کستانی سعودی عرب میں اپنی خدما ت سر انجام دے رہے ہیں ہم تہہ دل سے نئے با دشا ہ سلمان بن عبدا لعزیزکو خوش آ مدید کہتے ہیں اور یہ امید کر تے ہیں کہ ان کا دور حکومت پاک سعودی تعلقات کو مزید مضبوط کر ے گا اور وہ سا بقہ سعودی حکمرانوں کی طرح امت مسلمہ کے لیے اپنا مثبت قردار ادا کر تے رہیں گے۔
 

Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 49027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.