مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم میں مکھی سے شروع ہونے والی
چومکھی لڑائی ابھی جاری تھی اور وزیراعظم کی مکھی بارے وضاحت کی سیاہی بھی
ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ آصف زرداری نے ایک اور چومکھی جنگ کا آغاز کر دیا۔
ایک طرف جنرل راحیل شریف کا اہم ترین دورے پر ماسکو میں شاندار استقبال ہو
رہا تھا تو دوسری طرف آصف زرداری ملکی سلامتی کے اہم ادارے کی اینٹ سے اینٹ
بجانے کی دھمکی دے رہے تھے۔ توقع کے برعکس جب زرداری صاحب کو مسلم لیگ (ن)
اور تحریک انصاف سمیت اہم سیاسی جماعتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور
وزیراعظم نے فوج مخالف بیان دینے پر زرداری صاحب کے ساتھ ملنے سے انکار کر
دیا تو انہوں نے فوراً ہی اپنے بیان کے حق میں صف بندی کیلئے افطار
ڈپلومیسی کا سہارا لیا۔ ابھی رمضان المبارک کا چاند بھی نظر نہ آیا تھا کہ
زرداری صاحب کی طرف سے یکم رمضان المبارک کو افطار پارٹی کا اعلان کر دیا
گیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اس وقت آصف زرداری جس سیاسی تنہائی کا شکار ہیں
وہ باقی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس سیاسی تنہائی سے فوراً نکلنا چاہتے ہیں
ورنہ سیاسی افطار پارٹیاں تو رمضان کے آخری عشرے میں منعقد ہوتی ہیں۔ا س
افطار پارٹی میں اہم سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا مگر مسلم لیگ (ن)،
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی بڑی جماعتوں نے اس افطار پارٹی میں شرکت
سے انکار کر دیا۔ پہلے تاثر دیا گیا کہ یہ افطار ڈنر کل جماعتی کانفرنس کی
طرح ہو گی، بعد میں کہا گیا کہ یہ اتحادیوں کا اجتماع ہے اور آخر میں کہا
گیا یہ اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ ہے۔ اس افطار پارٹی میں پیپلز پارٹی کے
دیرینہ اتحادی اسفند یار ولی خود نہ آئے اور اپنا وفد بھیج دیا، چودھری
شجاعت حسین بھی بڑی منتوں سماجتوں سے پہنچے، پس و پیش کا شکار مولانا فضل
الرحمان افطار کے بعد اپنے سابقہ اتحادی کا ڈنر کھانے پہنچے۔ جماعت اسلامی
نہ آئی، حکمران لیگ نے نہ بلائے جانے کا شکورہ کر ڈالا، تحریک انصاف نے
شرکت سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ افطار عشائیہ میں دو سابق
وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماء
اعتزاز احسن بھی غائب تھے۔ زرداری ہاؤس میں خصوصی دعوت کیلئے اسپیشل سندھی
بریانی، وائٹ مٹن چانپ، چکن سموسے، چکن پکوڑے، فش پکوڑے، مٹن قورمہ، کھجور،
شربت، لیموں پانی، چنا چاٹ، فروٹ چاٹ اور دہلی بھلے سے پانچ میزیں سزائی
گئیں لیکن پانچ میں سے دو میزیں خالی ہی رہیں۔ ایک طرف سیاسی افطار ڈنر میں
ہر نعمت موجود تھی تو دوسری طرف پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف دورۂ
روس سے وطن واپسی پر آرام کرنے کے بجائے خیبر ایجنسی میں اگلے مورچوں پر جا
کر پاک فوج کے جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے بلکہ آرمی چیف نے جوانوں کے
ساتھ بیٹھ کر افطار میں وہی کھایا جو یہ جوان کھاتے تھے۔ سیاسی افطار ڈنر
میں شرکت نہ کرکے مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے فوج کو
ایک مثبت پیغام دیا جبکہ اس افطار ڈنر میں شریک مسلم لیگ (ق) اور جے یو آئی
(ف) کے سربراہوں نے بھی زرداری صاحب کو فوج مخالف بیان واپس لینے کا مشورہ
دیا اور بتایا جاتا ہے کہ آصف زرداری نے پسپائی اختیار کرکے فوج سے مفاہمت
کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے اڑتالیس گھنٹے قبل
فوج کے بارے میں جو پوزیشن لی تھی اب پیپلز پارٹی اس سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
آصف علی زرداری کی طرف سے پاک فوج کے خلاف دیئے جانے والے بیانات کی بازگشت
ابھی برقرار تھی کہ پارٹی کے مختلف رہنماء اپنی جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔ سب سے پہلے تو قمر زمان کائرہ نے وضاحتی پریس کانفرنس کی اور بار بار
کہتے رہے کہ زرداری کا یہ مطلب نہیں تھا وہ مطلب نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔ بعد
ازاں پیپلز پارٹی کے رہنماء مختلف ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں بھی
وضاحتیں پیش کرتے نظر آئے۔ ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں شیری رحمان صاحبہ
نے پہلے تو کہا کہ زرداری صاحب نے مشرف پر تنقید کی جو سابق آرمی چیف ہیں
اور ایک سیاسی جماعت کے رہنماء ہیں ، اس پر اینکر نے کہا کہ تین سال کیلئے
مشرف تو نہیں آئے تھے تین سال کیلئے جنرل راحیل شریف آئے ہیں۔ اس پر شیری
رحمان صاحبہ نے آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے کہا کہ تین سال تو موجودہ حکومت
کے بھی رہ گئے ہیں۔ ایک طرف رینجرز نے کراچی آپریشن کے اگلے مرحلے میں دہشت
گردوں کے سہولت کار سیاست دانوں بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ہے تو دوسری
طرف منی لانڈرنگ کیس میں ماڈل ایان علی کی گرفتاری نے بعض سیاست دانوں کی
نیند اُڑا دی ہے۔ ابھی ذوالفقار مرزا کے زرداری مخالف بیانات جاری تھے کہ
عذیر بلوچ کے ایجنسیوں کی تحویل میں ہونے اور ہرشربا انکشافات کیے جانے کی
خبریں بھی آ گئیں۔ شاید اسی وجہ سے زرداری صاحب آج کل کچھ زیادہ ہی پریشان
ہیں اور سارا غصہ رینجر اور فوج پرنکال رہے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب پر تو
زرداری صاحب اور متحدہ کے رہنماء بہت خوش تھے لیکن جب شہروں خصوصاً کراچی
میں دہشت گردوں کے سرپرستوں اور کرپشن میں ملوث بااثر شخصیات پر ہاتھ ڈالا
گیا تو سکیورٹی اداروں پر تنقید شروع کر دی گئی۔ زرداری صاحب کو فوج پر
تنقید کرنے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا حوصلہ بڑھانا چاہئے۔
جس فوج کو وہ للکار رہے ہیں اس نے کامیابی کے ساتھ ملک سے ایسے دہشت گردوں
کا صفایا کیا جس نے پچیس ہزار سے زائد معصوم شہریوں اور فوجی جوانوں کی
جانیں لیں۔ اب اگر فوج سندھ اور کراچی میں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں
کو کچل رہی ہے تواس پر احتجاج کیوں؟ زرداری صاحب فوج کی اینٹ سے اینٹ تو
شاید نہ بجا سکیں، البتہ سحری اور افطاری کے اوقات میں حکومت نے لوڈ شیڈنگ
کرکے عوام کی اینٹ سے اینٹ ضرور بجا دی ہے۔ |