حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہؒ میں لکھتے ہیں کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدسؐ
نے حضرت مقداد بن اسود ؒکو گھوڑ سواروں کی ایک جماعت کا امیر بنایا۔ جب یہ
واپس آئے تو حضورؐ نے ان سے پوچھا۔ تم نے امارت کو کیسے پایا؟ انہوں نے کہا
کہ یہ لوگ مجھے اٹھاتے اور بٹھاتے تھے یعنی میرا خوب اکرام کرتے تھے جس سے
اب مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں وہ پہلے جیسا مقداد نہیں رہا۔ (میری تواضع
والی کیفیت میں کمی آ گئی ہے) حضورؐ نے فرمایا واقعی امارت ایسی ہی چیز ہے۔
حضرت مقداد نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ آئندہ میں
کبھی بھی کسی کام کا ذمہ دار نہیں بنوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد لوگ ان سے کہا
کرتے تھے کہ آپ آگے تشریف لا کر ہمیں نماز پڑھا دیں تو یہ صاف انکار کر
دیتے(کیونکہ نماز میں امام بنناامارت صغریٰ ہے)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت مقداد ؓنے کہا مجھے سواری پر بٹھایا جاتا اور
سواری سے اتارا جاتا جس سے مجھے یوں نظرآنے لگا کہ مجھے ان لوگوں پر فضیلت
حاصل ہے۔ حضورؐ نے فرمایا امارت تو ایسی ہی چیز ہے(اب تمہیں اختیار ہے)چاہے
اس آئندہ قبول کرویا چھوڑ دو۔ حضرت مقدادؓ نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ
ؐکو حق دے کر بھیجا ہے! آئندہ میں کبھی دو آدمیوں کا بھی امیر نہیں بنوں
گا۔
حضرت مقداد بن اسودؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ مجھے کسی جگہ (امیر
بنا کر) بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو آپؐ نے مجھ سے فرمایا تم اپنے آپ کو
کیسا پاتے ہو؟ میں نے کہا آہستہ آہستہ میری کیفیت یہ ہو گئی کہ مجھے اپنے
تمام ساتھی اپنے خادم نظر آنے لگے اور اﷲ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی دو
آدمیوں کا بھی امیر نہیں بنوں گا۔
قارئین کوشش کرینگے کہ اشاروں کی زبان میں بات کرتے ہوئے جان کی امان پا کر
آج کچھ کہہ سکیں ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے
بعد سب سے بڑا کارنامہ اپنے تئیں تین میڈیکل کالجز اور چار یونیورسٹیوں کی
صورت میں انجام دیا ۔ناقدین چلاتے رہ گئے کہ یہ تمام ادارے ’’ سب سٹینڈر
ڈ‘‘ ہیں اور قوم کے ساتھ مذا ق کیا جا رہا ہے لیکن چوہدری عبدالمجید اور ان
کی کابینہ کے تمام ’’ بزرجمہوروں ‘‘نے چار سال یہی ڈفلی بجانا جاری رکھی کہ
ہم نے تعلیمی انقلاب برپا کر دیا ہے ۔سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے
تو راقم کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ یہ حکومت پولٹری
فارمز ‘‘ کی بلڈنگز میں یونیورسٹیاں بنا رہی ہے اور ’’ ڈسپنسریوں ‘‘ کو
میڈیکل کالج کا نام دے رہی ہے مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر
،ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق اپنے قائد سابق وزیراعظم راجہ حیدر
فاروق حیدر خان کی قیادت میں قانون ساز اسمبلی سے لے کر سڑکوں تک چوکوں
چوراہوں اور راقم کے ٹاک شوز میں کھل کر یہ کہتے رہے کہ مجاور حکومت
ترقیاتی منصوبوں کے پیسے اللوں تللوں اور میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کے
نام پر کرپشن کی نذر کر رہی ہے اس سب کے باوجود چوہدری عبدالمجید اپنی
مجاوری میں سرمست رہے اور ’’ کچن کابینہ ‘‘ ان کے سُر کے ساتھ اپنا سُر
ملاتی رہی اور محترمہ فریال تالپور کی قیادت میں قوم کی خدمت کے لیے نوڈیرو
،لاڑکانہ اور زرداری ہاؤس جا جا کر رہنمائی حاصل کرتی رہی ۔وہ وقت بھی آخر
کار آگیا کہ 2011کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے سربراہ سابق
وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے تنگ آ کر پیپلزپارٹی چھوڑ دی اور
تبدیلی کی آواز اور انقلاب کے داعی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو
جائن کر لیا بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 2011کے الیکشن سے پہلے اپنی پانچویں
انقلابی جماعت کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں اس امید پر شامل ہوئے تھے کہ
الیکشن جیتنے کی صورت میں انھیں صدر یا وزیراعظم کے طور پر قوم کی خدمت کا
موقع دیا جائے گا۔ لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو انھوں نے ’’علم بغاوت‘‘ بلند
کیا اور چوہدری عبدالمجید کی حکومت کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ
تنقید بنا لیا۔جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل ، خالق آباد روڈ سکینڈل ، ملبہ سیکنڈل
، مسٹ سکینڈل، ایم ڈی اے سکینڈل سے لے کر میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز سمیت
وزیرا عظم چوہدری عبدالمجید کی حکومت کے ہر ’’اچھے اور برے‘‘ کام کو انھوں
نے تنقید کی چھلنی سے گزارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی
قیادت سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور انھیں
مبینہ طور پر سرزنش بھی کرتے رہے اور آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد
کی ناکامی کے بعد بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے بارے میں نامناسب ریمارکس
بھی دیئے۔تحریک عدم اعتماد کی ناکامی دراصل اسلام آباد کے دو کشمیری صحافی
بھائیوں ، سینیٹر پرویز رشید اور چند دیگر عوامل کی وجہ سے اس انجام تک
پہنچی تھی ۔میاں محمد نواز شریف کی طرف سے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کو
’’سخت درشت‘‘ انداز میں بارہ اراکین قانون ساز اسمبلی کو ووٹنگ کے عمل میں
حصہ لینے سے روکنے کا حکم دیا گیا تھا جس کا خمیازہ مسلم لیگ ن آزادکشمیر
آج تک بھگت رہی ہے۔
قارئین!ایک طرف تو یہ تمام سیاسی طوفان چل رہے تھے اور ’’کشمیری قوم کی
امامت‘‘ کے لیے ہر اذان دینے والااپنے آپ کو سب سے بہترین امیدوار تصور کر
رہا تھا اور دوسری جانب چند انتہائی خطرناک نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے
تھے۔یہاں ہم یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ہم نے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کی طرف سے ایوان صحافت میرپور سے لے کر مختلف محفلوں میں ’’کوثر
وتسنیم ‘‘ سے دھلی ہوئی زبان استعمال کرنے کو ہمیشہ ہدف تنقید بنایااور
برملا اس کا اظہار کیا کہ ـ’’بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوا کرتا
ہے ‘‘ جب کہ ہمارے آزادکشمیر کے ’’بادشاہ‘‘ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
’’بلند فشار ِخون‘‘ کی وجہ سے اکثر اپنے دل ودماغ میں پیدا ہونے والے
’’پریشان خیالات ‘‘ کو زبان سے خارج کر کے اپنے منصب کی توہین کر بیٹھتے
ہیں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔اور بیوروکریسی ، وزراء ، عوام اور حتی کہ
صحافیوں سے لے کر خواتین تک کے سامنے ’’غیر پارلیمانی ‘‘ الفاظ اپنی زبان
پر نہیں لانے چاہئیں۔ہماری اس مثبت تنقید کو ہمارے ’’حاسدوں اور دوستوں‘‘
نے ہمیشہ نمک مرچ لگا کر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو یہ باور کرانے کی
کوشش کی کہ نعرہ مستانہ بلند کر کے ان کی اصلاح کی کوششیں کرنے والا انصار
نامہ کا مصنف یہ ’’خاکسار درویش‘‘ان کی بادشاہی اور وزارت عظمی کا سب سے
بڑا دشمن ہے۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے ہمارے ایک انتہائی قریبی مہربان
سے ہونے والی کشمیر ہاوس میں خصوصی ملاقات کے دوران غصے سے یہاں تک کہہ دیا
کہ ’’جنید انصاری بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے پے رولPay roleپر ہے اور
بیرسٹر سلطان سے پیسے کھاتا ہے اور میرے خلاف قلم ہلاتا ہے ‘‘ اس پر
انتہائی ذمہ دار عہدے پر براجمان ہمارے مہربان کی ہنسی چھوٹ گئی اور انھوں
نے ایک تفصیلی بریفنگ دینے کے بعد وزیراعظم چوہدری عبدالمجید پر یہ ثابت کر
دیا کہ ’’ جنید انصاری کسی سے پیسے نہیں کھاتا بلکہ اس کے نام پر پیسے
کھائے جاتے ہیں‘‘اس پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے ہم سے ناراضگی ختم کر
دی اور ریڈیو آزادکشمیر پر ہمیں تاریخی انٹرویو دیا ۔
قارئین! یہاں ہم آج وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ایک مرتبہ پھر مخاطب ہو
رہے ہیں ۔عوام کی سب سے بڑی تمنا دو سہولتیں ہوتی ہیں جنھیں صحت اور تعلیم
کہا جاتا ہے۔ ہم صرف صحت کے بارے میں بات کریں گے۔تین میڈیکل کالجز بننے کے
بعد اس بات کی امید تھی کہ میرپور ، مظفر آباد اور راولاکوٹ ڈویژنز میں کام
کرنے والے تین سرکاری میڈکل کالجز آزادکشمیر کے نظام صحت کو اپ گریڈ کریں
گے اور پروفیسرز اپنی خدمات سے وہ سروسز دیں گے جن کی وجہ سے غریب کشمیری
عوام کو اسلام آباد اور لاہور ریفر کرنے کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ بوجوہ
ایسانہ ہو سکا۔ماضی کے تمام ’’برے واقعات وحادثات‘‘ پر مٹی ڈالتے ہوئے ہم
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی طرف سے گذشتہ روز محترمہ بے نظیر بھٹو شہید
میڈیکل کالج میرپور میں کی جانے والی ’’درمندانہ پرنم تقریر‘‘ کو خراج
تحسین پیش کرتے ہیں ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے پرنسپل میڈیکل کالج
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید ، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بشیر چوہدری اور
میڈیکل کالج کی تمام فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اور میری
حکومت نے یہ تین میڈیکل کالجز غریب کشمیری عوام کا پیٹ کاٹ کر بنائے ہیں۔
ان میڈیکل کالجز کے پروفیسرز اور تمام سٹاف کو تنخواہیں ، تمام ترقیاتی
سکیمیں ختم کر کے ادا کی جا رہی ہیں اور اس سب کے بدلے میں مجھ سمیت پوری
کشمیری قوم کو یہ امید تھی کہ غریب انسان کو آپ سب ماہر ڈاکٹرز مفت صحت کی
سہولتیں فراہم کریں گے لیکن آپ لوگوں نے ایسانہیں کیا ۔ماضی میں جو ہوا سو
ہوا لیکن اب آج کے دن سے اگر کسی ڈاکٹرنے یا میڈیکل کالج کے کسی پروفیسر نے
اپنے فرائض منصبی درست طریقے سے ادا نہ کیے تو ان کا احتساب کیا جائے گا
جوا نتہائی کڑا ہو گا۔میں وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے کشمیری قوم کے حقوق کا
محافظ اور رکھوالا ہوں اور ہر کشمیری کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ مجھ سے اپنے
حقوق کے متعلق سوال کرے۔میں عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوں اور آپ لو گ بھی
عوام کی عدالت میں جواب دینے کے پابند ہیں۔ میڈیکل کالجز کے تمام فیکلٹی
ممبران کو میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں اپنے فرائض ادا
کرنا شروع کر دیں بصورت دیگر انجام خود سوچ لیں‘‘۔
قارئین ! ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے اس موقف اور گفتگو کو ایم ایس ڈی
ایچ کیو ہسپتال ڈاکٹر بشیر چوہدری کی زبانی آپ تک پہنچا رہے ہیں۔یہ تمام
داستان ابھی کچھ دیر قبل انھوں نے ہمیں سنائی کیوں کہ ہم نجی مصروفیت کی
وجہ سے لاہور گئے ہوئے تھے جب یہ تقریب ہو رہی تھی ۔اگر وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید نے واقعی نیک نیتی کے ساتھ یہ باتیں کی ہیں تو ہم انھیں اپنے
دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام بھی پیش کرتے ہیں اور سلام پیش کرنے کے بعد انھی
دونوں ہاتھوں کو دست دعا بنا کر اﷲ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اﷲ پاک میڈکل
کالجز کے فیکلٹی ممبران اور تمام ڈاکٹرز کو نیک نیتی کے ساتھ غریب کشمیری
قوم کے درد کا درماں کرنے کی توفیق دے۔ آمین
بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں کہ
وہ فراق اور وہ وصال کہاں؟
وہ شب وروز وماہ وسال کہاں؟
فرصتِ کاروبار ِ شوق کسے
ذوقِ نظارہِ جمال کہاں؟
دل تو دل ، وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خط وخال کہاں؟
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں؟
ایسا آساں نہیں، لہو رونا!
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں؟
ہم سے چھوٹا قمار خانہ عشق
واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں؟
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں؟
مضمحل ہو گئے قویٰ ، غالب!
وہ عناصر میں اعتدال کہاں؟
قارئین ! پرنسپل میڈیکل کالج پروفیسر میاں عبدالرشید تجربہ کار پروفیشنل
ہیں، ایم ایس ڈاکٹر بشیر چوہدری بھی سرد گرم چشیدہ ہیں اور تمام فیکلٹی
ممبران بھی تجربوں کی بھٹیوں سے گزر گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ۔اﷲ کرے یہ
تمام لوگ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی تقریر کے مطابق عملی طور پر کچھ کر
سکیں۔آمین
آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک عورت نے دوسری عورت سے پوچھا ’’آپ نے اپنے بچے کی انگوٹھا چوسنے کی
عادت کیسے دور کی‘‘
دوسری عورت نے اطمینان سے جواب دیا
’’بڑی آسانی سے ، میں نے اس کی نیکر کا الاسٹک ڈھیلا کر دیا اب وہ ہر وقت
انگوٹھا بھول کر نیکر کو پکڑے رکھتا ہے۔‘‘
قارئین ! غریب کشمیری عوام اگر اپنے پاؤں ڈھانپتی ہے تو سر ننگا ہو جاتا ہے
اور اگر سر پر چادر لے تو پیر بے پردہ ہوجاتے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ غریب کی
آہ سے ڈرتے ہوئے ہر کوئی اپنے اپنے فرائض ادا کرے گا۔ |