سترہ کروڑ پاکستانیوں کا جواب

ذاکر مدّت سے میرا یار ہے۔ فقیر آدمی ہے اور فقیر اپنی جگہ پہ بیٹھا ہو تو بادشاہ ہوتا ہے اور بادشاہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو فقیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی فقیر ہے لہٰذا اپنی جگہ سے کم ہی ہلتا ہے۔ لیکن جب کبھی اس کی سواری اپنے ڈیرے سے نکل پڑے تو پھر غریب خانے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ذاکر ٹھنڈا میٹھا آدمی ہے۔ اسے خدا اور خدا کی خدائی سے پیار ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس دنیا کی ہر ہر شے میں مالک کا ظہور ہے، اس لئے وہ ہر شے سے پیار کرتا ہے۔ وہ بس محبت ہی محبت ہے، پیار ہی پیار۔ مشکل سے مشکل حالات میں جب کبھی میں کسی بات پر غصّے سے پھٹ رہا ہوتا ہوں، وہ آ جائے تو ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ اس لئے کہ اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اور مجھے کبھی کبھی اس بات پر بھی غصہ آتا ہے کہ اسے غصہ کیوں نہیں آتا۔ اب کی بار وہ بڑی دیر کے بعد آیا تھا اور چونکہ بڑی دیر کے بعد آیا تھا، اس لئے اسے دیکھتے ہی میں نے اس کی خدمت میں فوراً عرض کیا
آج کی شام وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
اور آج کی شام بڑی دیر کے بعد آئی ہے

خیال تھا کہ خوب چہچہائے گا اور میری پچھلے بہت سارے دنوں کی کوفت اور وحشت دور ہو جائیگی۔ باتیں شروع ہوئیں تو میں نے دیکھا کہ وہ کچھ بجھا بجھا سا ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا، بھائی !ایک بات تو بتاﺅ۔ میں نے کہا ہاں پوچھو۔ اس میں اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگا "تمہیں ہندوﺅں یا طالبان میں سے کسی ایک کی غلامی کرنا پڑے تو کس کی غلامی کرنا پسند کرو گے؟"۔ میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا یہ کیا سوال ہے۔ میں خدانخواستہ ہندوں کی یا طالبان کی غلامی کیوں کرنے لگا میں تو دونوں ہی پر برابر لعنت بھیجتا ہوں۔ دونوں ہی ظلم اور بربرّیت کا نشان ہیں۔

ہندو کے خبثِ باطن سے تو میری روح تک آگاہ ہے۔ ہندو جب تک ہماری رعایا رہا تو کبھی مشیر بن کر اور کبھی اپنی بہو بیٹیوں کے ذریعے ہماری جڑیں کھوکھلی کرتا رہا۔ ہندو نے ہمیشہ ہمارے اور ہمارے بزرگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ "بغل میں چھری اور منہ میں رام رام "انہی کا تو جنم جنم کا وطیرہ رہا ہے ۔ ہندو جب تک ہمارے ساتھ رہنے پر مجبور تھا ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر صفحہِ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتا رہا اور جب ہمارے بزرگوں نے انگریزوں اور ہندوﺅں دونوں سے بیک وقت نجات حاصل کر لی تو ان کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ وہ تو ہم سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ جب ہمارے اللہ کریم نے ان کے منصوبے انہی پر لوٹا دیئے تو مجبوراً انہوں نے یہ کڑوی گولی نگل لی۔ لیکن انہوں نے ہمیں بحیثیتِ آزاد قوم، کبھی دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے اسی جذبے کی تسکین کے لئے ہم سے چار جنگیں لڑیں۔ کشمیر میں تو کیا پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا سلوک مسلمانوں کے بارے میں ان کے بغض اور عناد کا غماز ہے۔

دوسری طرف طالبان ہیں۔ کہنے کو تو وہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کے داعی ہیں۔ بظاہر" اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام "ان کا نعرہ ہے۔ جس سے متاثر ہو کر بے حساب سادہ لوح مسلمان ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ بھی "ہر شے در کانِ نمک رفت نمک شد"کی صورت ان کی غارت گر کاروائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ طالبان دراصل اسلام پسند نہیں وحشت اور دہشت پسند قبائلی ہیں جو ایک طرف ملک دشمنوں سے قیمت وصول کر کے اپنے ہی ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ظالمانہ قبائلی روایات کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا اسلام اللہ نبی اور کتاب اللہ کا اسلام نہیں ان کی من مرضی کا اسلام ہے۔ یعنی بقول شخصے
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس کے بارے میں خود خدائے لم یزل نے کہہ رکھا ہے کہ "آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تم سے دین ِاسلام پر راضی ہو گیا"سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے جب کہ یہ ظالم بچیوں کے سکولوں کو آگ لگانے ہی کو عینِ اسلام سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں اسلام کے اس آفاقی اور عالمگیر پیغام کی کوئی حیثیت نہیں کہ"اسلام میں کوئی جبر نہیں"اسلام تو جنگ میں بھی امن کا پیغام دیتا ہے۔ بچوں بوڑھوں عورتوں اور نہتّے لوگوں کو امان دیتا ہے۔ جبکہ ان کا برانڈڈ اسلام تو نافذ ہی عورتوں اور بچوں پر ہوتا ہے۔ اسلام جنگ کے دوران غیر مسلموں کی لاشوں کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دیتا یہ مسلمانوں ہی کی لاشوں کا مثلہ بناتے ہیں اور ان کے ناک اور کان کاٹ ڈالتے ہیں۔ حتّی کہ یہ قبر سے بھی مردے نکال کر انہیں چوراہوں پر لٹکانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق جس کسی نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔ جب کہ یہ لوگ بستیوں اور شہروں میں گھس کر خود بھی جہنم رسید ہوتے ہیں بلکہ سینکڑوں معصوم جانوں کے قتل کا سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا میں ان دونوں گروہوں سے برات کا اظہار کرتا ہوں اور ان سے اپنے ربِ کریم کی پناہ مانگتا ہوں

لالہ میری اس تقریر سے کچھ پریشان ہو گیا اور میرا منہ تکنے لگا۔ میں نے تسلّی دی اور کہا لیکن یہ تو بتا میری جان! تو اتنا پریشان کیوں ہے ؟ اور یہ سوال تجھے سوجھا کیسے؟ کہنے لگا بھائی پچھلے دنوں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ امریکی صدر کا ایلچی رچرڈ ہالبروک اور ایڈمرل مائیک مولن جب پاکستان میں تھے تو آپ نے انکی جھنجھلاہٹ اور غصہ دیکھا تھا۔ ان کی پریس کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ، رعونت عروج پر تھی۔ میں نے یہ بھی سنا کہ ہالبروک اور مولن دونوں پاکستان کے دورے کے دوران ہمارے حکمرانوں سے یہ کہتے رہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی طالبان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور ان کی کارکردگی وہ نہیں جس کی ان سے توقع کیجاتی ہے۔ وہ ہم سے ہر دفعہ Do more ،Do more کا تقاضہ کرتے ہیں۔

بھائی!ہم اس لا حاصل جنگ میں اپنے ہزاروں فوجی قربان کر چکے ہیں، لاتعداد لاشے اٹھا چکے ہیں اور اربوں روپے کی املاک تباہ کروا چکے ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی قابل اعتماد نہیں۔ ہم پھر بھی کچھ نہیں کر رہے۔ لیکن یہی لوگ جب دلیّ میں اترتے ہیں تو انکا لہجہ بدل جاتا ہے۔ ان کی رعونت بھی مکمل طور پر ملائمت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور وہاں کے صحافیوں کے سامنے وہ سارے بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے بارے میں اپنی معاندانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں اور آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت خطے کا سربراہ ہے، یہ علاقے کا ذمہ دار ملک ہے، اسکا قائدانہ کردار ہے۔ ہم بھارت سے کوئی درخواست کرنے نہیں آئے بلکہ ہم نے پاکستان کو جو "تڑیاں" لگائی ہیں ان سے بھارت کو مطلّع کرنے آئے ہیں۔

بھائی! اگر اب بھارت نے ہی خطے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے تو پھر میں نے تو سوچ لیا ہے کہ بھارت کی بجائے میں طالبان کے ہاتھوں قتل ہونا زیادہ پسند کروں گا۔ نام کا ہی سہی وہ کلمہ تو پڑھتے ہیں۔ ان کی کم از کم شکل تو ہمارے جیسی ہے۔ میں تو ہندو کے خلاف لڑونگا، طالبان کے خلاف نہیں۔ میں شاید طالبان کو اب بھی قائل کر لوں۔ میں شاید انہیں دین مذہب اور ملت کا واسطہ دے کر منا لوں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ شاید وہ واقعی غلطی پر ہوں اور انہیں اسکی سمجھ نہ ہو۔ شاید انہیں کوئی ورغلا کر یا لالچ دے کر دین اور ملک کے خلاف استعمال کر رہا ہو۔ لیکن بھائی ! مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ یہ میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے، میں ہندو کی سربراہی میں اور ہندو کے ساتھ ملکر ہرگز نہیں لڑوں گا۔ اس لیے کہ میں ایک ہی سوراخ سے دوبارہ ڈسا جانا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ میں اسکی باتیں سن کر کانپ گیا میں نے بساط بھر اسے حوصلہ تو دیا اور سمجھانے کی ناکام کوشش بھی کی لیکن لگتا تھا کہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے اور اسے میری باتوں سے، جنہیں وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے، سن کر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس دن زندگی میں پہلی دفعہ میں نے اسے مایوس اور اداس دیکھا۔

جب وہ چلا گیا تو اچانک میرے ذہن میں بھی وہی سوال بجلی گرانے لگا۔"اگر تمہیں ہندو یا طالبان میں سے کسی ایک کی غلامی پر مجبور کر دیا جائے تو؟" میں نے اِس سوال کو ذہن سے جھٹکنے کی بہت کوشش کی۔ میں نے سوچا کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارے پاس خطے کی بہترین فوج ہے۔ ملک میں آزاد عدلیہ کی موجودگی اور بدلتے سیاسی کلچر کو بھی دلیل کے طور پر اپنے ذہن کے آگے پیش کیا۔ سوات اور وزیرستان میں پاک فوج کی بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں بہتری کی طرف مائل امن و امان کی صورتِ حال کی دلیل بھی دی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ،سوال اپنی جگہ موجود رہا نہ صرف موجود رہا بلکہ اس نے میرے حواس بھی مختل کر دیئے۔ اور میرے سوچتے سمجھنے کی صلاحیت جیسے سلب ہو کر رہ گئی۔ آخر میں مجھے بھی مجبوراً اسکا جواب دیتے ہی بنی۔

اگر مجھے ہندواور طالبان کی غلامی میں سے کسی ایک کا اختیار دیا جائے تو میں لامحالہ طالبان کے ساتھ جانا پسند کرونگا۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ اپنا مارتا ہے تو مار کر چھاﺅں میں ڈال دیتا ہے۔ طالبان بہت برے ہیں اس میں شک نہیں لیکن ہندو سے برے نہیں۔ لہٰذا خدارا! مسٹر ہالبروک اینڈ کمپنی ! یہ سترہ کروڑ پاکستانیوں کا جواب ہے آپ شوق سے ہندو کو علاقے کا تھانیدار بنائیے لیکن یہ ضرور ذہن میں رکھیئے کہ اگر افغانستان کے کہساروں سے اٹھنے والی گھٹاﺅں کو پاکستان کا موسم راس آگیا تو پھر یہ گھٹائیں کہیں وسطی ہندوستان میں ہی جا کر برسیں گی اور مسٹر اوبامہ! آپ کا چہیتا تھانیدار تو گرم ہوا برداشت نہیں کر سکتا۔ ان امڈتی لہو رنگ گھٹاﺅں کا مقابلہ کیا خاک کرے گا۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291762 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More