دیکھ کر چل وہاں بھی لاش ہے،
ارے پیر تو مت رکھ مردے پر، بیچارے کو تکلیف ہوگی اُسے،
اب نہیں ہوتی تکلیف اَسے جتنی ہونی تھی ہوگئی اور مر گیا،
تُو تو ایسے بات کررہا ہے جیسے تجھے مرنا ہی نہیں۔ خدا کا خوف کر ایک مردہ
ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور باقی زمین پر پڑے ہیں۔ سارے اسٹریچر بھر چکے
ہیں۔ اب اس کی جگہ بنا، کہاں رکھنا ہے اِسے۔ ابھی تو اور بھی میتیں آئیں گی۔
تجھے یقین ہے کہ اور بھی آئیں گی۔ اور مریں گے؟ اب تو مردہ خانے والوں نے
بھی منع کر دیا ہے کہ یہاں جگہ نہیں کہیں اور لے کے جاؤ مردوں کو، یہاں تو
برف کی سلیں بھی کم پڑگئی ہیں۔ کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ لاشوں میں سے بدبو
آنے لگی ہے۔ ساری ہی لاوارث ہیں یا شاید اب سلسلہ شروع ہوگا ورثہ کے آنے کا،
جو لے کر جائیں گے لیکن وہ جو شہر میں دوسرے شہروں سے کام کرنے آئے تھے وہ
تو سارے کے سارے لاوارث لاشوں کے قبرستان میں دفن ہوجائیں گے۔ ان کے پیاروں
کو تو پتا ہی نہیں ہوگا کہ ان کا بندہ مرگیا ہے۔
ہائے مولا کیا زمانہ آگیا ہے قیامت ہے قیامت․․․․․
یہ منظرکشی نہ برما کی ہے نہ غزہ کی اور نہ ہی شام اور یمن کی۔ یہ احوال ہے
پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کراچی کا۔ حیران ہونے کی ضرورت ہے
نہ ہی افسوس کرتے ہوئے رحم بھری آہ کرنے کی، کہ کراچی میں موسم کی شدید
ناگہانی آفت نے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 625 لوگوں کو نگل لیا اور
غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زائد سے زیادہ جانیں ضائع ہوگئیں۔
حکام بالا موسم کو قصور وار ٹھہرا کر آرام سے یہاں وہاں ہولیے، جن کے
پیاروں کے جنازے اٹھے ہیں وہی جان سکتے ہیں غم کی شدت کیا ہوتی ہے یا وہ
لوگ جو اب بھی شہر کے مردہ خانوں کے رجسٹر میں مردہ افراد کی تصویروں میں
اپنے کسی، بہت اپنے، بہت پیارے کا عکس دیکھ رہے ہوں گے اور تلاش کی شدید
ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں گے۔ اور ہاں ان میں وہ معصوم لوگ بھی ہیں جو اپنے
گھر والوں کا پیٹ بھرنے روزی کی تلاش میں کراچی آئے تھے۔ کتنے بدنصیب ہیں
وہ لوگ کہ شہر امان نے انھیں امان نہیں دی۔ کسی کی پیاری گڑیا اب بھی اپنے
بابا کے شہر سے لوٹنے کا انتظار کر رہی ہوگی کہ بابا عید پر نئے کپڑے لے کر
آئے گا۔ وہ پاگل تو جانتی ہی نہیں کہ محنت مزدوری کرنے والا اس کا بابا
کراچی کے کسی مردہ خانے میں لاوارث لاشوں کے ساتھ اپنی گڑیا کے ارمانوں کو
لے کر ہمیشہ کے لیے سوگیا ہے۔
موسم تو ہمیشہ عام آدمی کو متاثر کرتا ہے۔ ہر آفت کے نتیجے میں ہونے والے
جانی نقصان کو فقط یہ کہہ کر ٹال دینا کہ یہ تو خدا کی طرف سے تھا سراسر
ظلم ہے۔ خداظالم نہیں۔ ظالم تو وہ لوگ ہیں جو اقتدار کا مزہ لوٹ رہے ہیں
مگر انھیں عوام کے مصائب اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں، یخ بستہ کمروں میں
میٹنگز کرنے والے فقط ایک دفعہ اس گرمی میں اپنا اے سی آف کردیں تو ان کا
بی پی شوٹ کر جاتا ہے۔ یہاں تو عوام گھنٹوں بجلی کے بنا رہنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف پانی ہے کہ شہر قائد کے باسیوں کے لیے نایاب کر دیا گیا ہے۔ تو
ایسے میں زندگی کیوں کر میسر آتی۔ یہ بجلی اور پانی کا نہ ہونا بھی کیا کسی
قدرتی آفت کا نتیجہ ہے؟ تو پھر یہ اموات بھی محض موسم کا سبب نہیں کہی
جاسکتیں، لیکن انھیں بہت آرام سے موسم کا ستم کہہ کر ٹال دیا گیا۔ ماہ
رمضان میں اچھے اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کے دسترخوان مہنگائی کی وجہ سے
محدود ہوگئے ہیں۔ تو ذرا سوچیے وہ لوگ جو مشکل سے گزارا کرتے تھے ان کا کیا
حال ہوا ہوگا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ لوگ گھر سے نہ نکلیں، موسم خراب ہے۔ ارے
حکمرانوں! عام آدمی گھر سے مزدوری کرنے نہیں نکلے گا تو کھائے گا کیا۔ کسی
نے ایک دفعہ بھی یہاں اعلان کیا کہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں چند دنوں کے
لیے مخصوص مقامات پر کم کردی گئی ہیں تاکہ اگر کوئی شخص اپنی ٖ ضرورت پوری
نہیں کر پا رہا تو وہاں جا کر خریداری کر سکے۔ لیکن نہیں اس شدید گرمی میں
بھی وہ عام آدمی فکر روزگار کے لیے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے در بدر
کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ ہر ادارہ ہر جگہ بے دردی سے مزدوروں کے حقوق
کا استحصال ہو رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ موسم کی سختی کے باعث جانیں ضایع
ہوئیں۔ افسوس صد افسوس۔
چلیے مزدور تو سڑکوں پر میدانوں میں کھلے آسمان تلے جلتے سورج کا سامنا کر
رہے تھے، لیکن کتنے ہی بچے گھروں میں بجلی نہ ہونے کے باعث چل بسے، لیکن یہ
تو موسم کا ستم ہے ناں!
گھر میں پانی بھرتے بھرتے خاتونِ خانہ چل بسیں، لیکن یہ تو موسم کا ستم ہے
ناں!
ڈیوٹی آورز شدید گرمی میں بھی کم نہ کیے گیے اور ایک جوان لڑکا آفس سے
واپسی پر مرگیا، لیکن یہ تو موسم کا ستم ہے نا!
مزدور اپنی کدال زمین پر مارتے مارے وہیں بھر ڈھیر ہوگیا، کوئی نہیں تھا جو
اس گرمی میں اسے کام کرنے سے روک دیتا، لیکن یہ تو موسم کا ستم ہے ناں!
بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے باعث شہر بھر میں
شدید ٹریفک جام ہے، چناں چہ ایک بزرگ کار چلاتے چلاتے اﷲ کو پیارے ہوگئے،
یہ تو موسم کا ستم ہے ناں!
کراچی میں گاڑیاں زیادہ ہوگئیں، ان کے دھوئیں نے فضا کو مزید آلودہ کردیا،
اور درخت کم ہوگئے، لہٰذا گرمی اور بڑھ گئی، لیکن اس سب میں کسی کا کیا
قصور، یہ تو موسم کیا ستم ہے بس!
بارش ہو، سیلاب، آندھی ہو یا زلزلہ، کوئی بھی قدرتی آفت ہو، ہمارے ملک کا
عام آدمی اور غریب ان آفات کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں، لیکن اس کی وجہ یہ
نہیں کہ وہ ان آفات سے بچ نہیں سکتے تھے، نہیں صاحب! ایسا بالکل نہیں، ان
کی زندگی کو اتنی حیثیت دی ہی نہیں جاتی کہ اس بچانے کی تدابیر کی جائیں،
یہاں حکم راں جانتے ہیں کہ قدرتی اور موسم کے ستم کی ذمے داری قرار دے کر
وہ صاف بچ جائیں گے۔ یہی کچھ کراچی میں بھی ہوا ہے، پانی ناپید اور بجلی
غائب کرکے جیسے آسمان سے برستی گرمی کو پیغام دے دیا گیا تھا کہ آؤ اور اس
شہر کو جہنم بنادو۔
ہمیں آج لاشیں نظر آرہی ہیں، اپنے پیاروں کے روتے لوگ نظر آرہے ہیں، بجلی
کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے لوگ نظر آرہے ہیں، اس صورت حال سے زندگی
مزید اجیرن بناتے حالات نظر آرہے ہیں، مگر بس وہ نظر نہیں آرہے جنھیں اس
صورت حال میں نظر آنا چاہیے، کہاں ہے حکم راں، کہاں ہے شہری انتظامیہ کیا
اتنے بڑے شہر کے عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے؟ کچھ نہ کریں بس اس حقیقت
کا اعتراف کرلیں، تاکہ عوام کو صبر آجائے کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں
آئے گا۔ |