لوڈشیڈنگ یا قتلِ عام؟؟
(Sami Ullah Khan, Mianwali)
آہ!بے حسی کی حد ہوگئی‘رمضان کے
مبارک مہینے میں 842انسان چل بسے اورابھی تک لفظوں کی جنگ جاری ہے ۔میتوں
کیلئے بعض مقامات پر پانی دستیاب نہیں ۔آج کے بشر نما جاندارکادائرہِ
انسانیت کبھی مذہب تک محفوظ ہوتاہے کبھی فقہ ومسلک تک‘مگران سیاسی گماشتوں
کا نہ توکوئی مذہب ہوتاہے نہ لسانی ‘علاقائی محبت کا سمبندھ‘یہ تو بس ایشوز
پرسیاست کرتے ہیں‘ہرپانچ سال بعدتگڑی پارٹی تلاش کرتے ہیں اورپھر وزیر
شذیرکاعہدہ تراش خراش کے وطن کے وسیع ترمفادمیں ذاتی خزانے کوبڑھاتے رہتے
ہیں۔ان کے علاوہ کچھ ایسے تیرانداز ہیں جو کوچہ سیاست کو تو اکبرکا’’شیطان
آباد‘‘تصورکرتے ہیں لیکن کسی ماہر’’بیربل ‘‘کی طرح اس کوچے سے اپناکام
نکالنے کابندوبست ایسی چابک دستی سے کرتے ہیں کہ کسی ’’میرسامان‘‘کسی
’’مرزادلداربیگ کو خبرتک نہیں ہوتی اوررہاشہنشاہ اکبرتووہ اس لیئے اس کے
انسانیت کش جرائم اورروحانی وارداتوں سے چشم پوشی کرتاہے کیونکہ ’’بیربل
‘‘نے اس کا ’’دین الہی‘‘قبول کرلیاہوتاہے۔
سچ پوچھیئے تو شاید پہلا کالم ہے جسے لکھتے ہوئے ہاتھ رک رہے ہیں ‘الفاظ
تلاش کررہاہوں کہ کیسے اس دردناک صورتحال کوبیان کروں جس کادشنام میری ارضِ
پاک کے سیاستدان کسی گھریلوجھگڑالو عورت کی مانند ایک دوسرے کے سردھر رہے
ہیں ۔مانا کہ جمہوریت کے ثمرات یا پائیدارتبدیلی کسی دھرنے کسی نعرے یااڑن
کھٹولے کے ذریعے نہیں آتی پرجس بات کوبنیاد بنا کر بنوعباس نے بنوامیہ کو
روندا‘آج وہی صورتحال پھر درپیش ہے۔عباس السفاح کو حُبِ اہل بیعت نہیں بس
اقتدارکی ہوس ہے۔عوام کومعلوم ہوچکاکہ کوئی پائیدار حل کی خاطر یاان کی
دستگیری کرنے نہیں بلکہ اپنے غم غلط کرنے آتاہے‘اگرچہ یہ عوام کی غلط فہمی
ہے ۔۔۔۔سیکھنے والے ایک ذراسے واقعے سے سیکھ جاتے ہیں مگراپنے آپ
کوگراکرسوچنالوہے کے چنے چباناہے۔کوئی جاکردیکھے تومعلوم ہو کہ کس قدرپیسہ
تحصیل گجرخان کی بستیوں کی ترقی میں اُنڈیلاگیا‘لٹایاگیا‘بہایاگیامگرعوام
کواندھیروں کاتحفہ دینے والے کسی بھٹکے ہوئے مسافرکی طرح الیکشن کے بعد
اپنے آپ کوکوستے رہے ۔عوام اس قدر توسنبھل چکے کہ قومی ایشوز اورکارکردگی
پر کچھ نہ کچھ جواب ضروردیتے ہیں۔ہم سوچ رہے ہیں کہ لفظوں کی جنگ میں
’’پاکستان کھپے‘‘کانعرہ لگانے والی ہستی کیوں شکستہ حال نظرآئی ؟کیاپاکستان
کھپے کا نعرہ حب الوطنی کی نشانی نہیں تھا؟کیاسندھی جب محترمہ کی قبرپر’’نہ
کھپے نہ کھپے ‘‘کاجواب دے کرجب خاموش ہوگیاتوکیایہ کسی کی زبان کی تاثیرنہ
تھی؟ہم سمجھتے ہیں ‘عوام سمجھتی ہے مگر یہاں بھی وہی کچھ ہورہاہے جوجنگ
پلاسی میں سراج الدولہ کے ساتھ ’’میرجعفر‘‘کرتارہا۔جب تک سیاسی جماعتیں
اپنے اندرسے اقتدارکی ہوس میں کنوئیں کے لوٹے کی مانند گھومنے والے ’’میرجعفروں‘‘
اور نودولتیؤں کونہیں نکالتیں اسوقت تک یہ جنگ پلاسی ہارتی رہیں گی
اورکراچی سے لیکرخیبر تک عوام امن کوترستے رہیں گے۔ اکادکابرسرِ وفاق لوگ
بھی لفظوں کی جنگ میں شہداکے وارث ایسے بشرکے خلاف کھڑے ہوگئے جوملک کو امن
کا گہوارہ بناناچاہتاہے ۔جماعتوں کو اپنے اندر سے قابل افراد کو
اوپرلاناہوگالیکن جوزمین ٹیپوسلطان اورجھانسی کی رانی کویادنہیں کرتی وہ
ایسے لوگوں کوپارٹی میں کیونکرمقام دے گی ؟یہاں توباغی ‘داغی کہلاتے ہیں
اورداغی لوگ باغی کہلاتے ہیں ۔
جس ملک میں وقت کے حکمران مافیاز کوکنڑول نہ کرسکیں ‘جس ملک میں درویشوں کی
متاع لُٹ جائے وہاں کس سے اُمید کی جائے ؟لوڈشیڈنگ کی سب سے بڑی وجہ مہنگے
ذرائع سے بجلی کاحصول ہے۔پانی سے بجلی پیداکرنے کی قوت حکمران اسلیئے نہیں
رکھتے کہ نجی پاورپلانٹس کے مالکان جنھیں آئی پی پیز کہاجاتاہے بڑے
اثرورسوخ رکھتے ہیں۔سستی بجلی پیدانہیں ہوتی اورحکومت تیل سے پیداہونے والی
مہنگی بجلی کی قیمت نجی پاورپلانٹس کو دینے کی سکت نہیں رکھتی کیونکہ ماشااﷲ
اخراجات ہی کافی ہیں ۔حیرت نہیں ہے کہ دنیامیں حکمرانی کاتصوراس لیئے قائم
ہواکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے کسی کو مقررکیاجائے‘بس پھرکیاہوا کہ
نظام کوئی بھی قائم ہواچاہے جمہور ہو‘فاشزم ہویافلاں فلاں عوام حقوق کیلئے
ترستے رہے اوران کے پیسے پران ہی کی جانب سے کھڑاکیاگیاچوکیداران کے حقوق
کاسب سے بڑاراہزن بن گیا۔آج کراچی وسندھ کے وہ لوگ جن کو ممبران اسمبلی
یاحقوق کاچوکیداربناکرعوام نے اسمبلی میں بھیجا‘یاجوعوام کے ٹیکس سے تنخواہ
لے کر سرکاری ملازم کہلاتاہے کم وبیش سب ہی اس کے حقوق پرڈاکہ ڈال رہے
ہیں۔کوئی پانی کی ترسیل میں رکاوٹ پیداکرکے نوٹ کمارہاہے توکوئی بجلی کی
سرکاری کمپنی کونجی ملکیت میں دینے کامجرم ہے؟کوئی لینڈمافیامیں ملوث
ہوکرٹارگٹ کلنگ کروارہاہے توکوئی فیکرٹریوں کوبھتہ نہ دینے کے جرم میں آگ
لگاکرپاکستانی سرمائے کوبیرون ملک منتقل کرنے کاباعث بن رہاہے۔
یہ وقت ہے کہ سیاست دان سوچیں کہ آخرکیوں ان کی سیاسی حقیقت کوتسلیم کرنے
کے باوجود عوام اپنے سپہ سالار کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکرکھڑے ہیں ؟آخرکیوں
ان کوووٹ دینے والے احتجاج کرتے ہیں؟وجہ روزِروشن کی مانندعیاں ہے کہ انھوں
نے مسائل کی تسلی بخش مرمت کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیابلکہ گلی کوچوں
میں پھرنے والے انسانیت کے مجرموں سے بلیک میل ہوتے رہے جبکہ عوام کااعتماد
فوج پربڑھتاچلاگیا۔آج آرمی نے اپنے اندرہی سے احتساب کاآغاز کردیاہے ۔کیاسیاستدان
اپنی جماعتوں میں ایساکرناپسندکریں گے؟۔آج اگرکراچی میں پی پی پی ومتحدہ کی
کارکردگی سوالیہ نشان بن رہی ہے تو کل کلاں یہی صورتحال پنجاب
وخیبرپختوانخواہ میں بھی دوبارہ سراُٹھاسکتی ہے۔
لوڈشیڈنگ ایساازدھاہے کہ یہ اس پارٹی کونگل گیاجسے ڈنڈے کے زورپرحکومت کرنے
والے نہ نگل سکے۔کراچی کے لوگ ماہ ِ صیام میں کسی ڈرون سے نہیں ‘کسی خود کش
دھماکے سے نہیں ‘کسی ٹارگٹ کلنگ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی کوتاہیوں
‘لاپرواہیوں اورخرمستیوں سے اس دنیاسے رخصت ہوئے۔حدیہ ہے کہ منگوپیرلیپروسی
ہسپتال جہاں جذام یعنی کوڑھ جیسے موذی مرض کاعلاج کیاجاتاہے یاجناح
وارڈکاکینسروارڈ سب ہی لوڈشیڈنگ سے متاثرہیں ۔صحت کی سہولیات اوربروقت علاج
معالجہ کی شکایات کاانبارہے ۔حکومت نے کوئی گرمی سے بچاؤکی آگاہی مہم نہیں
چلائی ۔سرکاری اعدادوشمارکے مطابق جناح ہسپتال میں 280‘سول 111‘عباسی شہید
ہسپتال 94‘لیاری جنرل ہسپتال 94‘بڑے نجی اسپتال 101‘دیگرسرکاری ونجی طبی
ادارے 55جبکہ مجموعی طور پر659افراد کی موت کی سرکاری تصدیق ہوچکی ہے۔
تھرمیں معصوموں کی ہلاکت ہویاحبس‘غیرمعیاری طبی سہولیات ‘لوڈشیڈنگ اورپانی
کی قلت سے مرنے والے افرادکیاان کے لیئے کوئی قانون سازی نہیں ہوگی کوئی
بائیسویں یاتیئسویں ترمیم جنم نہیں لے گی؟کیاان کے قتل کا مقدمہ درج نہیں
ہوگا؟رینی میڈ کا میدان منتظر ہے کہ کیاکسی میگناکارٹاپرکوئی کنگ جان دستخط
کرے گا؟کیا سب اداروں کو درست کرنے کیلئے عوام افواجِ پاکستان کی طرف
دیکھیں گے ؟۔کیاسرکاری محکموں کودرست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو
کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردیاجائے؟کیاخیبرسے لے کر کراچی تک کسی وزیر شذیرمیں
اتنی اہلیت نہیں کہ سرکاری ملازموں کوراہ ِ راست پر لاسکے؟کیاترقی یافتہ
ممالک میں جب کوئی محکمہ عوام کو سہولت دینے میں ناکام ہوجائے تو اس کے
سیاسی سربراہ اپنے عہدے سے استعفی دیتے ہوئے قوم سے معذرت نہیں کرتے ؟ ۔اپوزیشن
اور مرکز کو چاہیے کہ شیم شیم کے نعرے بلند کرنے کے بجائے سرجوڑ کربیٹھیں
اورپائیدار اورباوقارحل نکالیں۔سوچیئے اس سے پہلے کہ خیمہ ہی کسی
اورکاہوجائے- |
|