یوگا کبڈی کے نام سے مشہور ایک
فیشن شو دنیائے عوام کو دیکھنے کو اس لئے ملا کہ اس کو عالمی سطح پردکھایا
گیا اور منایا گیا، ہمارے ملک کی ایک سیاسی جماعت بھاجپا اس یوگا کبڈی کے
کھیل کا شور بڑے زور سے مچا رہی ہے، اس کھیل کو سرکاری اسکولوں میں شریک
کرنے کو لازمی بنا رہی ہے، اس کھیل کے ذریعہ انسانی صحت کے فوائد بتارہی ہے،
یوگا کبڈی سے یقینا کچھ لوگوں کو راحت ملتی ہے، دنیا میں بہت سارے کھیل ہیں،
اب ایک نیا کھیل یوگا کبڈی کو اتنا منظر عام پر لایا گیاکہ اس کو عالمی
درجہ دلایا گیا، یوگا کبڈی کے کھیل کے اصل مفہوم کو ابھی تک سمجھنے کی
ایماندارنہ کوشش ہی نہیں کی گئی، یہ کھیل کالا دھن رکھنے والے بوڑھے ،خواتین
وحضرات صبح کے وقت کھیلتے ہیں، کالے دھن سے لوگوں میں شدید طور پر گیس کی
شکایت پید اہوجاتی ہے، اس گیس کو جسم سے خارج کرنے کیلئے یوگا کبڈی کا کھیل
کھیلا جاتا ہے، لیکن یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب دیش کے بھگوڑے للت
مودی کا واقعہ بے نقاب ہو کر منظر پر آیا ۔ اور اس میں ملک کی وزیر خارجہ
ششما سوراج ،راجستھان کی وزیر ا وسندھرا رانی ملوث پائی گئیں کہ دیش کے ایک
بھگوڑے کی اعانت و مدد ملک کے سب سے طاقت ور وزیر آعظم نریندر مودی کے
اشارے پر کی گئی ،جو کہ ایک سب سے بڑا جرم عظیم تھا، اس پر پردہ ڈالنے
کیلئے یوگا کبڈی کے کھیل کو استعمال میں کیا گیا، اس یوگا کبڈی کے کھیل کو
سیاسی رنگ دینے کیلئے دعوت نامہ بھی مخصوص لوگوں کوبانٹے گئے،کچھ مخصوص
لوگوں کو معترض بنایا گیا کہ یوگا کبڈی کا فیشن شو دیکھنے کیوں نہیں
آئے،جوابات آئے کہ انہیں یہ فیش دیکھنے کیلئے دعوت نامہ دستیاب نہیں
کرایاگیا، تو اس کا ایک بدزبان عورت نے بے ہودہ الفاظ میں جواب دیا کہ راج
پتھ پر کسی لیڈر کی بیٹی کی شادی نہیں تھی، جو دعوت نامہ دیا جاتا ، چند
مسلم مذہبی لوگوں نے یوگا کبڈی کی مخالفت کی تو اس خاتون نے کہ ایسے لوگوں
کوپاکستان چلے جانے کو کہا،کیونکہ پاکستان نے یوگا کبڈی کے کھیل کے فیشن
شومیں کوئی دلچسپی نہیں دیکھائی ،کچھ مسلم مذہبی لوگ اس سیاسی کھیل پر
اعتراض کرکے اس کی اہمیت کو خواہ مخواں بڑھا رہے ہیں،یہ ان کی نادانی
ہے،اگر وہ ایسا دانشتہ کررہے ہیں توان کو اس کا حکم دیا گیا ہے، ایسے لوگوں
کو بھاجپا کاہی بھگت کہا جاسکتا ہے، کہ وہ اس مدعے کی اپنے سیاسی فوائد
کیلئے مخالفانہ اندازمیں تشہیر کرارہے ہیں،
بہرحال چونکہ یوگا کبڈی ،کالا دھن رکھنے والوں، جھوٹ بولنے والوں کا ایک
سیاسی کھیل ہے، اُ س میں دیش بھگت لوگ تو شریک ہوہی نہیں سکتے ، یہ کھیل تو
صرف شدت پسند لوگ ہی یوگا کبڈی ، سوریہ نمسکار کی شکل میں کھیلتے ہیں، وہ
لوگ من مانی کرکے اپنا اور دوسروں کو وقت ضائع کرتے ہیں،تو کرنے دو،عملی
طور اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے،جمہوری ملک میں ہر کو اپنی بات کہنے کا حق
ہے، تو کہنے دو،ہر مذہب نے فضولیات سے بچنے کا حکم دیا ہے، ہم اس کے پا بند
رہیں اورہمیں ہر مذہب کا، ہرفرقہ کاان کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے، فی
الوقت مذہبی لوگ اس سیاسی کھیل پر بولنے سے اجتناب کریں،ملت کی سیاسی
رہمنائی کا نہیں بلکہ مذہبی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں، |