پتہ نہیں کب۔۔۔ـ؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
پتہ نہیں کب ارضِ گلستاں میں برگِ سبزپر طائرانِ خوش الحان کاڈیرہ ہوگا،
پتہ نہیں کب دشتِ کرب پرابرِ نیساں کا سایہ ہوگا ، پتہ نہیں کب فہم وادراک
کے شناوراربابِ حل وعقداِس قوم کانصیبہ ٹھہریں گے اورپتہ نہیں سیاسی ’’بگلابھگتوں‘‘سے
کب جان چھوٹے گی ۔پتہ نہیں کب کراچی کی روشنیاں لوٹیں گی ،بی ایل اے کے
دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا،فرقہ واریت کوجَڑ سے اکھاڑاجائے گا
،نَس نس میں سمائے لسانیت کے زہرکو عزمِ صمیم کی جراحی سے صاف کیاجائے
گااور مہنگائی کے ’’قارونوں‘‘کوبیچ چوراہے لٹکایاجائے گا۔پتہ نہیں سُکھ کی
چند سانسوں کوترسی خلقِ خُدا کی دعائیں کب مستجاب ہوں گی اورپتہ نہیں کب یہ
قوم بلوغت کی وادیوں میں قدم رکھے گی کہ فی الحال توہم وہ سدھائے ہوئے
بندرہیں جوکبھی ایک اورکبھی دوسرے کی ڈُگڈگی پرناچ ناچ کے نڈھال ہوچکے ۔ہمیں
تو بس یہی آتاہے کہ کبھی ’’آوے ای آوے ،جاوے ای جاوے‘‘کے نعرے اورکبھی
سڑکوں پر ٹائرجلا کرلوڈ شیڈنگ کااستقبال۔
اب کی بارتابشِ آفتاب نے تاب وتواں چھین لی ۔سورج نے وہ جلوے دکھائے کہ
کشتوں ںکے پشتے لگ گئے ،مردہ خانوں میں جگہ باقی نہ بچی ۔صرف کراچی میں تین
دنوں میں ساڑھے چارسو سے زائد افرادلقمۂ اجل بنے اورتین ہزارسے زائدافراد
کا’’ہیٹ سٹروک‘‘کا علاج ہوا لیکن حکمرانوں کے پاس ایک ہی جواب کہ ماہِ مقدس
کے پہلے ہی روزے پربجلی کی کھپت میں اچانک چار ہزارمیگاواٹ کااضافہ ہوگیاجس
نے لوڈشیڈنگ کے سارے نظام کوتَلپٹ کرکے رکھ دیا۔کیازندہ قوموں کایہی وطیرہ
ہوتاہے کہ گرفتارِبلا ہونے تک خوابِ غفلت میں رہیں؟۔ سچ تویہی ہے کہ ہمارے
پاس الفاظ کی وہ سواریاں ہی نہیں جن پر اپنے’’ ممدوحین کی شان‘‘ کوسوار
کرکے فضاؤں میں بکھیر سکیں پھربھی تمام ترنیک تمنائیں حکمرانوں کے ساتھ۔
ترقی کاسفر بجا، میٹرواور گرین لائین منصوبے بھی سرآنکھوں پر لیکن بصدمعذرت
کیافرق ہے پیپلزپارٹی کے گزشتہ اورنواز لیگ کے موجودہ دورِحکومت میں؟۔ راجہ
رینٹل نے کہاتھا دسمبر 08ء تک بجلی کابحران ختم ہوجائے گالیکن پورے عہدِ
حکومت میں بحران پہلے سے فزوں تر ،خادمِ اعلیٰ نے بھی مختلف اوقات میں چھ
ماہ سے دوسال کاوقت دیا۔ دوسال کاعرصہ بھی گزرچکالیکن خادمِ اعلیٰ کانام اب
بھی میاں محمد شہبازشریف ۔سچ کہاہے چودھری نثاراحمد نے کہ حکومت کااصل
مقابلہ سیاست دانوں سے نہیں لوڈشیڈنگ سے ہے لیکن یادرہے ککہ قوم میں تاب
وتواں باقی نہیں۔ اگرلوڈ شیڈنگ کے عفریت پرقابو نہ پایاجا سکاتو دسمبر 17ء
دور، بہت دور،آمدہ بلدیاتی انتخابات میں ہی نتیجہ سامنے آجائے گا۔اگر کوئی
یہ سمجھتاہے کہ عابدشیر علی یاخواجہ آصف لوڈشیڈنگ کے عفریت پرقابو پالیں گے
توغلط ،بالکل غلط۔اُن کی نیتوں پر شک نہیں لیکن ’’لائین لاسز‘‘اور بلوں کی
وصولی اُن کے بَس کاروگ نہیں۔اب جب کہ سیاسی وعسکری قیادت کے تعلقات اپنی
رفعتوں کو چھورہے ہیں اور افہام وتفہیم کی ایسی فضاء کہ یقین نہ آئے ،
توکیوں نہ واپڈاکو کرپشن سے پاک کرنے کی ذمہ داری بھی فوج کے سپردکر دی
جائے ۔آخر 1998ء میں بھی توواپڈاکرپشن کے خاتمے کے لیے فوج ہی کا سہارالیا
گیاتھا۔ عابدشیر علی صاحب دوسالوں میں دس ہزارمرتبہ بلوں کی عدم ادائیگی
اور لائین کاسز کارونارو چکے لیکن معاملہ بدستوروہیں۔ سیاسی جماعتوں کی
توکچھ مجبوریاں ہوتی ہیں اوروہ ایک حدسے آگے جابھی نہیں سکتیں لیکن یہاں یہ
معاملہ آن پڑاکہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
مسلمہ حقیقت کہ’’ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ‘‘ اِس لیے اِن ’’بھوتوں‘‘
کوبھی فوج کے سپردکر دینے میں ہی عافیت ہے ۔اگر نیتوں میں فتورنہ ہوتو
فرشتے بھی آسمانوں سے مددکے لیے اترآتے ہیں۔ ہمیں سپہ سالارکی نیت میں کوئی
شک ہے نہ اُن کے عزم بالجزم پہ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ کام جوکسی
اورکے بس کاروگ نہیں تھا ،فوج کی سربراہی میں رینجرز نے کردکھایا۔ آج کراچی
میں بلاامتیاز کرپشن کے مگرمچھوں کو پکڑاجا رہاہے اورکوئی دن جاتاہے جب
کرپشن کاابرِسیاہ تاب چھَٹ جائے گااورکراچی ایک دفعہ پھرروشنیوں کے شہرمیں
ڈھل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مافیازکے سرپرستوں کی راتوں کی نیندیں حرام
ہوچکیں۔
محترم آصف زرداری توگزشتہ چھ ماہ سے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات کی گہرائی
کومحسوس کررہے تھے لیکن اُن کاخیال تھاکہ شایدمعاملہ ایم کیوایم تک ہی
محدودرہے گا لیکن جب پندرہ جون کوسندھ بلڈنگ کنٹڑول اتھارٹی کے ڈی جی
منظورقادر کاکا کے دفترپر رینجرزنے چھاپہ ماراتواپنے گرد شکنجہ کستادیکھ
کرزرداری نہ صرف پھَٹ پڑے بلکہ بازاری زبان پراتر آئے اوریہاں تک کہہ دیا
’’ہمیں تنگ نہ کیاجائے ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘۔ حالانکہ فوج یا
رینجرزنے نہ توزرداری صاحب کے معاملات میں براہِ راست دخل اندازی کی اورنہ
ہی سندہ حکومت کوتنگ کیا۔ یہ تواپیکس کمیٹی میں طے ہوچکا تھاکہ مافیاز کی
سرپرستی کرنے والوں کوبھی گرفتارکیا جائے گا۔جن 26 افرادکی فہرست ڈی جی
رینجرزکی طرف سے سندھ حکومت کودی گئی وہ سبھی کسی نہ کسی حوالے سے بھتہ
خوروں ،ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں، کالعدم تنظیموں اور لینڈمافیا کی سرپرسی ہی
میں ملوث تھے لیکن زرداری صاحب کے حکم پرسندھ حکومت نے اِن کے خلاف ایکشن
لینے یاانکوائری کرنے سے صاف انکارکر دیاجس پررینجرز حرکت میں آئی اوراِن
لوگوں کی گرفتاریاں شروع کردیں۔ اب پتہ نہیں کیوں وزیرِاعلیٰ سندھ یہ کہہ
رہے ہیں کہ رینجرزاپنے اختیارات سے تجاوزکررہی ہے ۔ اول تویہ اختیارات سے
تجاوزہے ہی نہیں اورجو ایکشن بھی لیا جا رہاہے وہ آئین وقانون کے دائرے میں
رہ کرہی لیاجا رہاہے لیکن اگریہ اختیارات سے تجاوز ہے بھی توقوم کودل کی
گہرائیوں سے منظورکہ کوئی توہے جو کرپشن کے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی سکت
رکھتاہے ۔ ویسے بھی ڈی جی رینجرزنے جوکچھ کہاوہ نیانہیں ،یہ سب کچھ توسپریم
کورٹ 2013ء میں کہہ چکی البتہ عمل درآمداب شروع ہوا۔ شنیدہے کہ ایف آئی اے
نے سندھ حکومت کے سات صوبائی وزراء ، چار سابق وزراء ، پیپلزپارٹی کے آٹھ
اراکینِ قومی اوربیس صوبائی اسمبلی کے علاوہ سندھ حکومت کے 100 سے زائد
بیوروکریٹس کے ملک سے باہرجانے پرپابندی لگادی ہے اور امیگریشن حکام کویہ
ہدایت کردی ہے کہ اگریہ لوگ ملک سے زبر دستی باہرجانے کی کوشش کریں تو
انہیں گرفتار کرلیا جائے ۔یہ وہی لوگ ہیں کہ جوزمینوں پر قبضے اورجرائم
پیشہ گروہوں کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ دوسری طرف اِن لوگوں نے ضمانت قبل
ازگرفتاری کے لیے عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے ۔اگر یہ سب سچ ہے توآمدِبہار کی
اُمید کی جاسکتی ہے ۔
|
|