کالم نگاری نے غالب نکما کر دیا

استاد شاعروں کے استاد شاعر جناب غالب کہتے ہیں ’’عشق نے غالب نکما کر دیا‘‘۔ شاہد وہ دور ہی ایسا تھا کہ عشق کا روگ لگ جائے تو آدمی کام کاج کے قابل نہیں رہتا تھا۔ وہ عشق بھی عجیب تھا کہ عموماً یک طرفہ ہوتا تھا غالب توخیر دور کی بات ہے اب سے دس بیس سال پہلے تک بھی زیادہ تر عشق یک طرفہ ہی ہوتا تھا ۔ میرے ایک کلاس فیلو چار پانچ دن کالج نہیں آئے۔ جب آئے تو چہر ہ اترا ہوا تھا۔شکل سے پریشانی پوری طرح عیاں تھی۔ پوچھا کیا ہوا۔ آدھا دن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چھٹی سے کچھ دیر پہلے مجھے ایک طرف لے گیا اور رونے والی صورت بناتا ہوا بولا۔ بھائی بہت پریشان ہوں۔ بتاؤ کیا کروں۔ مجھے عشق ہو گیا ہے۔ بہت خوب کمال ہو گیا مگر لڑکی کون ہے؟ والد صاحب کے دوست کی بیٹی ہے۔ دو تین دفعہ والد صاحب کا پیغام دینے اُن کے گھر گیا ہوں اور اس کی زلف کا اسیر ہو گیا ہوں۔ پوچھا لڑکی کی صورتحال کیا ہے ۔جواب ملا اسے ابھی کچھ پتا نہیں۔ پچھلے پانچ دن سے صبح سے اس کے محلے کے دائیں بائیں پھرتا ہوں۔ تقریباً اتنے بجے وہ چار پانچ سہیلیاں اکٹھی سکول جاتی ہیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتا ہوں۔ تقریبا 20منٹ میں وہ سکول پہنچ جاتی ہیں۔ میں بے چینی میں سکول کے بابر ٹہلتا رہتا ہوں۔ دوپہر چھٹی ہوتی ہے تو اس کے محلے تک اسے چھوڑ کر آتا ہوں۔ بس پڑھائی میں دل نہیں لگتا رات کو نیند بھی نہیں آتی۔ میں نے پھر پوچھا۔ پانچ دنوں میں کچھ قربت۔ ہاں بہت۔ پہلے دن میں نے تقریبا ایک فرلانگ دور سے اس کا پیچھا کیا تھا۔ اب فاصلہ کم ہو کر آدھا فرلانگ رہ گیا ہے آج اس کے سکول میں چھٹی تھی اس لئے کالج آ گیا ہوں۔ ابا جی سے ڈر لگتا ہے کہیں لڑکی نے اپنے باپ اور اس کے باپ نے ابا جی کو شکایت کر دی توتم جانتے ہو ابا جی کو ۔ میں ہنس دیا۔ میں اور میرا وہ دوست بوڑھے ہو گئے ہیں۔ وہ عشق اس کے ذہن میں آج بھی جوان ہے مگر دونوں کا درمیانی فاصلہ ابھی تک آدھا فرلانگ سے کم نہیں ہو پایا۔
ان دنوں والد بھی ہٹلر نما ہوا کرتے تھے۔ کوئی ادا پسند نہیں آئی تو بچوں کی شامت ۔میں ایم ایس سی میں پڑھتا تھا۔ اپنے ایک کلاس فیلوسے ملنے گیا۔ اس کے والد محترم نے کرسیاں گھر کے باہر محلے میں بچھائی ہوتی تھیں گھر کے افراد اور محلے دار وہاں سے گزرتے تو ان کرسیوں پر بیٹھ کراس کے والد سے گپ شپ کرتے اور ان کا دن مصروف گزر جاتا ۔ میں پہنچا تو اس کے والد باہر کرسی پر بیٹھے تھے۔ بہت شفقت اور پیار سے ملے اور کہا بیٹھو بیٹا وہ ابھی آتا ہی ہو گا۔ میں نے پوچھا کسی کام سے گیا ہے کہنے لگے عاشق مزاج ہے۔ محلے کی کوئی لڑکی گھر سے نکلے منہ کھول کر مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑتا ہے کہ شاید وہ بھی جواباً مسکرا دے۔ ابھی میں نے اوپر سے دیکھا وہ چوتھے گھر سے ایک لڑکی نکلی تھی اسے بس سٹاپ یا اسکول تک چھوڑنے گیا ہے۔ بات کرنے کی جرات نہیں لیکن عاشق ہے یہ کام نہ کرے تو تسلی نہیں ہوتی۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ موصوف واپس آ گئے۔ والد صاحب نے آؤدیکھا نہ تاؤ۔ جوتا اتارا اور پیٹنا شروع کر دیا کہ اس ماں کو چھوڑ آئے ہو۔ اس وقت بچوں کی تابعداری بھی خوب تھی۔ ایم ایس سی کے طالب علم نے خوب جوتیاں کھائیں اور کچھ نہیں بولا میں نے بمشکل اس کی جان چھڑائی۔ اس دور کے اسی طرح کے عشق تھے کہ انسان کو نکما کر دیتے تھے۔ عشاق کے لئے آپس میں رابطہ ناممکن ہوتا تھا۔ گھر سے باہر جھانکنا منع۔ بھائی یا باپ لڑکیوں کو سکول چھوڑنے جاتے تو فضا میں سونگھتے ہوئے جاتے۔ ہلکی سی آہٹ پر ان کی غیرت جاگ جاتی۔ اُن دنوں اگردونوں میں چھوٹا موٹا رابطہ ہو بھی جاتا تو بہت خفیہ ہوتا۔ کہ کسی کو خبر ہو گئی۔ تو ماں باپ کی شرافت پر حرف آئے گا ۔ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک دوسرے کو فون کرنا بھی محال تھا۔فون اول تو ہوتا ہی نہ تھا اگر ہوتا تو والد کے سرہانے پڑا ہوتا۔ کبھی کرنا ہوتا تو پہلے ایک لمبی انکوائری ہوتی ایسے میں کون کم بخت فون پر عشق کا رسک لے سکتا تھا۔اب عشق کا سٹائل بدل گیا ہے ۔اب تو عشق شروع تو بات چیت شروع ۔نہ ماں کو اعتراض نہ باپ کو گلا۔ بھائی کی غیرت بھی بے جا نہیں جاگتی۔ وہ بھی خوشی سے سب دیکھتا اور خود بھی وہی کچھ کرتا ہے خدیجہ مستور نے کہا تھاـــجس گھر میں جوان بچیاں ہوں اس گھر کے مکینوں کو ہوا کے جھونکوں سے خوف آتا ہے مگر اب یہ باتیں پرانی ہو گئیں۔ جھونکے آنا بند ہو گئے ہیں۔ اب جھکڑ چلتے ہیں۔ آندھیاں آتی ہیں او ر بیٹیوں والے لوگ کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ شایدآندھیوں کے عادی ہو گئے ہیں۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائل فون نے عشاق کی تمام مشکلات آسان کر دی ہیں۔ غالب کے کچے گروندے کی جگہ اب تہذیب نے کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ صبح کے ساتھی شام کو نیا ساتھی بدلتے دیر نہیں لگاتے اور کوئی شرم اور حیا بھی محسوس نہیں کرتے۔ شاید تبدیلی اسی کا نام ہے اب عشق نکما نہیں کرتا ۔ پھرتیلا کرتاہے۔

بات شروع ہوئی تھی غالب سے اور اس کے نکمے پن سے ۔ آج نئے دور میں نئی نئی چیزیں ہیں جو انسان کو نکما کرتے ہیں۔ہمارا ایک دوست جو شاعر تو نہیں لیکن ادب کا غالب ہے ۔ ویسے میں حتمی طور پر کہہ نہیں سکتاکہ ادب اس پر غالب ہے یا وہ ادب پر غالب ہے مگر اس غالب ثانی کو کالم نویسی نے نکما کر دیا ہے پہلے وہ دوستوں میں جانِ محفل ہوا کرتا تھا مگر اب بہت کم نظر آتا ہے اب وہ کالم کھاتا کالم پیتا اور کالم اگلتا ہے کالم مکمل کرنے کیلئے وہ کئی کئی دن مراقبے میں بیٹھارہتا ہے۔ بہت دیر تک سانس روک کر بیٹھے رہنے کے بعد سانس جب آتی ہے تو وجدان میں بہت سے چیزیں آتی ہیں۔ بعض اوقات تو پنجلی خود بھی ان کے اندر اتر آتا ہے اور خیالات سے مالا مال کر جاتا ہے۔ میرا دوست پہلے کاروباری تھا پھر وہ سیاستدان ہو گیا اور اب وہ کالم نگار ہے۔ اک مکمل کالم نگار جو ہر موضوع پر بلا تھکان بہت کچھ بول سکتا اوربہت کچھ لکھ سکتا ہے اور لوگ ان کی بات سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ مگر اس میں یہ کمال بھی ہے کہ وہ کسی دوسرے کی بات نہیں سنتا۔ اک دن ایک شخص کی باتوں پر وہ توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اس شخص نے غلطی سے کہہ دیا کہ آپ میری بات نہیں سمجھے اس نے فوراً جواب دیا کہ میں تو عمران کی بات نہیں سمجھتا ۔ تمہاری کیوں سمجھوں گا ساتھ بیٹھے ہمارے ایک محقق دوست نے جن کا مضمون تو پولیمرہے لیکن مزاح میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ،فرمایا ۔ عمران کیا۔ یہ تو بیوی بچوں کی بات نہیں سمجھتے۔ کسی دوسرے کی بات کیوں سمجھیں گے۔

میرے اس دوست کوکالم نویسی نے ایک عروج دیا ہے ۔ اُن کے پائے کے تقریباً سبھی کالم نویس وزارت یا مشاورت کے مزے لوٹ چکے یا لوٹ رہے ہیں۔ باقی ان جیسے چند ایک اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران اپنے ماضی کی طرح اسی اندازکے مردم شناس رہے تو یقیناً میرے دوست کی منزل قریب ہے کیونکہ میرے دوست کی شہرت اب حدود وقیود کی محتاج نہیں رہی۔ امریکہ میں بہت سے اہل علم اور علمیت کے متلاشی ادارے ان کی باتیں سننے کی متلاشی ہوتے ہیں اور اس کی فکر سے استفادہ کرتے ہیں اسی سلسلے میں پچھلے دنوں بہت سے علم پرور امریکی شہریوں کی دعوت پر وہ امریکہ گئے ہوئے تھے۔ امریکہ کی بہت سے گمنام یونیورسٹیوں اور اداروں نے ان کی وساطت سے اپنی گمنامی کے داغ کو دھویا خود بھی نام کمایا ان کی عزت افزائی بھی کی۔ پاکستان کی ایک مردم شناس اداکارہ ، جو ان دنوں امریکہ تھیں،نے انہیں ایک ہوٹل میں خصوصی دعوت پر بلایا مگر کیا کیا جائے کچھ زن شناس صحافی بغیر بتائیے وہاں پہنچ گئے۔ جن کا ہجوم دیکھ کر اداکارہ رفوچکر ہو گئیں مگر میرا دوست جو بچپن سے اب تک ایسی ہر ریس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لیتا رہا ہے اس قدر سرعت سے بھاگا کہ لاہور پہنچ کر دم لیا۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ وہ شخص جو ایک وقت میں بہت سے کام کرتا تھا اب صرف اور صرف کالم نویسی کرتا ہے کالم نویسی نے اس غالب ثانی کو پوری طرح نکما کر دیا ہے دوستوں کی خواہش ہے کہ حکمرانوں کو اس گوہر نایاب کی جلد ضروررت محسوس ہو،تا کہ وہ وزیر یا مشیر ہو جائے اور پھرکالم نویسی، ہڈحرامی اور نکماپن چھوڑ کر اپنے پرانے انداز میں دوستوں کے لئے جان محفل بن جائے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500442 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More