کوثر بیگ کی سحری

چاند نظر آ گیا۔۔ چاند نظر آ گیا۔۔!
کوثر بیگ اپنے بیڈ روم میں تھیں اور بستر کی چادرتبدیل کر رہی تھیں جب بیٹی کی آواز سنائی پڑی۔۔ سو وہیں سے چلائیں۔۔
"ایّو، کیا روزوں کے بغیر ہی عید کا چاند نظر آ گیا۔۔ سچ مچ ماں ۔۔؟"
"نہیں ما، مے کو کہنا تھا کہ رمضان کا چاند نظر آ گیا۔۔" بیٹی نے اندر آتے ہوئے جواب دیا
"تو ایسچ بولو نا، اس میں اتنا طوفان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔۔ ہر سال نظر آتا ہے رمضان کا چاند۔ ایک دن نظر نہ آوئے تو دوسرے دن تو آ ہی جاؤے۔۔ سعودی عرب کے ملاء، مفتی، عالم اسی کام کے لیے تو حلوے مانڈے کھاتے اپنی جگہ سمھالے ہیں کہ پوری دنیا کو بتا سکیں کہ چاند نظر آئیچ کہ نہیں ۔۔؟"
"میرا مطلب تھا ماء کہ ملاء، مفتی کو تو پتہ نہیں نظر آیا ہے یا نہیں ؟ پَرمجھے آسمان پہ لائیو چاند نظر آیا ہے۔۔"
"اچھا، اچھا یہ تو انہونی ہو گئی پھر اپنا گھر ماں کہ مولوی، مفتی کو ابھی تک ڈھونڈنے سے نہیں ملا۔۔ چلو میں خود دیکھتی ہوں چاند کو، پہلے دیدار کا مزہ ہی اور ہے۔۔ اس کے بعد سعودی عرب کے رشتے داروں، دوست احباب کو جلدی جلدی فون کر کے بتا دیتی ہوں کہ کل روزہ ہونے والا ہے۔۔ سحری کا جگاڑ کر لیں، اگر ابھی باقاعدہ شاپنگ نہیں کی تو صبح سحری میں انڈے کا خاگینہ یا انڈے کے بونڈے بنا لیں۔۔ ساتھ گھی لگی روٹی اور ہری مرچ کا پراٹھا بنا لیں۔ سِی سِی کرتے چائے کے ساتھ انھیں خوب مزہ دیویںگے۔۔ جب زبان جلے گی اور کانوں سے دھواں نکلے گا تو ان کی نیند سے جڑتی آنکھیں بھی کھل جاویں گی۔۔اب وہ اِتّا میرا عزت، مان رکھے تو مشورہ وشورہ دینا تو بنتا ای اے نا۔۔

اور بیٹی، کیا نام ہے تمھارا، تم جلدی سے صبح سحری کے لیے اِتّا سا کچڑی قیمہ بنا لو۔۔ قیمہ تیز آنچ پہ لہسن، ادرک، پیاز ڈال کے اچھی طرح بھون لئیو تا کہ اسکی بساند باقی نہ رہے۔۔ میرے کو تو مفت کافکراں لاگا کرے اگر اور لوگاں کی طرح تم لوکاں کے باپ کو بھی گوشت، مرغی، قیمہ سے بساند آنا شروع ہووے تو میرا تو کام بو ہتچ بڑھ جاوے۔۔ بساند دور کرنے کے لیے مجھے آئے دن انڈیا رشتے داروں کو فون کرنا پڑے کہ کوئی گھریلو نسخہ، خاندانی ٹوٹکہ بتاؤ کہ۔۔ خالہ امی، بساند دور کرنے لیے کیا کرا اور چچی اماں کیا ٹوٹکہ ڈھونڈ نکالا۔۔؟ اگر بساند پھر بھی ختم نہ ہوا تو وہ لوکاں کیسے اپنے مردَ اں کو سمھالا اور کیسےان کی ناکاں کو۔۔؟ ویسے وہ لوگاں بھی کیا سوچا کرےکہ میں ان کا خریت ملوم کرنے کا کبھی فون نئیں، اوراپنا مطلب براری کے لیے کیسے چھٹ بھٹ فون کرا۔۔ ہک ہا، وہ کیا سمجھیں پردیس ماں پردیس کی مجبوریاں۔۔ یہاں پیسے درختوں پہ تھوڑی لگتے ہیں۔۔ چوبیس گھنٹے مزدوریاں، جگاڑ کرنا پڑتاہے۔ پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ پیسے پیسے کو دانتوں سے پکڑنا پڑتا ہے۔

لڑکیو !پراٹھوں کے لیے آٹا ابھی سے گوندھ لو۔۔ بلکہ تھوڑا سا خمیر بھی اندر ڈال دو۔ اس سے کیا پھولے پھولے مزے کے پراٹھے بنیں گے، اورصبح سرگی میں وقت سے ذرا پہلے دو بہنیں اٹھ جاویں تو خوب لچھے دار پراٹھے بنا لیویں ۔۔ قیمہ اور انڈے دونوں کے ساتھ بوت مزا دیویں گے۔۔ اور تم کچھ کام بہن کا بھی بتاؤ نا، کل کو اسے بھی سسرال ماں جانا ہو گا اور سب کے لیے سحری بنانے کا جھنجھٹ پالنا ہو گا۔۔ ورنہ ساس کوئی موقع نئیں چوکے گی مجھےلتاڑنے کا۔۔ جٹھانی، دیورانی مفتاں میں اپنے نمبر بنا لیویں۔ اُسے کہنا انڈے ابھی سے پھینٹ کر رکھ لے۔۔ ہری مرچ، ٹماٹر، ہری پیاز بھی ڈال دیوے۔۔ اچھا چلو، ہری پیاز، شیاز رہنے دیوے، یہ نہ ہو سارا دن منہ سے پیاز کی بُو مُو، سی نکلے اور فرشتوں کو بھی بُری لگے۔۔ وہ بھی منہ اِدھر اُدھر پھیراں کرے۔۔ اور پوراثواب لکھنے میں ہچکچاتے پھریں۔ بندہ ایسے کام اِی کائے کو کرے جس سے اگلے کو موقع مل جاوے۔۔ ویسے صاحب کے لیے تو فرائی انڈا چلے گا۔۔ بھین کو بولنا باپ کے لیے انڈا ابھی سے پیالی میں توڑ کے رکھ دیوے۔ پتہ توچلے کہ زردی سالم ثبوتی ہے کہ نہیں ۔۔؟ سحری میں دستر خوان پہ بیٹھنے سے تھوڑی دیر پہلے فرائی پین میں گھی گرم کر کے وہ انڈا اس میں الٹ دیوے۔۔ کوئی کڑچھی، مڑچھی اس میں نہ مارے۔ اور فرائی پین ای سیدھا باپ کے آگے دھر دیوے۔ تو میری فکراں دور ہووے، ورنہ میرے کو ساری رہن فکر لگی ریوے کہ انڈے کی زردی اگر ٹوٹ گئی تو۔۔ تو؟ تمھارے باپ کو کیا بولا کرے۔۔ انھیں خوامخواہ باتاں کرنے کا موقع مل جاوے،
" کوثر، اتنے ماہ و سال گزر گئے ابھی تک تم سے انڈے کی زردی نہ سمھالی گئی۔۔؟ "

یہ سن کر میرا پارہ ہائی ہو جاوے۔۔ صبح صبح نور پیر کے تڑکے لڑائی کا سامان ہو جاوے۔۔ فرشتے بھی ہکا بکا ہو کر رہ جاویں کہ اب سحری کا ثواب لکھیں یا ان کی لڑائی کا پرچہ کاٹیں۔۔ یہ رمضان میں الگ مصیبتاں، وہ روز انڈا کھائی، بلا ناغہ انڈا کھائی اور روز زردی ٹوٹ جاوے کا فکراں میری جان پہ ۔۔!
ہاں یاد آیا بیگن کا دالچہ بھی پڑا ہے۔۔ کل سحری کےعلاوہ شام افطار میں بھی کام آجاوئے گا۔۔ کل پہلی
افطاری میں خود بناؤں گی دل لگا کر ٹماٹرکے پکوڑے، ساتھ سمبوسہ، چکن سوپ، مونگچیاں، ساگودانہ کی کھیر،چنے کی بھجیا اور حریرا ۔۔ روٹی کی جگہ گرم گرم روغنی تندوری نان پکڑ لیویں گے۔ ساتھ باپ سے کہیو چکن تکہ اور مٹن بوٹی بھی لیتے آئیں اور ہاں عجوہ کھجور بھی۔۔ ورنہ عجوہ کھجور کے بغیر میں روزہ افطار نئیں کرے گی۔۔ اگر وہ روز انڈا کھائیچ تو میں بھی روز عجوہ کھجور کھائیچ۔۔

اے لو، اب جب اتنا اہتمام ہو ہی رہا ہے تو جدہ والے بہو بیٹے کو بھی افطار کی دعوت دے دیتی ہوں۔ یقینا ایک آدھ ڈش وہ بھی لیتے آئیں گے۔ ویسے بندے کی نیت ہونی چاہیئے، البیک۔۔ ریسٹورنٹ تو ان کے راستے میں پڑتا ہے۔۔ ایک دو چیزیں پیک کرواتے آخر دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ اس رمضان عمران بھائی سے میں جرور پوچھا کرے گی کہ وہ سحری میں اچار کونسا کھاوے ہیں پنچ رنگا یا نیشنل والوں کا۔۔ ؟ اور انھیں آم کا اچار پسند ہے یا ہری مرچوں کا۔۔؟ میرے کو تو اوئی ماں، لیموں، لسوڑے، گاجر کا اچھا لاگے، ویسے پنچ رنگا کی پیکنگ سے تو ایک دو ڈیلے، دو تین لسوڑے اور تین چار لیموں مشکل ماں میں ہاتھ آویں۔۔ نراا آم کی قتلیوں، گٹھلیوں، مصالحے اور تیل کی بھرمار۔۔

اور ہاں دھیان جٹا کر، کان کھول کر سن لو۔۔ اس بار رمضان میں کھانا پورا پورا ہی بنے۔۔ فالتو کا بنانے کا میرے ماں بالکل طاقت نئیں۔۔ سحری کا بچا افطاری میں اور افطاری کا بچا سحری میں ہر صورت ختم ہو جاوے۔۔ پچھلے رمضان میں نو رتن ہنڈیا پکا پکا کر تھک گئی۔۔ سو اس بار کچھ نیا کرنے کا من چاوے ہے۔۔ افطاری دینے کا بھی اس بار میں کچھ اور بندوبست سوچ لیوئے۔۔۔ بہتر تو یہی لاگے کہ دو تین بار کھانامسجد میں بھیج دیوے اور اس دن خود بھی وہیں روزہ جا کھولے۔۔ رشتے داروں، ملنے والوں کو بھی افطار کا دعوت نامہ مسجد کادے دیوے۔۔ گھر ماں کسی کو بلانے کا کیا جرورت۔۔؟ سب اپنے اپنے گھر میں افطار بناویں اور کھاویں۔۔ ویسے رمضان ماں کیا کنجوسی کیا بچت، اچھا ہے اگر ایک دن سب کا گھر ماں ایک ایک چھوٹا ڈبہ افطار کا پیک بھیج ہی دیوے۔۔ اب چاہے وہاں ایک بندہ پورا افطار کھول لیوے یا پورا خاندان بُرقی بُرقی لگا لیوے۔۔ یہ ان کا مرضی جو جی میں آوے کرے۔۔ اور اگر وہ ہمارا افطار کسی ہوٹل یا البیک ریسٹورنٹ میں کرنا چائے تو جی جان سے ہم قبول کر لیوے۔۔ بھئی آخر یہ ان کے گھر کا مسئلہ ہووے ہے۔۔

اے لو، ابھی مجھے چاند نکلنے اوررمضان کی مبارکباد دینے والوں کو یاد دلاناہےکہ بیس تراویح پڑھنے کے لیے کمر کَس لیں۔۔ پہلا روزہ ہے نا، اس لیے آٹھ تراویح نہیں چلے گی۔۔ رمضان کا مہینہ ہے زیادہ سے زیادہ ان لوکاں کا نماز روزہ چ کرنا چاہیئے۔ اپنی خطائیں بخشواناچاہیئں۔ سال بھر کی ڈھیروں چغلیاں معاف کروانا چاہیئں۔ پوراسال جانے انجانے میں، مذاق مذاق میں نہ جانے یہ کتنی چھوٹی بڑی خطائیں کرے ہیں۔۔ سو اب معافی تلافی کر کےاللہ کی رحمتیں، برکتیں سمیٹنا چاہیئں۔ مرد لوگاں کا تو لازم مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کااور مکے مدینے والے تو امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کا موقع قطعی نہیں گنوانے کا۔۔ اللہ ان کے طفیل مجھے بھی ہمت دیوے کہ گھر بیٹھے پوری تراویح پڑھ سکوں، آٹھ تراویح پڑھنے کے بعد مجھ پہ نیند کا غلبہ طاری نہ ہووے۔ اگر ایسا ہووے تو باقی گھر والے بیس تراویح پڑھ لیویں۔۔ تا کہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اس گھر پہ برستی رہیں۔۔
ویسے اس بار تو روزے اوئی ما۔۔، بڑے ہی سخت ہوویں۔۔ کہیں گرمی کی مار ہے تو کہیں وقت کی۔۔ نہ سحری میں ٹھیک سے کھایا پیا جاوےاور افطاری تک تو بندہ ویسے ہی اَدھ مواء ہو جائے۔۔ کمزوری اتنا ہو جاؤے کہ دو گھونٹ پانی بھی اندر عرق کی طرح رِس رِس کر جاوے۔ بس یہی تو رمضان ہے، صبر ہے ،کڑا امتحان ہے۔ اللہ، لوکاں پہ اپنا فضل بنائے رکھے۔۔ آمین اور اس مہینہ شیطان کو جکڑ کے رکھے۔۔ ذرا ڈھیل نہ دیوے۔۔
اے لو بیٹی، تم کیاکھڑی میری باتاں سُناں کرے او۔۔ میں سب سے پہلے تو چاند کا دیکھا کروں جو ابھی ابھی پیدا ہوا ہے۔۔"
یہ کہہ کر کوثر جی کھڑکی کی طرف لپکیں ۔ پوری کھڑکی کھول کر آسمان پہ نظریں دوڑائیں۔۔ دور دور تک چاند کا نشان تک نہ تھا۔۔ اتنے میں بیٹی آگے بڑھ کر بولی،
"ما، چاند تو میرے کمرے کی کھڑکی سے نظر آئیچ۔۔!"
"اے لو بیٹی، تم نے چاند اپنے کمرے کی اور مقید کر رکھا ہے۔ ۔ چاند تو بلا شراکت سب کا ہووے ہے۔۔"
کوثر جی لپک کر بیٹی کے کمرے کی طرف بڑھیں۔ جاتے جاتے تپائی سے دور کی نظرکا چشمہ بھی اٹھا لے گئیں۔۔ بیٹیوں کے کمرے میں جاتے ہی اِدھر اُدھر نگاہ کیے بغیر کھلی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئیں اور اشتیاق سے آسمان کی طرف دیکھنے لگیں۔ آسمان اتناقریب لگ رہا تھا کہ ہاتھ بڑھا کے چھو لُو۔۔ رات کی آمد آمد تھی۔۔اِکا دُکا تارے نکلتے نظر آ رہے تھے لیکن چاند ندارد۔۔
"بیٹی چاند کس کونے ماں نکلا ہے۔۔؟ اوپر والے کونا ماں یا نیچے والے ماں۔۔ اور دائیں طرف نکلا ہے کہ بائیں ماں؟ اِدھر تو دور دور تک نظرنہ آؤے۔۔ تم پتہ نئیں کس چاند کو دیکھ لیا۔۔ یا کسی چندیا کو؟ " یہ کہہ کر انھوں نے آس پاس کی بلڈنگ پر نظر کی۔۔
بیٹی نے آگے بڑھ کر آسماں پہ ایک محدود سے حصے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو کوثر بیگ کو نیا چاند نظر آ ہی گیا۔۔ خوشی کی ایک پُر مسرت لہر اندر دوڑی۔۔ فورا خضو ع و خشوع سے ہاتھ پھیلا کر دعا مانگی ۔۔ پہلے گھر والوں، سعودی عرب والے بہن بھائیوں، عزیز اقرباء کے لیے، پھر کویت، دبئی، شارجہ ، قطر ، انڈیا، پاکستان،انگلینڈ، جرمنی، کینیڈا،آسٹریلیا، ملائشیا، چین، امریکہ، افریقہ کے احباب اورسب بہنوں بھائیوں کو یاد کر کے فردا فردا اپنی دعا میں شامل کیا۔۔ دعا کو اختتامی موڑ دے کر انھوں نے آمین کی صورت چہرے پہ ہاتھ پھیرے اور باہر کا منظر دیکھنے لگیں۔۔
ان کا گھر ایک ہائی بلڈنگ میں تھا۔ دور دور تک منظر واضح ہو رہا تھا۔ اوپر ۔۔ آسمان اور تارے ۔۔ نیچے زمین پہ روشنیوں سے جھلملاتی روڈ، لوگ، ٹریفک ،گاڑیاں ( یقینا ان گاڑیوں میں کہیں نہ کہیں صاحب کی گاڑی بھی ہو گی)
تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے
ہائے ہم ہیں دیوانے تیرے نام کے
"ماء، کہاں کھو گئیں ۔۔؟ " بیٹی نے کوثر بیگ کو سوچتے پا کر ان کابازو ہلایا۔۔
"کچھ نہیں بیٹی، تمہارے باوا کو یاد کر رہی تھی۔۔"
کوثر بیگ نے جواب دیا اور کھڑکی سے ہٹ گئیں۔۔

۔۔ کائنات بشیر، جرمنی ۔۔

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53255 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More