انسان نما درندے

اقوام کی کامیابی و کامرانی کڑے امتحان میں پنہا ہے،مگر ہماری قوم ایسی ہے جس کے امتحانات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اور دوسرے مسائل یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ لوگوں کی اموات عام فہم ہو چکی ہیں۔ موجودہ حکومت نےٍ لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھائے عوام کو بیوقوف بنایا ۔امن و امان کو بہتر کرنے کے لئے کوشش کرنے کا شور تو کیا گیا ،مگر ملکی حالات اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔فوج نے اپنی تمام تر کوششیں کی ہیں لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے،جن کی توقع کی جا رہی تھی۔معیشت کو مستحکم کرنے کے دعوے دار حکمران کیا اس بات سے غافل ہیں کہ کچھ عرصے سے ترقی و سرمایہ کاری کے اشاریئے مستقل طور پر توازن کی نچلی سطح پر آکر رک گئے ہیں۔ ہم اصلاحات کرنے کے دعوے تو کرتے ہیں مگر ہماری ترجیحات غلط سمت پر ہیں۔ہم نے اپنے محدود وسائل کو غیر مؤثر پروگراموں میں استعمال کر کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔

کراچی میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا۔ہم کسی بھی کوتاہی کی ذمہ داری اپنے کندھے پر کیوں لیں ؟ صرف یہ کہنا کافی ہے کہ’’ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔ موسم اس قدر گرم تھا، جس کی وجہ سے ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔وزراء کا کہنا ہے کہ بجلی ، پانی نہ ہونے کی وجہ سے اموات نہیں ہوئی ہیں،حالانکہ حکمران اس آفت میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم ہمیشہ معاملات کی سنگینی کو اُس وقت محسوس کرتے ہیں ،جب کوئی بڑا نقصان ہو جاتاہے۔ کراچی میں مسئلہ صرف بجلی کی بندش کا نہیں تھا،بلکہ بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی سپلائی نہ ہونا ، شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ بنی ہے۔ یہ بات حکمرانوں سے پوشیدہ نہیں ، مگر کیا کریں ، لوٹ مار کے ڈالروں کے انبار نے ان سے احساسِ ذمہ داری نا پید کر دی ہے۔

ملک میں عوام کو بتائے بغیر 18سے 20گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی اذیت دی جا تی ہے اور جب چاہیں اس میں کمی کر دی جاتی ہے۔حکومت اس کی وجوہات جاننے یا بتانے کی زحمت نہیں کرتی اور نہ ہی اس معاملے پر مفادات حاصل کرنے والوں کو سزا ہی دی جاتی ہے۔ کیا حکمران طبقہ فیول مافیا کی سرگرمیوں سے ابھی تک نا آشنا ہے ؟اسی مافیاازم کی وجہ سے کئی انسانوں کی جانیں گئی ہیں۔ہمارے اداروں میں انسان نہیں بلکہ انسان نما درندے بیٹھے ہیں ۔جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔کیونکہ حصہ اوپر تک جاتا ہے ، کیسے ممکن ہے کہ انہیں شکنجے میں لایا جائے۔

کراچی میں ہلاکتوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی نا اہلی پر بھی ہے۔ وی آئی پی علاقوِں میں بجلی ، پانی کی فراوانی اور دوسرے علاقوں میں ناپید ہونا ، جب مریض تشویشی حالت میں ہسپتالوں میں پہنچے تو وہاں کی ناقص کارکردگی نے سندھ حکومت کا رہا سہا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ہسپتالوں میں سسکتے بلکتے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جہاں سہولیات کے فقدان نے بہت سی جانیں ،جو بچائی جا سکتی تھیں ،ضائع کی ہیں۔اگر پنجاب حکومت کی بات کریں تو وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ڈینگی جیسے موذی مرض کو اتنی جلدی قابو میں کرنا آسان ہدف نہ تھا،مگر انہوں نے ذاتی کاوشوں سے اُس پر نہ صرف قابو پایا بلکہ آئندہ کے لئے بھی تمام ہسپتالوں کو اَپ گریڈ کیا۔اسی معاملے میں کسی کی بھی زرا سی کوتاہی کو برداشت نہیں کیا گیا۔ کئی افسران کو سزائیں دی گئی ۔لوگوں کو ڈینگی کے بارے میں ممکنہ طور پر باشعور کیا گیا۔ ہسپتالوں میں ضرورت کی تمام سہولیات میسر کی گئی ،مگر اس کے برعکس سندھ حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ انہیں صرف پیسے بنانے کا جنون ہے اور وہ اسی میں مگن ہیں۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس معاملے میں غیر جانبدار اور کسی سیاسی دباؤ کے بغیر تحقیق کرنی چاہئے اور جو لوگ اس غفلت میں ملوث ہیں ،انہیں کفرِ کردار تک پہنچانا چاہئے۔ اپوزیشن پارٹیز کے نمائندوں کو حکومت پر بے جا تنقید کی بجائے اصل حقائق پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ایسے واقعات پر سیاست چمکانے کی بجائے آئندہ اس کا تدارک کرنا ضروری ہے، کیونکہ ان کی کوتاہیوں سے نقصان صرف معصوم اور غریب عوام کا ہی ہوتا ہے،جنہوں نے بہت شوق سے آپ لوگوں کو ووٹ دے کر اپنا حکمران بنایا ہے،مگر ان کے ساتھ ہمیشہ غلط سلوک کیا گیا ہے۔ ان کی جان و مال کی حفاظت نہیں کی جا رہی ۔انہیں لسانیت کے نام پر ختم کیا گیا۔معاشی بدحالی سے ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔غریب، غریب تر اور امیر ،امیر ترین ہوتا جا رہا ہے۔ لوٹ مار کو روکنے کی بجائے اپنی حکومت بچانے کے لئے بڑے فیصلے لیتے ہوئے حکومت ہچکچا رہی ہے۔ جب کسی مسئلے پر کوئی ایکشن ہونے لگتا ہے۔چور شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔سیاسی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا ساتھ دیں ورنہ آنے والے وقتوں میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے ۔ایسی دھمکیاں شروع ہو جاتیں ہیں۔یہ کب تک چلے گا؟کوئی کسی کے خلاف کچھ بھی کہہ دیتا ہے،اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔کچھ دن گرما گرمی رہتی ہے اور پھر اس واقعہ کو بھلا دیا جاتا ہے۔کوئی معذرت کر لیتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ میرے کہنے کا مطلب یہ نہ تھا۔آج عوام باشعور ہو چکی ہے ،اسے حقیقت کا باخوبی اندازہ ہے،مگر عوام کو معاشی بدحالی میں اس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہی۔وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کی جستجو سے نکل نہیں پا رہی ،اسی وجہ سے یہ درندہ صفت طبقہ اپنی من مرضی کر رہا ہے ،لیکن یہ زیادہ دن تک نہیں چلے گا۔اس لئے نوشہ دیوار پر صاف لکھا پڑھ لینا چاہئے۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.