ہفتہ ٦ مارچ ٢٠١٠ کے روزنامہ جنگ
کے اداریوں میں میں نزیر ناجی صاحب نے ایک تحریر بنام “جنگ میں سانحے بھی
ہوتے ہیں “ لکھی جس میں سے ایک حصہ حاضر ہے۔ مزکورہ تحریر میں سے اقتباسات
پیش خدمت ہیں جن سے حقائق کے سمجھنے میں آسانی پیدا ہونے کی امید ہے۔
آغاز تحریر
“فوج کے پاس پولیس کی طرح تحقیقات کی مہلت اور سہولت نہیں ہوتی کہ ملزموں
کے بارے میں مخبروں یا تحقیقاتی افسروں کے زریعے، پہلے معلومات حاصل کرے یا
انہیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد تفتیش کرے اور اس کے بعد انہیں عدالت سے
سزا دلوائے۔ فوج کا واسطہ ایسے دشمن سے ہوتا ہے جو محاز جنگ پر ہو یا دہشت
گردوں کی صورت میں اپنے ہی شہروں اور آبادیوں میں چھپا ہو۔ اسے زندگی یا
موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ آگے بڑھ کر دشمن پر
غالب نہیں آتی، تو دشمن آگے بڑھ کا اسے نقصان پہنچا دیتا ہے۔ اس کھیل میں
سوچنے سمجھنے کی مہلت کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاک فوج نے
قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی سے طویل عرصے تک گریز کیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا شدید دباؤ برداشت کیا، مگر دہشت گردوں کے
خلاف کاروائی شروع نہیں کی۔ میں نے خود جنرل اشفاق پرویز کیانی کو کاروائی
سے پہلے یہ کہتے سنا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے آبادیوں اور گھروں کے اندر
ہیں۔ اگر ہم کاروائی کرتے ہیں، تو بے گناہوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ پاک فوج
کے اس تامل اور ہچکچاہٹ کے نتیجے میں عالمی طاقتوں کی طرف سے الزام عائد
ہونے لگا کہ فوج دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(آگے تحریر کرتے ہیں)
سوات، جنوبی وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں فوجی کاروائی حتٰی الامکان
احتیاط سے کی گئی۔ اس وجہ سے فوج کو نقصان بھی زیادہ ہوا۔ اگر بے گناہ
شہریوں کا تحفظ مطلوب نہ ہوتا، تو دہشت گردوں کو بڑی تعداد میں باہر نکلنے
کے مواقع نہیں مل سکتے تھے۔ انہیں یہ مواقع اسی باعث ملے کہ فوج نے ہر حملے
کا پہلے سے اعلان کر دیا تاکہ پرامن شہری وہاں سے بچ نکلیں اور جن شہریوں
کو دہشت گردوں نے یرغمالی بنا کر رکھ لیا، انہیں بچانے کے لئے بھی ہر
آپریشن کے دوران حد درجہ احتیاط کی گئی۔ لیکن جنگ بہرحال جنگ ہوتی ہے۔
گوریلا جنگ لڑنے والے ہمیشہ بے گناہ لوگوں کو اپنی ڈھال بناتے ہیں۔ ان
لوگوں نے عورتوں اور بچوں کو ہتھیار کے طور سے استعمال کیا۔ یہ جہاں زیر
زمین اپنے اڈے قائم کرتے، وہیں زمین کے اوپر ایک دو کمرے تعمیر کرے کے صحن
بنا دیتے اور اس صحن میں بچے اور عورتیں کام کرتے اور کھیلتے دکھائی دیتے
اور جن ان کا ٹھکانا اڑا دیا جاتا تو یہ دہائی دینے لگتے کہ بے گناہوں کو
مار دیا اور اپنے ساتھیوں کی لاشیں غائب کردیتے۔ بڑے عرصے تک میڈیا کے
زریعے یہ ہتھیار استعمال کیا جاتا رہ۔
سرحد میں جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر جناب ہارون الرشید کا معاملہ اسی
نوعیت کا ہے۔ بے شک وہ پرامن شہری ہیں۔ لیکن اگر ان کے گھر میں اسلحہ موجود
تھا یا وہاں دہشت گرد پناہ لیتے تھے، تو فوج کے سامنے کیا راستہ رہ گیا تھا
؟ جماعت اسلامی پراپیگنڈے کے کھیل میں بے حد مہارت رکھتی ہے، جب اس نے خود
مشرقی پاکستان کے پرامن اور بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام میں یحیٰی خان کے
جوانوں کا ساتھ دیا، وہ تب بھی اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتی تھی۔ جب اس نے
پاکستان کی یونیورسیٹتوں میں تشدد کا کھیل شروع کیا، وہ تب بھی اپنے آپ کو
امن پسند جماعت کہتی تھی۔ افغان جنگ کے دوران جب خوست پر مسلح گروہوں نے
قبضہ کیا، تو پرامن اور بے گناہ افغان شہریوں کا خون بھی بہا تھا۔ مگر اس
وقت جماعت نے اسے جائز سمجھا اور امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد صاحب نے
کندے پر کلاشنکوف لٹکا کر اس شہر کو فاتحانہ انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی
تصویر شائع کرائی۔ کیا اس جنگ میں بے گناہوں کا خون نہیں بہتا تھا ؟ کیا
کوئی بھی ایسی جنگ ہوتی ہے جس میں شہروں کو میدان جنگ بنایا جائے اور وہاں
بے گناہ شہریوں کا نقصان نہ ہو؟ ہماری بستیوں میں دہشت گردوں نے ٹھکانے
بنائے۔ پاکستان خاموشی سے اپنے شہروں کو اس لئے برباد ہونے نہیں دیکھ سکھتا
تھا کہ دشمن ہماری بستیوں میں چھپا ہے۔ جنوبی وزیرستان کی جنگ شروع ہونے سے
پہلے فوج کی طرف سے بہت دنوں تک یہ اطلاعات پھیلائی گئیں کہ وہاں کاروائی
شروع ہونے والی ہے۔ اس قبل از وقت اعلان پر اعتراضات اٹھے تھے کہ دہشت
گردوں کو پہلے ہوشیار کر دیا گیا ہے تاکہ وہ بچ نکلیں۔ عام شہری بھی ان
اطلاعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوگئے۔ جماعت
اسلامی کے سابق امیر ایک تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر ہونے کے باوجود فوج کی
جانب سے عام کی گئی ان اطلاعات سے کیوں بے خبر رہے ؟ اور اگر انہین خبر
تھی، تو انہوں نے اپنے خاندان کے بے گناہ افراد کو محفوظ مقامات میں منتقل
کیوں نہ کیا ؟ فوج کے افسروں اور جوانوں کی جناب ہارون الرشید سے کیا دشمنی
ہے
خاص طور پر ان کی والدہ محترمہ اور بھتیجی سے انہیں کیا شکایت ہوسکتی تھی؟
اسے دانستہ کاروائی تو کسی طور پر قرار نہیں دیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ
غلطی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک ایسے علاقے میں جہاں فوجی کاروائی ہو رہی ہو،
وہاں پر کسی بھی پر امن شہری کی موجودگی زندگی کے لئے خطرناک ہوتی ہے۔
دوران جنگ فوج کے پاس تفصیل جاننے کی مہلت نہیں ہوتی۔ اسے جہاں سے بھی اپنے
اوپر حملے کا خطرہ ہوگا، وہاں کاروائی میں پہل ضرور کی جائے گی اور اگر
کاروائی ہو رہی ہو تو آگے بڑھ کا وار کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔ ہارون الرشید
صاحب کا صدمہ واجد ہے، مگر انہیں ان حالات پر بھی نظر رکھنا چاہیے جن میں
یہ سانحہ رونما ہوا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد
سیاسی جماعت ہے، جو ہمیشہ فوج کی اتحادی رہی اور جس کے لئے فوج کے حلقوں
میں پرجوش خیر سگالی پائی جاتی ہے۔ یحیٰی خان سے لے کر پرویز مشرف تک جماعت
اسلامی نے ہر فوجی حکمران کا ساتھ دیا۔ پرویز مشرف کی سترھویں ترمیم جماعت
اسلامی کی مدد کے بغیر منظور نہیں ہوسکتی تھی۔ ایسے گہرے رشتوں میں کوئی
جان بوجھ کر کسی کے بے گناہ اہل خاندان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔“
اختتام تحریر
مندرجہ بالا تحریر سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ہوبہو جو دہشت گردوں کا طریقہ
واردات ہوتا ہے وہی ہارون الرشید کی والدہ اور رشتے داروں کے ساتھ رونما
ہوا اور شائد مرحومین کو اس بات کی اجازت ہی نا دی گئی کہ وہ غیر محفوظ جگہ
چھوڑ جاتے اور اسطرح ہارون الرشید نے شائد اپنے ساتھیوں سے وفاداری نبھائی
ناکہ اپنے رشتہ داروں سے رشتہ داری۔ وگرنہ ہارون الرشید کے رشتے دار
مرحومین بھی ہارون الرشید کی طرح جان بچانے کے لیے محفوظ مقام پر ہوتے۔ فوج
نے کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ حملہ کیا تھا وگرنہ فوج کو اگر یہ
معلومات تھیں کہ وہاں کچھ نہیں ہے اور وہ جگہوں دہشت گردوں کےاستعمال میں
نہیں ہے یا وہاں سے افواج پاکستان پر کسی قسم کے حملے کا کوئی امکان نہیں
تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ افواج اپنے وسائل یعنی اپنا بارود اس طرح
بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے پر ضائع کرتے کہ جس کے نتیجے میں صرف بے گناہ
عوام الناس کا ہی نقصان ہوتا۔ یعنی یہ بات واضع ہے کہ افواج اپنے طور پر اس
بات سے بالکل آگاہ تھیں اور ان کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ وہ کیا
کرنے جارہے ہیں۔
اور پروپیگنڈہ کرنے والے تو ظاہر ہے اپنا ہی کام کریں گے جیسا کہ لال مسجد
کے معاملے میں پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا کہ وہاں کیمیکل بم اور فاسفورس بم
برسائے گئے ایک عمارت پر ایسے ہولناک بم برسائے جاتے رہے اور اردگرد میلوں
کا علاقہ بالکل محفوظ رہا اور لال مسجد کی دیواروں سے چمتے کھڑے پرنٹ اور
الیکٹرونک میڈیا والوں کو کھانسی تک نہیں ہوئی (اللہ ہی جانے حقائق)
غور طلب امر یہ ہے کہ اگر فوج نے یہ کاروائی لاعلمی یا کم علمی کی بنیاد پر
کی ہوتی تو یقیناً فوج اس واقعے کے بعد علی الاعلان ہارون الرشید کے گھر کے
بارے میں یہ پریس کانفرنس نا کرتی کہ ان کا گھر دہشت گرد کاروائیوں میں
استعمال ہوتا تھا اور نا یہ بیان جاری کرنے کی ضرورت پیش آتی کہ ہارون
الرشید مفرور ہیں اور ان کی گرفتاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اب ہم اس دوراہے پر ہیں کہ یا تو افواج پاکستان کی کھلی پریس کانفرنس پر
یقین و اعتماد کریں یا پھر مشہور و معروف پروپیگنڈہ پارٹی کے پروپیگنڈے پر
! |