یورپ کے لیے بڑا خطرہ!
(عابد محمود عزام, karachi)
یورپ اور امریکا میں ایک جملہ
اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد
مسلمان ہیں۔ یہ جملہ یورپ و امریکا کی جانب سے مسلم دشمنی کا کھلا اظہار
اور حقائق کے منافی ہے۔ چند مسلم انتہا پسندوں کی آڑ میں اسلام کو دہشت
گردی سے نتھی کر کے مسلمان کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کروائی
گئی اور خود یورپ میں مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود ہر دہشت گردی
کو مسلمانوں کے سر تھوپ کر صرف مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے،
جبکہ حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خود امریکی اخبار ”واشنگٹن
پوسٹ“ میں شائع ہونے والی ”نیو امریکا واشنگٹن“ کی ایک ریسرچ رپورٹ نے
مسلمانوں پر دھرے جانے والے الزامات کا پردہ چاک کرتے ہوئے غیرمسلموں کو سب
سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ بتلاتی ہے کہ نیویارک اور پینٹاگون پر
القاعدہ کے حملے سے لے کر اب تک سفید فام بالادست اور حکومت مخالف عناصر
اور دیگر غیر مسلموں نے 19حملے کیے ، جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم جہادیوں
نے 7حملے کیے، جن میں صرف 26 شہری ہلاک ہوئے۔ امریکا بھر میں تعینات قانون
نافذ کرنے والے ادارے بتاتے ہیں کہ ملک میں مسلم انتہا پسندوں کی جانب سے
درپیش خطرات کے مقابلے میں مقامی رائٹ ونگ کے انتہا پسندوں سے کہیں زیادہ
خطرات درپیش ہیں۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے محقق چارلس کرزمن اورڈیوک
یونیورسٹی کے ڈیوڈ شائنزر کے ایک سروے میں ملک بھر کے 382 پولیس افسران اور
شیرف سے پوچھا گیا کہ انھیں درپیش تین بڑے خطرات کون سے ہیں؟ اس کے جواب
میں74 فیصد نے حکومت مخالف متشدد عناصر کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا، جبکہ
39 فیصد نے القا عدہ سے متاثرہ لوگوں کے تشدد کو خطرناک کہا۔
یورپ میں مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی کے واقعات کی تعداد انتہائی کم ہے،
جبکہ غیرمسلم انتہا پسندامریکا و یورپ کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ یورپ میں اسقاط
حمل سے متعلق ہر پانچ طبی اداروں میں سے ایک پر انتہاپسند عیسائیوں کی جانب
سے حملہ ہونا معمول کی بات ہے اور غیر مسلموں کے ہاتھوں روزانہ دسیوں
امریکی موت کی بھینٹ چڑھتے ہیں، لیکن اس کو زیادہ ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا۔
یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول کے مطابق یورپ میں
گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے مرتکب مسلمانوں کی
تعداد صرف 2 فیصد ہے، جب کہ دہشت گردی کے زیادہ تر حملے علیحدگی پسند
گروپوں کی جانب سے کیے گئے۔ 2013ءمیں یورپ میں 152 دہشت گردی کے حملے ہوئے،
جن میں سے صرف 2 کا محرک مذہب تھا، جب کہ 84 حملے لسانی قوم پرست یا
علیحدگی پسند نظریات کے حامل افراد کی جانب سے کیے گئے تھے، ان میں فرانس
کے ایف ایل این سی (جزیرہ کورسیکا کی آزادی کا حامی گروپ) جیسے گروپ شامل
تھے۔ 2013ءکے اواخر میں یونان میں بائیں بازو کے عسکریت پسند عوامی انقلابی
فورسز نامی گروپ نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے دو ارکان کو
قتل کر دیا تھا، جب کہ اٹلی میں ایک انارکسسٹ گروپ ایف اے آئی نے دہشت گردی
کے متعدد حملے کیے تھے۔ 2011ءمیں یورپ میں ہونے والے ایک بدترین حملے میں
اینڈرس بریوک نے ناروے میں 77 افراد کو اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے
گھاٹ اتار دیا تھا۔ وہ مسلم دشمن، تارکین وطن مخالف اور عیسائی یورپ کے
حامی نظریے کے ایجنڈے کا علم بردار تھا۔
امریکا میں بھی مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی شرح یورپ جتنی ہی کم ہے۔
ایف بی آئی نے 1980ءسے 2005ءتک امریکی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی
کارروائیوں کا مطالعاتی جائزہ لیا، جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ دہشتگردی
کے 94 فیصد حملوں کا ارتکاب غیر مسلموں نے کیا تھا۔ 42 فیصد حملے لاطینیوں
سے متعلق گروپوں نے کیے تھے، جب کہ 24 فیصد حملوں میں انتہاپسند بائیں بازو
کے کارکن ملوث تھے۔ 2014ءمیں شمالی کیرولینا کی یونیورسٹی کی جانب سے کیے
گئے ایک مطالعاتی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ نائن الیون کے حملوں کے
بعد سے مسلمانوں سے متعلق دہشتگردی نے 37 امریکیوں کی جانیں لیں، جب کہ اسی
مدت کے دران ایک لاکھ 90 ہزار سے زاید امریکی قتل کیے گئے۔ ٹرائی اینگل
سینٹر آن ٹیررازم اینڈ ہوم سیکورٹی کے مطابق نائن الیون کے بعد سے سیاسی
تشدد اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے نتیجے میں 300 امریکی مارے گئے، جن میں
صرف 33 امریکی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ گزشتہ دنوں چارلسٹن میں 9
افریقیوں کو چرچ میں گھس کر قتل کرنا بھی غیر مسلم انتہا پسندی کی واضح
مثال ہے اور اس قسم کے واقعات امریکا میں پیش آتے رہتے ہیں۔ چیپل ہل پر
واقع یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے پروفیسر چارلس کرزمان کا کہنا ہے کہ
زیادہ تر تخمینوں کے مطابق امریکا میں 17 سے 70 لاکھ کے درمیان امریکی
مسلمان ہیں، لیکن ان کی جانب سے دہشت گردی کی شرح فی 10 لاکھ میں صرف 10 ہے
اورنائن الیون کے بعد سے ایک لاکھ 80 ہزار امریکیوں کے قتل میں اسلامی دہشت
گردی کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ڈیٹا بیس جائزے پر مبنی دی گلوبل
ٹیررازم کی ایک رپورٹ کے مطابق 1970ءاور 2012ءکے درمیان امریکی سرزمین پر
ہونیوالے کل دہشتگردی کے حملوں میں سے 2.5 فیصد حملے مسلمانوں کی جانب سے
کیے گئے تھے۔ 4.9 فیصد حملے یہودی گروپوں مثلاً جیوش آرمڈ ریزسٹنس، دی جیوش
ڈیفنس لیگ، جیوش ایکشن موومنٹ، یونائیٹڈ جیوش انڈر گراﺅنڈ اور تھنڈر آف
زیون کی جانب سے کیے گئے تھے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے لون واچ گروپ کی جانب سے
ایف بی آئی اے کے اعداد و شمار پر مبنی معلومات کے مطابق امریکا میں
دہشتگردی کی سرگرمیوں میں مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں کا ہاتھ رہا ہے۔
انتہاپسند یہودیوں نے دہشتگردی کی سرگرمیوں کا ارتکاب اپنے مذہب کے نام پر
کیا ہے۔
ان تمام حقائق کے بعد دنیا کے سامنے یہ واضح ہونا چاہیے کہ کرہ ارض کے امن
و استحکام کو صرف انتہا پسندمسلمانوں سے ہی خطرہ لاحق نہیں، بلکہ اس میں ہر
قوم، قبیلے اور مذہب سے وابستہ انتہا پسند عناصر برابر کے شریک ہیں، لیکن
اس کے باوجود یورپ میں ہونے والے دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام
مسلمانوں پر سر تھوپ دیا جاتا ہے اور یورپی و امریکی ذرائع ابلاغ غیر مسلم
افراد اور گروپوں کی جانب سے کیے جانے والے دہشت گردی کے حملوں کو اس کوریج
کا عشر عشیر بھی نہیں دیتے، جس کا مظاہرہ وہ مسلمانوں سے منسلک دہشتگردی کے
واقعات کے وقت کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف قوانین کو سخت
سے سخت تر کردیا جاتا ہے۔ مغرب میں دیگر دہشتگرد گروپوں کے مقابلے میں
مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، لیکن مغرب
میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی قوت کے خوف سے مسلمانوں کے خلاف خوفناک
پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا اشاعت اسلام کے کام میں رخنہ اندازی
کی غرض سے مقامی افراد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکانے کے
مذموم مقاصد کے تحت چھوٹے سے واقعے کو بھی بنیاد بنا کر مسلمانوں کے پیچھے
لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے اور اس قدر نفرت انگیز اور زہریلی مہم چلائی جاتی
ہے کہ زیادہ تر عوام اس کے سحر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کو قصوروار تصور
کرنے لگتے ہیں۔ |
|