کراچی کا موسم بدل رہا ہے

کل ایک چینل پر یہ دلچسپ خبر آرہی تھی ہیٹ سٹروک کے جو مریض ہسپتال میں داخل ہیں وہ ٹھیک ہونے کے باوجود گھر جانے کو آمادہ نہیں ان کاکہنا تھا کہ یہاں ہم ہر وقت ٹھنڈک میں ہیں پینے کو ٹھنڈا پانی مل رہا ہے گھر جائیں گے تو پھر طبیعت خراب ہو جائے گی ۔در اصل لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ وہ گھر گئے اور طبیعت میں پھر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو دوبارہ یہاں داخلہ ملے یا نہ ملے پھر ہم کہاں مارے مارے پھریں گے ۔ویسے تو کراچی کا سیاسی موسم بھی بدل رہا ہے لیکن واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اس پر فی الحال کوئی بات نہیں کی جاسکتی ابھی میرے موبائل پر ایک برقی پیغام آیا ہے کہ بہت جلد گورنر راج آرہا ہے یہ ساری خبریں ایک ساتھ چل رہی ہیں بی بی سی کی رپورٹ نے الگ تہلکہ مچایا ہوا ہے ،لیکن اس وقت ہم کراچی کے حقیقی موسم کے حوالے سے بات کریں گے -

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مہاجروں کی ایک بہت بڑی تعداد کی کراچی کی طرف رخ کرنے کی جو اور بہت ساری وجوہات تھیں اس میں ایک اہم وجہ کراچی کا معتدل موسم بھی تھا ۔ملک کی بڑی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کی آمد اس شہر کی طرف زیادہ ہوئی مولانا عبدالقدوس بہاری نے سمندر کے قریب کا علاقہ اپنے لیے پسند کیا تھا اور وہاں پر بہار کالونی بسائی یہ الگ بات ہے کہ شروع کے ادوار میں پے درپے سیلاب کی وجہ سے اس کی اہمیت متاثر ہوئی ،جہاں بندرگاہ ہوتی ہے وہاں روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔جہاں تک معتدل موسم کا تعلق ہے ہم بھی پیدائشی کراچی والے ہونے کی وجہ سے اس بات کے شاہد ہیں کہ کراچی میں ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں گرمیوں میں نہ بہت زیادہ شدت سے گرمی اور موسم سرما میں نہ بہت زیادہ شدت سے سردی پڑتی ہے بارشیں بھی بہت زیادہ نہیں ہوتیں ۔

اسی درمیانے موسم کی وجہ سے یہاں پر اقتصادی ترقی کی رفتار بھی اور علاقوں کی بہ نسبت زیادہ رہی اور اسی وجہ سے اندرون ملک سے بھی لوگوں کی آمد بھی زیادہ تر کراچی کی طرف رہی ۔بے ہنگم کچی بستیاں پھیلتی چلی گئیں جس سے مسائل بھی بڑھتے رہے ۔یہ پہلی بار ایسا ہوا کہ اتنی شدید گرمی کی لہر آئی کہ ہیٹ اسٹروک سے چٹ پٹ لوگوں کی اموات ہونے لگیں ۔ابتدئی پانچ چھ روزے موسم کی شدت کی وجہ سے بہت سخت تھے ہم بھی پچھلے پچپن سال سے اسی شہر میں رمضان گزار رہے ہیں ایسی شدید گرمی پہلے نہیں دیکھی ۔ایک زمانے میں تو ہمارے گھروں میں الیکٹرک بھی نہیں تھی گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہاتھ کے پنکھوں کے علاوہ ،کھلے آنگن دالان اور اکثر گھروں میں نیم کے درخت بھی ہوتے تھے اسی ماحول میں روزے بھی رکھے جاتے تھے ۔جناح ہسپتال کی انچارج ڈاکٹر سیمیں جمالی کا یہ کہنا کسی حد تک درست تھا کہ کراچی والے چونکہ اس طرح کی شدید گرمی کے موسم کے عادی نہیں ہیں اس لیے یہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی ورنہ اندرون سندھ تو بچپن سے لوگ اس شدید موسم کے عادی ہو تے ہیں لیکن اس کے باوجود اکا دکا اموات تو وہاں بھی ہو جاتی ہیں لیکن کراچی میں اتنی تیزی سے اموات کی شرح میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ بھی ہے ۔

اور وہ اہم وجہ بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے جس کی وجہ سے شرح اموات میں بے پناہ اضافہ ہوا پہلے جب ہمارے گھروں میں بجلی نہیں تھی تو گھر کشادہ تھے لیاقت آباد میں ایک زمانے میں 90گز کے مکان میں ایک خاندان رہتا تھا اب اسی 90گز کے مکان میں 11خاندان رہتے ہیں ظاہر ہے کہ 45,45گز کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس بن گئے جہاں بجلی کے بغیر گزارہ ناممکن ہے دوسری طرف جب تک کے ای ایس سی تھی عام لوگوں کی شکایات تو تھیں لیکن آج کے مقابلے میں کچھ کم تھیں جب اس کو پرائیویٹایز کیا گیا تو اس کی کارکردگی پہلے سے گھٹ گئی کہ اس ادارے کی توجہ اپنے منافع کی طرف مرکوز رہی لوگوں کے مسائل کی طرف کم تھی اب جو رمضان کے شروع میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا تو اس کے بھی فیڈر اورپی ایم ٹیز اڑنے لگیں کے الیکٹرک کا پنا فیوز اڑ گیا ۔

اب اس سال ایک تجربہ ہو گیا کہ کراچی میں ایسی بھی گرمی پڑ سکتی ہے اس لیے اب اگر ایک طرف عام شہری ذہنی طور سے تیا ر ہو ں گے تو دوسری طرف ہماری حکومت بالخصوص متعلقہ اداروں کو بھی نئے انداز سے منصوبہ بندی کرنا ہو ی کے الیکٹرک کا نظام بھی بہتر کرنا ہو گا ہمارے بہت سارے سماجی ادارے جیسے ایدھی سنٹر ،سیلانی ویلفئر ٹرسٹ ،عالمگیر ویلفئر ٹرسٹ ،چھیپا ایمبولنس اور اسی طرح کے ادارے ان حالات میں کچھ چیزوں کا خصوصی اہتمام کریں خصوصی ایمبولنس سروسز کا آغازہو جو فری خدمات انجام دیں اسی طرح مختلف مقامات پر اینٹی ہیٹ اسٹروک ہاؤسز بنائیں جائیں جہاں ائیر کنڈیشن ہال ہو اس میں کچھ بیڈز موجود ہوں ٹھنڈا پانی ابتدائی طبی امداد کے لوازمات کے ساتھ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی ہو،ایسے عارضی مراکز بھی قائم کیے جاسکتے ہیں ،راہ چلتے بھی لوگوں کی طبیعتیں خراب ہو جاتی ہیں انھیں فوری طبی مدد دی جاسکتی ہے ،یہ ادارے ان خصوصی حالات میں برف کی سپلائی کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اسی طرح شہر میں سرد خانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی ضرورت ہے اس طرف الخدمت ویلفئر سوسائٹی ،خدمت خلق فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

اس پر مزید غور خوض کیا جاسکتا ہے اس دفعہ جو جو پریشانیاں لوگو ں کو پیش آئیں ہیں ان کی فہرست بنا کر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر خدا نہ خواستہ آئندہ شہر کراچی میں اس طرح کی کوئی آفت ناگہانی نازل ہو تو ہم پھر کیا کر سکتے ہیں اسی طرح کچھ سماجی ادارے قبروں کی تیاری کا کام بھی کر سکتے ہیں کسی بھی آزمائش کا مقابلہ اجتماعی دانش سے کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے کراچی دل والوں کا شہر ہے ایک دوسرے کی خبر گیری رکھنے والا شہر ہے بس اگر ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ ایسی صورتحال دوبارہ نہ پیدا ہو تو اس کے لیے ہمیں شہر کراچی میں کے الیکٹرک کا نظام بہتر کرنا ہوگا اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.