پاکستان کھپے

منہ سے ادا کیئے ہوئے الفاظ اورکمان سے نکلاہوا تیرواپس نہیں آسکتے ۔انسان خاموش رہے تو چھپارہتاہے‘ جب بولتاہے تواسکے اندر کی شخصیت واضح ہوجاتی ہے۔سیاست دانوں کے بعض بیانات ایسے ہوتے ہیں جن کی وہ اکثرتردیددچھپواتے پھرتے ہیں ‘تاویلیں پیش کرتے ہیں اوربعض ایساسجدہ سہوکرتے ہیں کہ پھرسر ہی نہیں اُٹھاتے۔سابق صدرمحترم زرداری کے بیان سے اگلے روز رات کے کھانے کے وقت ایک فوجی سے ہم نے پوچھا کہ فوج اب کیا کرے گی ؟بولے۔’’اپناکام جاری رکھے گی۔‘‘بعد میں آنے والے لمحات نے اس کی بات کی تصدیق کی ۔یہ فقط جملہ یا پیشن گوئی نہیں بلکہ اس تسلسل کاحصہ ہے جو فوج نے ضرب ِعضب کے بعداپنارکھاہے۔سوچیئے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اسوقت فوج میں بطورادارہ مکمل ہم آہنگی ہے‘ان کے جرنیل نے انھیں ایسی سمت رواں کیاہے جہاں عزت وتوقیرہے ‘لوگ آنکھیں بچھاتے ہیں جبکہ سیاست کے کوچہ دشنام میں لیڈرکے بیان کے بعد‘ اکثرگیدڑبھبکیاں سننے کوملتی ہیں ‘بات کی عوامی تائید ہوجائے تو مورثی سیاستدان سینہ تان کے ذمہ داری قبول کرتاہے وگرنہ کہہ دیاجاتاہے کہ یہ بیان اس کارکن نے ذاتی حیثیت میں دیااوراگربیان ہی اعلی حضرت نے دیاہوتوپھرتاویلیں گھڑی جاتیں ہیں ‘ مٹی پاؤ انڈسٹری سے رابطہ کیا جاتاہے ‘کسی’’ یحی برمکی ‘‘جیسے سیاس ومدبرکی تلاش کی جاتی ہے جوکہ خواب ہی ہے کیونکہ ان جماعتوں میں توخوشامدیوں کی ہی جگہ بنتی ہے اگریہ ’’یحی برمکی‘‘جیسادوراندیش ‘فہم وفراست سے لبریز اورتدبرسے آشنابندہ مشیر رکھتیں توآآج نہ ملک کی ایسی حالت ہوتی اورنہ ہی ان کو اپنے الفاظ واپس لینے جیسی کربناک اذیت وہزیمت کاسامناکرناپڑتا۔

عوام کوسیلاب‘آندھی ‘طوفان ‘زلزے یاکسی بھی مشکلات کا شکار ہوتادیکھ کر آرمی ریاست کے حکم یادرخواست پر فورا میدان میں اُترجاتی ہے ‘اول تو محض کام ہی کرتی ہے اوراگرضرورت پڑے تو غمگساری کے الفاظ میں قوم کے ’’رستے زخموں ‘‘پرمرہم رکھتی ہے۔اسکے برعکس سیاسی جماعتیں چونکہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں بازی لے جانا چاہتی ہیں ‘لہذا بہت کچھ کہہ جاتی ہیں‘بسااوقات اقتدار ودولت کی ہوس میں ریاستی اداروں اورعوام کے خلاف ایسا معاندانہ رویہ اختیارکرتی ہیں کہ حیرت سے دیدے پھیل جاتے ہیں۔لوگ پیاس ‘حبس‘گرمی اورغیرمعیاری طبی سہولتوں کی وجہ سے فوت ہوئے اوربیان آیا کہ ’’کوئی حبس سے مرجائے تو حکومت اسکی ذمہ دار نہیں۔‘‘’’سمندری ہوائیں نہ چلیں تو ہم جواب دہ نہیں ۔‘‘سیدناعمرفاروق ؓفرماتے تھے کہ (مفہوم)فرات کے کنارے ایک کتابھی بھوکامرگیاتواسکاذمہ دارعمرؓ ہوگا۔سوچیئے کتنے وفاقی وصوبائی امراء جنازوں میں گئے‘تعزیت کی‘اورتدفین کے عمل میں عوام کی مدد کی ؟؟؟

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ محترم سابق صدرکے بیان کے بعد جن تلخیوں نے جنم لیاہے وہ اتنی آسانی سے ختم نہ ہوں گی لیکن جولوگ یہ اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ ’’ٹیک اوور‘‘ہوگاوہ شاید خیالی دنیامیں بستے ہیں کیونکہ آرمی جان چکی کہ اسکی اپنی توقیراورملکی فلاح اسی میں ہے کہ سول ادارے چلتے رہیں ۔پی پی پی سندھ میں جڑیں رکھنے والی ایک وفاق پسندجماعت ہے ‘جس کی بہرطورپاکستان کوضرورت ہے اوررہے گی۔مورثیت‘اقرباء پروری‘میرٹ کاقتل ‘دولت کی ہوس‘اورایسی بہت سی خرابیوں کی مرہون منت ہمیں کچھ ہی عرصئے بعد جمہوریت سے تعفن اُٹھتاہوا محسوس ہوتاہے مگر یہ تطہیرکا ایسا عمل ہے جس سے گزرے بنا ء چارہ نہیں اور آخری حل بھی سول ادارے ہی ہیں۔اسوقت وفاقی ادارے ریاست کے حکم پر جمہوریت سے جڑے ایسے ناسور کے آپریشن میں مصروف ہیں جو پاکستانی معیشت کی ’’شہ رگ‘‘میں ملوث ٹارگٹ کلنگ ‘بھتہ خوری اوردیگر قبیح جرائم کی بیک بون تصورکیئے جاتے ہیں‘اگرآج ان عناصرکونہ رونداگیااورسندھ حکومت نے رینجرکاکردارمحدودکرنے کی کوشش کی تواسکے نتائج سیاسی اورانتظامی طورپراچھے نہیں آئیں گے۔گورنرراج کی بازگشت ان کے گھرسے اُٹھے گی اوربہت کچھ ملیامیٹ ہونے کاخدشہ پیداہوجائے گا۔

سابق صدر ایک مفاہمت کی علامت ‘دھیمے مزاج اورمضبوط اعصابی شخصیت کے طورپرجانے جاتے ہیں لیکن17جون کی تقریرنے انکی شخصیت کو بُری طرح متاثرکیااورآپریشن کے دوران ایسے الفاظ کو عوامی حلقے ’’بوکھلاہٹ‘‘سے مشابہت دے رہے ہیں۔کچھ ناعاقبت اندیش اسے موقع جان کر شہداکے وارث کو رزم گاہِ سیاست میں دعوتِ عام دے رہے ہیں ۔وہ بھول رہے ہیں مگر دلیرسپاہی ہرگزنہیں بھولاہوگاکہ سابق جرنیل کے دورمیں وہ وقت بھی آیا جب پاک فوج کے سپاہی وردی پہن کر عوام میں نہیں جاسکتے تھے۔فوج کامورال سیاست کی دوری سے ہی بلندہوا‘جس میں اہم کردارضرب عضب نے اداکیا۔یہ عظیم سپاہی کی نیک خواہشات ہی ہیں جنھوں نے دھرنے ورنے جیسے گولڈن چانس کو کیش نہیں کرایا۔قوی امید ہے کہ تدبراورفہم وفراست سے آشنایہ مخلص سپاہی خوش آمدیوں کے نرغے میں نہیں آئے گا۔ہاں !مگراب سیاست دانوں کو اپنی روش بدلناہوگی ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسے بہت سے ادارے ہیں جن میں کاروائی کا حق وفاقی ادارے نہیں رکھتے لیکن جب آپ نے ایپکس میں بیٹھ کر انہیں انتہاپسندوں کی لائف لائن مردہ کرنے کی ذمہ داری دی ہے تو پھر وہ کاروائی کریں گے ‘کافی عرصۂ تک وہ صوبائی حکومت کے منہ کی جانب تکتے رہے جب کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا توبالاآخر انہیں اپناکام تو مکمل کرناہی تھا۔جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو ایسی کرپشن سبھی جگہ پر ہے ‘کراچی سے خیبرتک سبھی کا احتساب بلاروک ٹوک ہوناچاہیئے ‘مگرجیسی بدامنی کراچی میں ہے ‘اُس کے کچھ اپنے تقاضے بھی ہیں۔

سیاسی جماعتیں بھی اگراپنااخلاقی مورال بلند کرنا چاہتی ہیں توانہیں اپنی سطحی خواہشات کاگلاگھونٹ کرآگے آناہوگا۔پارٹی میں عہدوں اورٹکٹوں کامعیار ملک سے وفاداری اورایمانداری سے جوڑناہوگا‘کیونکہ شفاف سول ادارے ہی ملکی بقاء کے ضامن ہوسکتے ہیں۔کرپٹ افراد کوجماعتوں سے چلتاکرناہوگا ۔اسوقت پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ن لیگ اورسندھ میں پی پی پی ایسی جماعتیں ہیں جوصوبوں میں گہری جڑیں رکھتیں ہیں اوروفاق پریقین رکھتی ہیں ‘ہمیں ایک ایسی جماعت بلوچستان میں بھی چاہیئے جووفاقِ پاکستان کی علمبردارہواورملکی مسائل کوکسی تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھے اوریہ اسوقت ہی ممکن ہوگاجب ہم بلوچستان کی محرومیاں دورکریں گے۔جب ہم کسی صوبہ سے زیادتی کریں گے تو اس کے عوام ودردمندحضرات کاعصبیت رکھنافطرتی ردعمل ہوگا‘بلوچستان کاواحدحل توجہ اورتعلیمی میدان میں سہولیات فراہم کرناہے۔رہاخیبرپختوانخواہ تو وہاں مستقل توکسی جماعت کی جڑیں قرارنہیں دی جاسکتیں البتہ وہ لوگ ہزارہاتکالیف کے بعدبھی وفاق مخالف نہیں ہیں۔اگرفوج اپنامورال واپس لاسکتی ہیں توسیاسی جماعتیں جوکہ اسوقت افواجِ پاکستان کے مقابلے میں اپنااخلاقی مورال کھوچکی ہیں ‘وہ بھی ایساکرسکتی ہیں ۔پی پی پی جوکے ایک مزدورکی جماعت سمجھی جاتی تھی‘اس کے چیئرمین نے اسوقت پاکستان کو سہارادیاجب سندھ جل رہاتھا‘سندھ کے نگرنگراورگلی گلی میں آگ لگی تھی۔مجھے یاد ہے کہ ستائیس دسمبر2007 کی شام جب میں نیندکی آغوش میں تھاتووالدصاحب کی گلوگیرآوازمیری سماعت سے ٹکرائی ’’سمیع‘‘ ’’بی بی شہید‘‘ہوگئیں۔بس پھرریڈیوتھااورٹیلی ویثرن ہرسوتباہی ‘جنون اورحواس باختگی کاعالم تھا۔پی پی کے جیالے چہارسودیوانے ہوئے پھرتے تھے‘جرائم پیشہ عناصر اوربی بی کے متوالوں نے سندھ کو پاکستان سے الگ کررکھاتھا‘مداری بڑی عیاری سے کہہ رہے تھے کہ پنجابیوں نے ہمارے دوسرے وزیراعظم کوقتل کردیا۔ایسے وقت میں محترمہ کی قبرپرایک بشرنے ایک نیانعرہ دیا:’’پاکستان کھپے‘‘(پاکستان چاہیئے)جواب میں سندھی بھائی نے عالم جذبات میں کہا نہ کھپے مگرپھریہ باغیانہ آوازیں اس خوب صورت نعرے کے آہنگ کامقابلہ نہ کرسکیں اورفضامیں’’ پاکستان کھپے ‘پاکستان کھپے‘‘ ہی کی صدائیں گونجتی رہیں‘بلندہوتی رہی۔سابق صدر کوچاہیئے کہ ہردوست‘عزیز‘رشتہ دار‘انااورخواہشات کوآج بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے اُس نعرے کاپاس رکھیں جس نے پاکستان کو ایک بہت بڑی تباہی سے بچالیاتھا۔اُس پارٹی کوبچائیں ‘جس کی وفاق کوضرورت ہے اوراگرہوسکے توپی پی پی کی زمامِ اقتداربلاول اورجونیئربھٹوکے حوالے کردیں اوریہ حوالگی نظریاتی اساس پرہونہ کہ مورثیت پرتاکہ پاکستان میں جمہوریت پنپ سکے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188396 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.