میر جعفر اور میر صادق کے بعد اب پیش ہے میر طارق

ہماری ملکی سیاست جھوٹ اور مکروفریب سے بھری پڑی ہے جہان حقائق کو مسخ کرکے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ اس اندازمیں پیش کیا جاتا ہے کہ ابلیس بھی ان کی مکاریوں اورچرب زبا نی پرسشدر رہ جاتا ہو گا اور کہتا ہو گا کہ واہ رے پاکستانی سیاستدانوں تم تو مجھ سے بھی دو ہا تھ آگے ہو۔ اس ملک کو لوٹنے، اس کی جڑوں کوکھوکھلا کرنے اور اسکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہمارے سیاستدان اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ کوئی انڈیا سے پیسے لے کرملک کی جاسوسی کر رہے ہیں تو کوئی منی لانڈنگ کے ذریعے اس ملک سے پیسہ باہر بھجوا رہے ہیں۔ ۲۰۰ارب ڈالرز سوئس بینکوں میں انہی ۶۰ فیصدکرپٹ سیاستدانوں کے ہی ہیں جو اس ملک کے عوام کی حالت زار بدلنے اور انکی خدمت کے نام پرملکی وسائل لوٹنے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں ا ور ان کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ یہ کرپشن، منی لانڈرنگ، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان جیسے قبیع کاموں میں ملوث ہیں۔ اور جب کوئی صحافی ان کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرکے حق سچ کی آواز بلندکرتاہے تو پستول کی گولی اسکا مقدر بن جاتی ہے۔لیکن اسکے باوجود ہر دور میں دلیر صحافیوں نے نہ صرف صدائے حق بلند رکھی بلکہ ہردور میں عوامی ضمیروں کو جھنجوڑتے رہے۔

اوون بینیٹ جونز بھی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہے جونہ صرف اپنی بی بی سی پرایم کیو ایم کے کالے کرتوتوں اور گھناونے کردار پر پیش کردہ دستاویزی رپورٹ پر نہ صرف ڈٹ گیا ہے بلکہ اس کی صداقت کے حق میں اسکے ایک ایک لفظ پر قائم ہے۔بی بی سی کے پروگرام ’نیوز نائٹ‘ میں بی بی سی کے نامہ نگار اوون بینیٹ جونز نے ایم کیو ایم کے قائد کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ ان کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے علاوہ، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کراچی میں پارٹی کارکنوں کو تشدد پر اکسانے کے الزامات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم کی قیادت جس ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔

تاریخ میر جعفر اور میر صادق کی غداریوں سے بھری پڑی ہے اور اب انکے ایک اور بھائی میر طارق نے ایم کیو ایم کی کمر میں چھرا گھونپ کر سکارٹ لینڈ یارڈ کو ۲۰۱۳ء میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا جسکے منظرعام پرآنے پرملکی سیاست میں ایک بار پھر بھونچال آگیا ہے۔

میر طارق نے اپنے بیان میں انکشاف کیا تھا کہ انکی جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی جو تقریبا ۸ لاکھ پونڈ سالانہ تھی جس میں بعض اوقات بیشی بھی ہوتی رہی۔ اور اس رقم کے بارے میں ایم کیو ایم کی نچلی قیادت کو علم نہ تھا۔اسکے علاوہ ایم کیو ایم کے کار کنوں کو انڈیا میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی رہی ۔برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔دوسری طرف بھارتی حکام نے ان دعووں کو قطعی طور پر بے بنیاد قرار دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ وہ افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔بی بی سی نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کیے گئے انٹرویوز میں کیے جو انھوں نے برطانوی حکام کو دیے تھے۔ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر کی جانب سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔ اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے۔ایم کیو ایم نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت بقول ان کے، افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔ انھوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ہتک آمیز الزامات‘ نشر نہ کرے۔

یاد رہے کہ برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف سنہ 2010 میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔انھی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔جیسے جیسے برطانوی پولیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں برطانوی عدلیہ نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔ مارچ میں ملک کی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر ۹۰پر چھاپہ مارا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے برآمد ہوا ہے۔

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ انھیں 2002 میں برطانوی شہریت ملی تھی۔ بہت عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے کئی سینیئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ایم کیو ایم کا اصرار ہے کہ اس کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کندگان اور تاجر برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔

میں حیران ہوں کہ ٹی وی چینلزسنگین الزامات کے باوجودایم کیو ایم کا موقف اورملزم الطاف حسین کے بیانات نشر کر رہے ہیں جنہیں فوری طور پر بند ہونا چاہیے کیونکہ وہ اب ملزم ہیں اورجب تک ان کی پوزیشن واضح نہیں ہو جاتی میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایسے شخص کے بیانات اور انٹرویو چلانے سے گریز کرے کیونکہ یہ ملکی سالمیت کا مسئلہ ہے نیز ایم کیو ایم کے لیڈروں کے بیانات پر بھی قدغن لگنی چاہیے تاکہ وہ پاکستانی عوام کو مزید گمراہ نہ کریں اگر آج ایک ملزم کے بیانات اور انٹرویو چلائے جائیں گے تو کل جیلوں میں پابند سلاسل ہر ملزم کا بھی حق ہے کہ وہ بھی میڈیا میں اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی روش کو روکنا ہو گا۔

ایم کیو ایم کے طارق میر نے جو انکشافات کیے ہیں اسکے بعد کوئی وجہ نہیں رہتی کہ ایم کیو ایم پر نہ صرف پابندی لگائی جائے بلکہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی نہ صرف شفاف تحقیقات کی جائیں بلکہ ملوث قیادت کو قرار واقعی سزادی جائے ۔بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت ہر دور میں مصلحت کا شکار رہی یہی وجہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے بارے میں سب کچھ جاننے اورانٹیلی جنس رپورٹس ہونے کے باوجود کوئی انتہائی اقدام اٹھانے سے اجتناب برتی رہی۔آج جو الزام ایم کیو ایم پر لگا ہے یہی اگر انڈیا میں کسی سیاسی جماعت پر لگتاتو وہاں کی عوام اور سیاسی جماعتیں اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دیتیں اور اس جماعت کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ جس جماعت پر انڈیا سے ۸ لاکھ پونڈ سالانہ لینے کا الزام ہے اسی کا گورنر(جس پر غداری کا الزام ہے)مسند گورنری پربرقرار ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اسے فوری طور پر برطرف کر کے کسی محب وطن ریٹائرڈ جنرل کو گورنر بنا دیا جاتا۔

میری نظر میں اگر اس ملک کے ساتھ حقیقی معنوں میں کو ئی وفادار ہے وہ اس ملک کی پاک افواج ہیں جہنوں نے جب بھی ملکی سالمیت کو خطرہ ہوا تو آئین کو بالائے تاک رکھ کر ملک کو بچایا۔ پاک فوج جہاں ایک طرف ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف حتمی لڑائی لٹر رہی ہیں وہیں کراچی سے دہشت گردی کا نیٹ ورک تباہ کر کے اب کرپشن میں ملوث سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے وہیں اسے چاہیے کہ وہ آگے آئے اور اپنا کردار ادا کرے کیونکہ اب معاملہ سیاسی نہیں رہا بلکہ ملکی سالمیت کا ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچنے والوں اور ملکی مفادات کے برخلاف بھارت کے ساتھ ملکر ملک کا امن وامان برباد کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دیناہو گی تاکہ آئیندہ کوئی اس ملک کے ساتھ غداری کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 167969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.