|
|
بدھ تین مارچ دو ہزار دس کو قومی اخبارات
کی سرخی تھی کہ “ باجوڑ میں فورسز کا مکمل کنٹرول۔ قومی پرچم لہرا دیا گیا۔
قبائلیوں کا ڈھول کی تھاپ پر رقص“ خبر تو بڑی اچھی ہے اور اللہ سے دعا ہے
کہ اللہ ہر جگہ پاک فوج کو کامیاب کرے، اور دہشت گردوں کو نیست و نابود کرے
خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں، خواہ سیاسی دہشت گرد ہوں لسانی ہوں،
مسلکی ہوں یا مذہبی، اللہ ان سب کو انکے انجام تک پہنچائے۔ آمین ثمہ آمین۔
جس چیز نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا وہ اس خبر کے ساتھ تصویر یا ویڈیو
تھی جو کہ ٹی وی چینلز پر چلائی گئی تھی۔ آپ لوگوں نے بھی وہ تصویر یا
ویڈیو دیکھی ہوگی کہ باجوڑ میں دہشت گردوں کے خاتمےکے بعد وہاں کے مقامی
لوگوں کا رقص اور خوشی کا اظہار کرنا تھا اور ان سب کے ہاتھوں میں بھاری
اسلحہ تھا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مکمل کنٹرول کرلیا
گیا ہے تو پھر یہ مسلح افراد کون ہیں؟ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ کیوں ہے؟ اس
کا جواب بالکل سادہ سا ہے کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اور حق اور سچ بالآخر
خود کو منوا لیتے ہیں! جو لوگ بھی فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے رہے ہیں ان
کا مؤقف یہی تھا اور ہے کہ جو لوگ آج اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں ان کی
بات سنی جائے، ان کے جائز مطالبات مانے جائیں، لیکن امریکی ایماء پر فوجی
آپریشن شروع کر کے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ جن
لوگوں کے خلاف آج آپریشن کیا جا رہا ہے کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنہیں
اسلام اور پاکستان کے نام پر استعمال کیا گیا؟ کل جب امریکہ کو روس کے خلاف
ان کی ضرورت پڑی تو ان کو مجاہدین کا نام دیا گیا۔ ان کی سپورٹ کی گئی، اور
جب انہی لوگوں نے روس کے بعد امریکی قبضے کے خلاف جہاد شروع کیا تو یہ لوگ
دہشت گرد بن گئے۔ بات بہت سادہ سی ہے کہ اگر روس ایک مسلم ملک پر قبضہ کرے
اور اس کے خلاف جہاد جائز ہے تو بالکل اسی طرح امریکہ بھی اگر کسی مسلم ملک
پر قبضہ کرے تو اس کے خلاف بھی جہاد جائز ہے۔ پھر غلط کون ہوا؟ وہ مجاہدین
جو آج بھی اپنے نظریے پر قائم ہیں یا وہ لوگ جو کل افغانستان میں روسی قبضے
کے وقت جہاد کی بات کرتے تھے اور آج افغانستان پر امریکی قبضے کو جائز قرار
دیتے ہیں۔ اس کا جواب آپ کا اپنا ضمیر دے گا۔
جو تصویر اور ویڈیو آپ لوگوں نے دیکھی اس تصویر کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا
کہ یہ منظر تو میرا دیکھا بھالا ہے۔ اور واقعی یہ منظر تو میرا اور آپ کا
دیکھا بھالا ہے۔ یاد کریں انیس سو چھیانوے پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو
کی وزارتِ عظمیٰ کا دور تھا۔ اور غالباً چھبیس ستمبر کا دن تھا جب تمام
قومی اخبارات کی سرخہ تھی کہ “طالبان نے کابل فتح کرلیا“ یا “فتح کابل
مبارک“ یہ وہ دن تھا جب طالبان نے کابل پر اپنا کنٹرول حاصل کیا تھا، اس دن
کسی اخبار نے، کسی نام نہاد دانشور نے “سویرے سویرے“ کسی “چوراہے“ پر بیٹھ
کر اس کو قبضہ نہیں قرار دیا تھا بلکہ وہ تمام لوگ اس واقعے کو ایک بڑی
کامیابی قرار دے رہے تھے۔ اور سنئے کل انہی طالبان کو ہیرو قرار دیا جارہا
تھا۔ یہی پی پی پی کی گورنمنٹ تھی اور یہی ہماری آرمی تھی جو ان کی پشت
پناہی کر رہی تھی کیوں کہ کل امریکہ کا مفاد اسی میں تھا کہ ان کو سپورٹ
کیا جائے۔ آج یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ انتہا پسند ہیں۔ اب اس ماضی کو سامنے
رکھیں تو مستقبل کی تصویر یہ سامنے آتی ہے کہ آج جو لوگ اسلحہ اٹھائے، ڈھول
کی تھاپ پر پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کل جب امریکہ کا مقصد
پورا ہوجائے گا، اور ہماری آرمی کو ان کی ضرورت نہیں رہے گی تو پھر یہی لوگ
دہشت گرد کہلائیں گے۔ یہی لوگ شدت پسند کہلائیں گے۔ کل ان لوگوں کو بھی
مارا جائے گا۔ اور اس وقت اگر کوئی فرد یہ بات کہے گا کہ جناب ان کی بات
سنی جائے، انہوں نے پاکستان آرمی کا مشکل وقت میں ساتھ دیا تھا۔ ان کو نہ
مارا جائے تو ایسے دیوانوں کو کہا جائے گا کہ تم غدار ہو تم دہشت گردوں کے
حامی ہو۔ اور ایسے لوگوں کی بات نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوگی۔
اصولی طور پر اگر آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں تو آپ کو تمام
گروہوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا، خواہ ہو حکومتی حامی ہی کیوں نہ ہوں، اور یہ
سارا کام انتہائی دیانت داری سے کیا جانا چاہیے۔
سابقہ مجاہدین اور حالیہ انتہا پسندوں کے بارے میں سب سے بڑا الزام یہ
لگایا جاتا ہے کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن
حالات و واقعات نے یہ بات اچھی طرح ثابت کردی کہ پاکستان میں عام لوگوں کے
خلاف حملے کرنے والے دراصل امریکی و بھارتی ایجنٹ ہیں۔ رہی بات قانون کی
حکمرانی اور مسلمان بھائیوں کے قتل کے خلاف فوجی آپریشن کی تو میں تمام اہل
دل حضرات اور حکومت وقت کے ذمہ داران سے پوچھنا چاہونگا کہ بارہ مئی دوہزار
سات کو کراچی کی سڑکوں پر جو قتل عام ہوا، کیا اس کے ذمہ داران کسی سزا کے
مستحق نہیں؟ کیا بارہ مئی دو ہزار سات کو قتل عام کرنے والوں کی شناخت اور
ان کے پشت پناہوں کی شناخت یا ان تک پہنچنا کوئی بہت مشکل ہے؟ جی نہیں بات
صرف یہ ہے کہ اقتدار کی ہوس نے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو امریکہ کی کاسہ
لیسی، اپنے بھائیوں کے قتل عام اور قاتلوں کے ساتھ ہاتھ ملانے اور “نہاری
کھانے“ پر مجبور کردیا ہے وگرنہ بات صرف قانون کی بالادستی کی کی جائے تو
اب تک تو کراچی میں بھی آپریشن شروع کیا جاچکا ہوتا۔ اور جو لوگ اس وقت فوج
آپریشن کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہے ہیں وہ لوگ ماضی کی طرح آج بھی اقوام
متحدہ اور بھارت کو مداخلت کی دہائی دے چکے ہوتے اور اپنی مظلومیت کا جھوٹا
رونا رو چکے ہوتے۔
اور ذرا یہ بھی غور کریں تصویر میں جو قبائلی اسلحہ اٹھائے نظر آرہے ہیں
کسی نے بھی اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا بلکہ اس کو سراہا جارہا ہے کہ
قبائلی اپنی حکومت اور آرمی کے ساتھ ہیں اور انتہائی بے غیرتی کی بات یہ ہے
کہ اس عمل کو سراہنے والے وہ لوگ ہیں جو کل مشرقی پاکستان میں بھارتی
ایجنٹوں کے خلاف جماعت اسلامی کی فوج کی حمایت کو آج تک معطون کرتے ہیں۔
بات اگر اصول کی کی جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کل مشرقی پاکستان
میں آرمی کی حمایت کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ چالیس سال گزرنے کے بعد بھی اس
کے طعنے دئے جاتے ہیں تو پھر زرا جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج بھی اس بات
کی مخالفت کی جاتی لیکن دراصل یہ اصولوں کی جنگ تو ہے ہی نہیں یہ تو مفادات
کی جنگ ہے ہاں اگر کل امریکہ کا مفاد پورا ہوجائے اور نام نہاد دانشوروں کو
اس کے خلاف لکھنے کا معاوضہ مل جائے گا تو پھر اس عمل کے خلاف بھی آواز
اٹھائی جائے گی۔ لیکن سوال تو آج کا ہے۔ |