کیا واقعی! پرویزمشرف

امریکا نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کو دھوکہ دیا
خواجہ سعد رفیق! کا انکشاف صدر کا چال چلن مدت پوری کرنے والا نہیں..؟؟

یہ حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی انسان اُس سچ کا بھی سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کو وہ ہمیشہ چھپائے رکھنے کا عزمِ عظیم کر چکا ہوتا ہے اور بالآخر زمینی حقائق اور حالات واقعات اِسے ایسا کرنے پر اُکساتے اور مجبور کردیتے ہیں کہ وہ اِس سچ کو اپنی زبان پر لاکر بیان کر دے جس کے بیان کرنے سے اِس کے گناہوں کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کی زبان پر سچ کا آ جانا ہی اِس بات کی جامع دلیل ہے کہ اِسے اپنی اُس غلطی کا شدت سے احساس ہوگیا ہے جو اِس نے جتنے عرصے بھی اِس سچ کو اپنے سینے می د فن کئے رکھنے کے دوران اذیتیں برداشت کیں اور اِس طرح اِس کی زبان پر سچ کا آ جانا ہی یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اِس شخص کو اپنی اِس غلطی پر کتنی ندامت ہے۔

بہرکیف! ایک ایسا ہی سچ ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورینا میں ملک کے سابق آمر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے ایک خطاب کے دوران امریکا سمیت اسلام دشمن عالمی طاقتوں کو متنبہ کرتے اور اِنہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا نہیں بلکہ امن کا مذہب ہے عالمی طاقتیں اسلام کے خلاف اپنا جاری منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈہ اَب بند اور ختم کردیں اور اِس کے ساتھ ساتھ اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغرب کا اسلا م سے متعلق دہشت گردی اور انتہا پسندی والا یہ نظریہ غلطی پر مبنی ہے اِس وجہ سے مغرب کوش اَب دنیا میں امن و سکون کے خاطر اپنے اِس غلط نظریہ کو ہر صورت میں بدلنا ہوگا ورنہ دنیا یوں ہی مسائل میں گھری رہے گی اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے اِسی خطاب میں جس سب سے اہم نکتہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حسبِ روایت اپنے مخصوص انداز سے اِس حقیقت کو بھی کہ”آج پاکستان میں امریکا مخالف جذبات گزشتہ 40سالوں میں امریکا کی جانب سے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کو کھلم کھلا دھوکہ دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں “عیاں کیا ہے جو آج تک کوئی بھی پاکستانی حکمران نہیں کرسکا ہے۔

اگرچہ ملک کے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اتنی ساری حقائق پر مبنی باتیں کرنے میں بہت دیر کردی ہے اِس موقع پر میرا خیال یہ ہے کہ اگر مشرف اپنے اندر ہمت پیدا کر کے یہ سچ اُس وقت ہی اُگل دیتے کہ جب یہ اپنی پوری قوت سے اقتدار میں تھے اور اِن کی پاکستان میں طوطی بولا کرتی تھی حتیٰ کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ایک وقت تو یہ عالم تھا کہ اِن کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا اور نعوذب اللہ پورے پاکستان میں ایسا لگتا تھا کہ اِن کی ہی حاکمیت قائم ہے۔ تو اِن کی اِس ہمت سے جو اِن میں امریکا سے متعلق سچ کہنے میں آج پیدا ہوگئی ہے تو پاکستان کا اتنا بُرا حشر نہیں ہوتا کہ جتنا خراب حال امریکا نے آج کردیا ہے۔

اِس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بالخصوص پاکستان میں جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے وہ اِن کی امریکی آشیر باد پر کئے جانے والے آمرانہ اقدامات کا ہی ردِعمل تھے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی اور آج بھی پاکستان میں اِس نوعیت کے جہاں کہیں بھی واقعات رونما ہو رہے ہیں یہ بھی پرویز مشرف کی آمرانہ پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے آج دنیا بھر میں یہ سوچ پروان چڑہ رہی ہے کہ اسلام دہشت گرد اور انتہا پسندی کا مذہب ہے حالانکہ دنیا کو یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اسلام ہی ادیان کُل میں وہ سب سے افضل و اعلیٰ اور عالمگیر مذہب ہے جس کی اول تا آخر یعنی انسان کی پیدائش سے لیکر اِسے قبر کی کوکھ تک جانے میں انسانیت کے احترام کا درس دیا گیا ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ مذہب اسلام کس طرح دہشت گرد ہوسکتا ہے۔؟ بہرحال! اَب یہ بات اُن لوگوں کو سمجھنی چاہیئے کہ جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور اِس کی عالمگیریت کے خلاف ایک منظم اور مربوط اور غلط فہمیوں پر مبنی زورو شور سے اپنی منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے۔

اور اِس کے ساتھ ساتھ آج مجھے یہ بھی کہنے دیجئے! کہ امریکا کے اُس خاص مہرے ہمارے ملک کے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی خود اپنی ہی اُس زبان سے جس سے یہ اکثر اپنے اقتدار کو بچانے اور اِسے طول دینے کے لئے امریکا کی عافیت اور اپنی حکمرانی کی خیر کی تسبیح پڑھا کرتے نہیں تھکتے تھے اُنہوں نے بھی اپنی اُس ہی ......زبان سے آج اُس سچ کو جو پوری پاکستانی قوم بڑے عرصے سے کہہ رہی تھی”امریکا نے پاکستان کو ہر مشکل گھڑی میں دھوکہ دینے کے سِوا اور کوئی کام نہیں کیا ’“اُگل کر یہ ثابت کرنے کی بھی اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے کہ امریکا نے اِن سے بھی کسی نہ کسی مقام پر ضرور دھوکہ کیا ہے جب ہی تو مشرف نے اتنا بھی کہہ دیا ورنہ مشرف شائد کبھی بھی یہ سچ اپنی اِس زبان پر نہ لاتے جس سے یہ امریکا کی سالمیت اور اپنے اقتدار کی حفاظت کی تسبیح پڑھا کرتے تھے۔

ویسے یہ ایک بات تو حقیقت ہے کہ امریکا سے متعلق ہمارے یہاں اَب یہ بہت مشہور ہوچکا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت سے بھی کہیں زیادہ خطرناک یہ امریکا ہوچکا ہے کہ جو دوست بن کر دھوکہ دے رہا ہے اور ہماری کسی بھی مشکل گھڑی میں اِس نے ہماری کوئی مدد نہیں کی سوائے دھوکہ دینے اور زبانی جمع خرچ کرنے کے..... اَب یہ بات تو ہمارے موجودہ حکمرانوں کو سوچنی اور سمجھنی چاہئے کہ وہ ہمیشہ امریکا کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد ہوش کے ناخن لیں اور امریکی ڈالروں کی امداد کے عوض اِس کے آلہ کار بننے کے بجائے نہ تو یہ اَب امریکا جیسے عیار اور مطلبی ملک کے ہاتھوں بلیک میل ہوں اور نہ ہی اِس کے ماضی میں پاکستان کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں اور گزری ہوئی باتوں پر رنجیدہ ہوں بلکہ اَب ہمارے حکمرانوں کو امریکا کو اِس کی اوقات کے مطابق جواب دینے اور اِس کو سبق سیکھانے کا موقع ہے تاکہ یہ اپنے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان کو آئندہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کرسکے کیونکہ یہ بھی حقیقت واضح ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان پر اپنا تسلط قائم رکھا ہے اور اِس حوالے سے اِس نظریے کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ زیر سایہ رہنے والی ہر چیز ہمیشہ چھوٹی رہتی ہے۔ اور اَب پاکستان کو امریکی سائے سے باہر نکل کر خود کو بھی بڑا ہو کر دنیا کو دِکھانا ہوگا اِس کہ پاکستان آخر کب تک امریکی سائے کے زیر اثر رہ کر چھوٹا بنا رہے گا۔

اِس وقت مجھے کنفیوشس کایہ قول یاد آرہا ہے”اگر کوئی انسان واقعی یہ خیال نہیں کرتا کہ ملگجے یا دھند میں اِسے کیا محسوس ہورہا ہے تو جلد ہی اِسے کفِ افسوس ملنا ہوگا۔“اور میرا خیال یہ ہے کہ بیشتر اِس کہ امریکی رویوں کے باعث جلد ہی ہمارے حکمرانوں کو بھی سابق آمر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرح یہ کہتے ہوئے امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا ہے کفِ افسوس ملنا پڑے اِس لئے اَب اِن پر یہ لازم ہے کہ وہ خود بھی اور پوری پاکستانی عوام کو امریکا کے سائے اور اثر سے آزاد کرانے کا کوئی سامان پیدا کریں تاکہ ملک کے عوام امریکی اثر سے باہر نکل کر حقیقی معنوں میں ایک خود مختار اور آزاد ملک کے ایک آزاد عوام کہلائے جاسکیں۔

اور اُدھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کی وہ واحد اور دنیا کی انوکھی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)جو موجودہ حکومت کے خلاف وہ زہر آلود خنجر لے بیٹھی ہے جو حکومت پر پوری طرح سے اَب تک چلاؤ نہیں سکی ہے مگر وقتاً فوقتاً اِس کی نوک حکومت کے وجود میں چبھو کر اِسے گھاؤ ضرور لگاتے رہتی ہے اور اِسے یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ یہ زہر آلود خنجر کسی بھی وقت چل سکتا ہے مگر ہم اِسے یو ں اتنی آسانی سے اِس کرپٹ حکومت اور اِس کے حکمرانوں کے خلاف نہیں چلائیں گے بلکہ پی ایم ایل (ن) کے اِس رویئے سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پی ایم ایل (ن) والوں نے یہ خنجر حکومت کو بلیک میل کرنے اور قدم قدم پر صدر زرداری اور اِن کی حکومت کو پریشان کرنے اور اِسے ڈرانے اور دھمکانے کے لئے ہی کبھی اپنے ہاتھوں میں ظاہری طور پر پکڑا ہے تو کبھی باطنی طور پر اپنی آستینوں میں اِسے چھپا رکھا ہے اِس کا اندازہ محترم قارئین ! آپ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی اِس گفتگو میں کہے گئے اُن الفاظ سے بھی باآسانی لگا سکتے ہیں جو اُنہوں نے گزشتہ دنوں ملک کے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بڑی ڈھٹائی سے اپنی گفتگو کے دوران کہے کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم ایک انتہائی شریف (کیوں کہ میرا خیال یہ ہے کہ اِن کا تعلق آپ کے صوبے پنجاب سے ہے) آدمی ہیں لیکن صدر کا چال چلن مدت پوری کرنے والا نہیں ہے (اُنہوں نے صدر آصف علی زرداری سے متعلق یہ بات اِس لئے تو کہیں نہیں کہی کہ صدر کا تعلق اِن کے صوبے پنجاب سے نہیں ہے اِس لئے ) وہ سیاستدان نہیں کچھ اور لگتے ہیں (یہاں میں اِن سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اور اِن کی جماعت کے سربراہ اپنی تقریریوں اور خطابات اور گفتگو میں کیا صدر سے متعلق اِسی باتیں کر کے پاکستانی عوام سے پہلیاں بوجھوا رہے ہوتے ہیں کہ صدر یہ لگتے.... ہیں ؟یا صدر وہ لگتے..... ہیں؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ سب میں ہمت ہے تو کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری آپ سمیت آپ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو کیا لگتے..... ہیں ؟پھر اِس کے بعد عوام کو بھی تو پتہ چلے کہ آپ لوگوں میں بھی کتنی ہمت ہے؟ کہ آپ صدر سے متعلق اتنا کچھ کہنے کے بعد کس طرح اِن کا سامنا کرسکتے ہیں) ہم صدر کا ہاتھ پکڑ کر مدت پوری کروائیں گے اور اِس کے ساتھ ساتھ خواجہ سعد رفیق کا اِسی پروگرام میں صدر سے متعلق یہ کہنا بھی تھا کہ وزیر اعظم ایک شریف آدمی ہیں اور صدر اِن کا کھیل خراب کر دیتے ہیں اور جہاں بھی معاملہ خراب ہو تو انہیں جانا پڑتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شائد اَب صدر پر تنقیدیں کرنے اور اِن کی شخصیت کو دغدار کرنے کے سوا پاکستان مسلم لیگ (ن)کے پاس اور کوئی ایجنڈا ہی نہیں رہ گیا ہے کہ جس پر چل کر اِس کے رہنما اور اِس کے اراکین اپنے سیاسی کیرئیر کو آگے بڑھا سکیں اور عوام کی کوئی خدمت کرسکیں سوائے اِس کے اِن لوگوں کی صدر کی ذات کو اپنے خطابات اور گفتگو میں ہدف تنقید بنانے کی ایک عادت سی بن گئی ہے جو اپنے خطابات اور گفتگو اِس سے ہی شروع کرتے ہیں اور اِس پر ہی اِس کا اختتام کرتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی ایم ایل والوں کے اِس غیر سیاسی عمل اور رویئے سے ملک میں ایک منفی اور کمزور سیاسی ماحول کو پروان چڑھانے کے عمل کو فروع دیا جا رہا ہے جو پاکستان جیسے اُس ملک کے لئے کسی بھی صور ت کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا جس کی عوام کا مزاج گرم اور برداشت کے مادے سے عاری ہو۔ اِس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک میں ذاتیات کی سیاست کا پروان چڑھنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہوسکتا۔ جس کو ہوا دینے کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کوشش کررہی ہے اور اِس کے ساتھ ہی میں اِن الفاظ پر اختتام کروں گا کہ ”ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور وہ کام کرو جِسے کرنے کے بعد پچھتانا نہ پڑے“ ۔
Muhammad Azam Azim Azam
About the Author: Muhammad Azam Azim Azam Read More Articles by Muhammad Azam Azim Azam: 3 Articles with 2869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.