کاظمی جی کی سحری

رات ابھی گہری تھی۔۔ پونے تین کے آس پاس کا وقت تھا۔۔ کاظمی صاحب کی بیوی نے ٹائم پیس آنکھوں کے بالکل قریب کر رکھا تھا جولوڈ شیڈنگ میں بڑا کام دے رہا تھا۔۔ اسے پچھلے سال کاظمی جی گاؤں میں اپنے آبائی گھر سے اٹھا لائے تھےجس کے ہندسے اندھیرے میں بلی کی سبز آنکھوں کی طرح چمکتے تھے۔۔ سو وہ مندھی آنکھوں سے اَدھ کھلی پلکیں جھپک جھپک کر ٹائم دیکھنے کی کوشش میں تھیں۔۔ وقت دیکھنے، اس کا تعین کرنے کے بعد بیوی نے ساتھ والے بیڈ پہ سوئے شوہر کو ہلایا۔
سنیے میں کیا جی، اٹھ جائیے۔۔ رمضان آ گیا۔۔ روزے پھر شروع۔۔ اور سحری کا وقت ہو گیا ہے۔
اچھا۔۔ کس کی سحری کا۔۔؟ کاظمی نے کچی پکی نیند میں جواب دیا۔
لو۔۔ آپکی سحری کا۔۔اب کیا محلے بھر کو سحری کراؤگے۔۔؟ بیوی بیزاری سے بولی
اچھا۔۔ کیا چین میں چاند نکل آیا۔۔؟کاظمی جی بولے(جو اکثر چین کے دورے پر رہتے ہیں)
نہ میں کیا جی، لگتا ہے آپ کو ہر وقت سفنے چین کے ہی آتے ہیں۔ ویسے آپکی اطلاع کے لیے بتا دوں کہ آپ دورے پر نہیں ہو۔۔ دھن بھاگ ہمارے، جو آپ پاکستان میں ٹکے ہوئے ہو۔ اور ہاں، یہ میں آپ کو ابھی سےکہے دیتی ہوں کہ میں آپکو عید چینیوں کے ساتھ نہیں کرنے دوں گی۔ اور چاند کا کیا ہے وہ تو دنیا میں اِدھر اُدھر گھو م پھر کر نکلتا رہتا ہے۔ ملائیشیا، آسٹریلیا، چین کے بعداب پاکستان میں بھی نکل آیا ہے۔ ویسے اس بار تو خیبر پختونخواہ والوں کو بھی چاند پہلے ڈھونڈنے سے نہیں ملا۔۔ بیوی کے من میں پھلجڑی چھوٹی۔
اُمِ علیم، کیا میں واقعی پاکستان میں ہوں۔۔ اچھا کیا تم نے یاد دلا دیا۔ ورنہ میں ابھی سفنے میں چینی ،چکن ہاٹ اینڈ سار سوپ پی رہا تھا۔۔اور کچھ دیر بعد ناشتہ کرنے والا تھا۔ آج زور انڈوں پہ ہونا تھا۔ میرے اردگرد چینی ہی چینی بیٹھے تھے۔۔ اور ہاں وہ اپنا کیا بھلا سا نام تھا اس کا بڑا بیبا شیبا سا بندہ، جس نے لیپ ٹاپ تحفے میں دیا تھا، ہاں گاؤ جون۔۔ وہ تو میرے ساتھ ہی میز پر بیٹھا تھا۔ اسکے سوپ کے پیالے میں یخنی کے اوپرکیکڑے تیر رہے تھے۔ ویسے مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں پاکستان میں ہوں۔
اس پر بیوی نے زور سے کاظمی کے بازو پہ چٹکی کاٹی اور بولی،اب آیا یقین۔۔؟
او بھاگ بھرئیے، یہ کیا۔۔ کیا۔ رات بھر مچھر کاٹتے رہے اور نُور پیر کے تڑکے تم۔۔ یا اللہ، میں کدھر جاؤں اس سے تو اچھا میرا چین کا ہنگامی دورہ کروا دے۔۔ کاظمی نے بازؤ سہلاتے ہوئے کہا
ہاں ہاں، خوب سمجھتی ہوں تمھیں۔۔ اور تمہارے ناٹکوں کو۔۔ بیوی بولی
اچھا، حاضر جناب ! کاظمی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ ویسے ناشتے، مطلب سحری میں کیا ملے گا کھانے کو۔۔؟
لو، تمھیں سحری میں بھی رمضان کےپکوان چاہیئں۔ یہاں ایک بُرقی بھی کھانے کو جی نہیں مان رہا۔۔ بیوی بڑبڑائی
لے۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے، سحری کھانا توسنت ہے اور دن بھر کی ضرورت ہے۔۔ ویسے بھی بندہ بشر ہوں۔۔ پیٹ ساتھ لگا ہے۔ اور اتنا لمبا اتنا سخت روزہ، توبہ میری توبہ، اللہ اللہ کر کے پار ہوتا ہے۔۔ بھوک سے ہول پڑتے ہیں، پیاس سے تراہ نکل جاتا ہے۔۔ زبان پہ کانٹے اُگ آتے ہیں اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔۔ کاظمی نے روزے کا نقشہ کھینچا۔
نہ میں کیا جی۔۔ رمضان میں کھانے پینے پر نہیں نماز روزے پہ دھیان ہونا چاہیئے۔ بیوی نے علمیت جھاڑی۔
اُمِ علیم، دھیان کا کیا ہے وہ تو نماز میں بھی اپنے ساتھ نہیں رہتا۔۔ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے۔ کاظمی نے بتایا
ہا ہائے، میں مر جَاواں کون ہے وہ، جس کا دھیان نماز سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ۔۔ کہیں وہ مَرجانی۔۔ ؟ بیوی تڑپ اٹھی
گنگا اُلٹی بہہ نکلی۔۔۔
استغفر اللہ، بیوی۔ ۔ استغفراللہ، اللہ کا نام لو۔۔ رمضان شروع ہو چکا، شیطان کو بھی کَس کے باندھ دیا گیا ہو گا۔۔ لیکن تمھارےدماغ پہ ابھی بھی شیطان کا قبضہ لگتا ہے۔ روزہ ابھی شروع نہیں ہوا اور تمھارا دماغ پہلے ہی چوپٹ ہوگیا ہے۔ت م تو مجھ سے بھی گئی گزری ہو۔ کاظمی نے بیوی کی بات درمیان سے ہی اُچکتے ہوئے غصے سے کہا
تھوری دیر خاموشی رہی۔۔ پھر بیوی نے ہمت کی۔
میں کیا سنیے جی، روزے میں صبر کا حکم ہے بات کو ذرااِدھر اُدھر کر دیں نا۔۔ ابھی پہلا روزہ ہےاس لیے زبان پھسل گئی۔
اسی لیے تو کہتا ہوں کہ پہلے تولو پھر بولو۔۔ کاظمی نے نصیحت کی۔
ٹھیک ہے آئندہ میں ترازو ہر وقت ساتھ رکھا کروں گی۔ بیوی نے کہا
اوہو بھئی، عقل کو ہتھ مارو بیوی۔۔ میں نے کہاوت بولی تھی۔ کاظمی نے کہا
اچھا۔۔ میں سمجھی آپ نے سچ بولا تھا۔ بیوی بولی
توبہ توبہ، اب صبح ہی صبح تمھارے ساتھ کون دماغ کھپائے، اپنی جان مارے۔۔ چلو چھوڑو، مٹی پاؤ بات پہ۔۔ اور ہاں روزہ کون کون رکھے گا۔۔ ؟ لخت ِ جگر علیم کو ضرور اٹھا دینا۔ وہ سارے انعامی کپ رات اپنے ساتھ بستر پر لے کر سوتا ہے۔ دیکھنا ! کہیں کوئی کپ اس کے نیچے آ کر پچک تو نہیں گیا۔۔ ؟ کاظمی نے کہا
چلیں کوئی بات نہیں ، اگر پچک بھی گیا ہوتو ۔۔ اگلے سال وہ پھر کپ لے آئےگا۔ بیوی نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے کہا۔ اورہاں جی، ابھی سے بتا دوں کہ اس سال عید پہ کافی خرچہ ہونے والا ہے۔!
وہ کیوں۔۔ ؟ اس بار کوئی انوکھی عید آ رہی ہے۔۔ کاظمی نے تیکھے چتون سے پوچھا۔یا حکومت کوئی بونس دینے والی ہے۔ بلکہ رمضان پوری طرح شروع ہوا نہیں اور حکومت مہنگائی کے نام پہ پہلے ہی لوٹ چکی ہے۔ جیبوں پرگھر بیٹھےہی ڈاکہ مار لیا ہے۔۔ اوپر سے تم خرچے سنا رہی ہو۔۔
بیوی اب کی بارذرا دبی آواز میں بولی۔۔ اب حکومت کی چھوڑئیے نا، یہ کہاں ہم میاں بیوی اور ہمارے گھریلو معاملات کے بیچ آ گئی۔۔ اب شادی شدہ بیٹیوں والے ہیں تو ناک چاہے سامنے سے پکڑو یا ہاتھ گھما کر پیچھے سے، یہ تاوان تو بھرنا پڑے گا۔ بیٹیوں کی ان کے سسرال میں عزت بھی بنائے رکھنا ہو گی۔ انھیں اچھی خاصی عید بھیجنا ہو گی۔ اگر بر وقت مجھے رقم تھما دو گے تو میں ان کے لیے کپڑے لتے ، مہندی، چوڑا، دیگر لوازمات تیار کرلوں گی۔ اور اگر پچھلے سال کی طرح لارے لگا کر دینے ہیں تو پھر سیدھا لڑکیوں کے ہاتھ میں جا عیدی تھما ؤں گی۔۔ اب یہ سب آپ پر ہے۔
اوہو اُم علیم، یہ تو واقعی بڑا خرچہ ہونے والا ہے۔۔ کاظمی صاحب متفکر ہو گئے پھر سوچ کر بولے،
صاحبزادے علیم کو کہہ دینا کہ پچھلے سال والی شیروانی، کپڑے اس عید پر بھی پہن لے۔ لوگوں کو کہاں یاد رہے ہوں گے۔ اور چھوٹی مُنیا کو کہنا کہ وہ بھی عید پہ پچھلے سال والا ہی لہنگا پہن لے۔ تم عید کے لیے صرف قمیض بنانا۔ ۔اور میں صرف نیا کُرتا بناؤں گا۔ اوران کے ساتھ شلواریں ہم دونوں پچھلے سال والی پہن لیں گے۔ تم بھی رمضان میں ذرا ہاتھ روک کر رکھنا۔ خوامخواہ اَلے تللے کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ پَاکوڑے، پوُکوڑے تلنے کا کام تَلو کی بجائے کسی ماڑے جیہڑے تیل میں کر لینا۔ اور عید کے دن کا مینو ٹائٹ رکھنا۔ کسی کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ عید کی صبح شیر خرمہ۔۔ چھوارے، بادام، کھوئے کے بغیر بنا لینا۔ باقی سارا دن ہم کبھی کسی کے ہاں اور کبھی کسی کے ہاں، مہمان بن کر گزاریں گے اور دعوتیں اڑاتے ہوئے بھر پور عید کریں گے۔ یوں بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ بھی نہیں جانا پڑے گا۔ بچوں کو کسی جگہ سے عیدی مل گئی تو یہ اضافی آمدنی ہو گی لیکن تم عیدی دینے کا جھنجھٹ مت پالنا۔ اس طرح جگاڑ کرنے سے کچھ نہ کچھ تو بچت ہو ہی جائے گی۔۔۔
لو یہ گھر پہلے ہی میری بچتوں سے چل رہا ہے۔۔ آپ کا کیا ہے، آپ تو جہاز میں اڑے اڑے رہتے ہو۔ بیوی بولی
نہ میں کوئی آوارہ پنچھی ہوں جو فضاؤں میں مارا ماراپھرتا ہوں۔۔ حکومت اپنے خرچے پہ بھیج دیتی ہے تو چلا جاتا ہوں۔ کاظمی نے کہا
اتنے میں بیوی کی نظر دوبارہ اس آفاقی ٹائم پیس پہ پڑی اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
اوئی اللہ، کاظمی جی آپ کی باتوں نے الجھا دیا۔ سحری ختم ہونے میں صرف پندرہ منٹ رہ گئے ہیں۔اب میں روٹی کیسے بناؤں ؟
کاظمی جی ہڑبڑا کر اٹھے اور بولے۔
یہ کیا بات ہوئی ۔ پہلے روزے سے ہی تم نے روٹی نہ پکانے کا عذر ڈھونڈ لیا۔ اب
میں کیا کھاؤں۔۔؟
بیوی بولی۔۔ رات کی دو روٹیاں پڑی ہیں۔ انھیں پانی لگا کر سینک دیتی ہوں۔ ساتھ ایک ولایتی اور ایک دیسی مرغی کے انڈوں کاآملیٹ بنا دیتی ہوں۔ یا تین کھجوریں، ایک کیلا اور ایک گلاس لسّی پی کر روزہ رکھ لیں۔۔
لو کر لو بات،عید ابھی دور ہے، لگتا ہے میری کٹوتی ابھی سے شروع ہو گئی۔ کاظمی جی ناراض ناراض سے بولے،
اس سے تو اچھا تھا کہ میں وہ چکن ہاٹ اینڈ سار سوپ پورا ختم کر لیتا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ کائنات بشیر، جرمنی ۔۔۔۔۔

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53252 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More