سرکاری افسران کے ٹھاٹ باٹ سے کون واقف نہیں ہے۔ بابو گری
ہر شخص اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتاہے۔ اگر خوش قسمتی سے وہ معطل ہوجائے تو
فخر میں مزید اضافہ ہوجاتاہے بلکہ یوں کہیے وہ گھمنڈی ہوجاتاہے کیونکہ
معطّلی کے بعد کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری
رنگ بھی آئے چوکھا۔ گھر بیٹھے پہلے پچاس فیصد لیتے رہو پھر پچھترفیصد۔ بقیہ
پچیس فیصد جمع ہوتارہتاہے جو عام طور پر بابو لوگ باوجود کوشش کے ہرماہ
نہیں جاتے۔ انہیں تو بس کسی طرح کھینچ تان کر پہلی کو تیس یا اکتیس سے
ملانا ہوتاہے۔ ہم بھی خوش قسمتی سے ایک سرکاری دفترمیں ملازم تھے۔ لیکن
ہماری اصل خوش قسمتی تو جب سامنے آئی جب ہم معطل ہوئے۔ ہمیں مبارک باد دینے
والوں کی لائن لگ گئی۔ ہمارا واقف کار جب کسی نئے شخص سے ہمارا تعارف کراتا
تو یوں کہتا کہ آپ سے ملیے آپ فلاں ہیں اور نہایت خوش قسمت ہیں، آج کل آپ
معطل ہیں۔ شروع شروع میں ہم حیران ہوتے کہ اس میں خوش قسمتی کی کیا بات ہے؟
لیکن جب ہم نے اپنے دیگر ساتھیوں کو دفتر کے لیے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا تو ہم
سمجھے کہ ہم واقعی خوش قسمت ہیں۔ آندھی ہو، مینہہ ہو، انتہاسے زیادہ گرمی
ہو یا ٹھٹھرتی ہوئی سردی، آفس ضرور پہنچناہے۔ دیر ہونے پر باس کی جھڑکی کا
خوف، آدھے دن کی تنخواہ سے ہاتھ دھونے کا ڈر۔ ایک ہم تھے کہ آرام سے گھر
میں پڑے رہتے، دیرتک سوتے، نہ گرمی کی فکر نہ سردی کی پرواہ، نہ بس نکل
جانے کا کھٹکا نہ باس کی جھڑکیوں کا خوف۔ ایسی بے فکر زندگی ہمیں اپنی پچیس
سالہ سروس میں کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے معطل ہوتے ہی ہمارے بہت سے
ساتھی ہم پر رشک کرنے لگے۔ کئی تو ہم سے حسد کرنے لگے۔ کچھ خواہش کرتے کہ
کاش وہ بھی معطل ہوجاتے۔ ایک صاحب نے تو حدہی کردی، وہ ایک درخواست لکھ کر
ہمارے باس کے پاس لے گئے جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا—
’’جناب! فدوی کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ اُس سے باعزت طور پر گھر کاخرچ چلا
سکے۔ لہٰذا آپ سے التجاہے کہ فدوی کو معطل کردیں تاکہ فدوی خالی اوقات میں
کوئی کاروبار کرسکے اور باعزت طور پر اپنے بچوں کی پرورش کرسکے۔ آپ کے اس
احسان کے لیے زندگی بھر آپ کا ممنون رہوں گا۔‘‘
فقط آپ کی توجہ کا طالب
م۔ک۔ع
ہمارے باس نے عرضی پڑھ کر خشمگیں نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ وہ صاحب ہاتھ
جوڑکر گڑگڑانے لگے۔ حضور کیا مجھ سے کوئی خطا ہوگئی؟ پھر صاحب کا مزاج
جانتے ہوئے بولے: ’’اگر آپ میرا یہ کام کردیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ہاں، اگر آپ چاہیں تو اس معطلی کے بعد جو الاؤنس مجھے ملے گا اس کا دس فیصد
آپ کی خدمت میں پیش کردیا کروں گا۔‘‘
باس جو ابھی تک غصّے سے لال پیلے ہورہے تھے یہ سن کر کچھ ڈھیلے پڑے۔ گلا
صاف کرتے ہوئے بولے: ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر معطلی کے لیے کوئی جواز تو ہونا
چاہیے۔ تم نے کوئی چوری کی ہوتی، غبن کی ہوتا، یا․․․․․․‘‘
’’مگر حضور آپ نے اُنھیں(ہمارا نام لے کر) بھی تو بنا کسی معقول عذر کے
معطل کیا ہے۔‘‘ یہ سن کر باس کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ وہ
ہکلاتے ہوئے بولے : ’’لیکن․․․․ لیکن․․․․‘‘ صاحب کی آواز گلے میں ہی پھنس کر
رہ گئی۔
’’حضور، لیکن ویکن کیا، بس یوں سمجھیے اس میں ہم دونوں ہی کا بھلاہے۔‘‘
’’تمہیں معطل کرکے میرے ہاتھ کیا لگے گا؟ ․․․․ تم کلاس فورتھ ملازم ہو․․․․
معطلی کے دوران تمہاری تنخواہ آدھی رہ جائے گی، اس کا دس فیصد ’اونٹ کے منہ
میں زیرہ‘ کے مصداق ہوگا جس سے میرا کیا بھلا ہوگا۔‘‘
’’حضور، میرے دماغ میں ایک ترکیب آئی ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟․․․․ جلدی بتاؤ۔‘‘ باس نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔
’’ذرا کان ادھر لائیے۔‘‘ وہ سرگوشی کرتے ہوئے بولا: ’’میں کلاس فورتھ کی
یونین بنالیتاہوں، ہم اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کریں گے۔ بس پھر آپ
دس بارہ کو یک مشت معطل کردیجیے گا۔ اس طرح ایک اچھا خاصا اماؤنٹ بنا کچھ
کیے آپ کے ہاتھ ہر ماہ لگے گا اور بے چارے غریب ملازمین کا بھی بھلا ہوجائے
گا․․․․ معطلی کے دوران وہ اپنا اپنا ذاتی کاروبار کرکے اپنی آمدنی میں
اضافہ کرسکیں گے․․․․‘‘ یہ سن کر باس کی بانچھیں کھل گئیں، ان کے کمرے سے
متّصل ہمارے کمرے کی جانب جیسے ہی ان کی نگاہیں اُٹھیں ان کے چہرے کا رنگ
فق ہوگیا کیونکہ ہمارے ہاتھ میں اسٹنگ آپریشن والا کیمرا و دیگر آلات دیکھ
چکے تھے اور ہم نے ان کی ساری باتیں ریکارڈ کرلی تھیں۔ اگلے ہی دن ہماری
معطلی کا آرڈر منسوخ کردیاگیا۔ |