ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

بین الاقوامی میڈیا کے ماہر استاد مالکم ایکس ایک ذمے دار میڈیا کے حوالے اہم بات کہتے ہیں کہ"اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو میڈیا آپ کو اُن لوگوں سے نفرت کرنا سکھا دے گا جو ظلم و زیادتی کا شکار ہیں اور ان لوگوں سے محبت جو ظلم و زیادتی کر رہے ہیں۔میڈیا کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس میں منفی دقیانوسیت کی توثیق اور اسے مزید گہرا کرکے ، جارحانہ جذبات کو ہوا دیتے ہوئے اور ہر وقت طبلِ جنگ بجا کر تنازعہ کی آگ پر تیل چھڑکنے کی صلاحیت بھی ہے اور لوگوں کے خیالات اور تصورات کو چیلنج اور تبدیل کرکے ، باہمی تفہیم کو فروغ دیتے اور باہمی رنجشوں کو دور کرتے ہوئے امن قائم کرنے کی جد وجہد کو آگے بڑھانے کی قوت بھی۔17اکتوبر 2006ء کو "نیو یارک سن "میں شائع مضمون ’ اخباری کالم اب جنگوں کیلئے گولیوں سے زیادہ اہم ہیں ‘ میں مشہور یہودی وار لارڈ دانشور ڈینیل پائپس رقم طراز ہیں "بری، بحری اور فضائی فوج کے سپاہی کبھی جنگوں کے نتائج کا تعین کرتے تھے لیکن اب نہیں ، آج ٹیلی وژن کے پروڈیو سرز ، کالم نگار ، مبلغ اور سیاست دان اس بات کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ مغرب کیا لڑ رہا ہے ، اس تبدیلی کے گہرے اثرات ہیں ․" تبصرے اور کالم اس ضمن میں قابل قدر کردار ادا کرتے ہیں اور اثر انداز ہوسکتے ہیں کالم نگاری کا تعلق رائے کے اظہار سے ہے اور رائے جانبدار ہوتی ہے یہی وہ فرق ہے کہ رائے کی جانبداری کو غیر جانبداری سے تجزیئے کیلئے اسے متواز ن بنایا جائے کہ وہ مددگار ثابت ہو ، انسانیت کے دائرے میں رہنے ، افعال کو پرکھتے وقت پائیدار اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا اور فکر کو چیلنچ کرنے کیساتھ ساتھ سوچ کی وسعت اور دشمنی کی حد کو پھلانگنے کی جرات کو لحاظ برادری پر مبنی برتاؤ ہی دونوں طرف کے لوگوں کی پیچیدہ انسانی ، سماجی اور ثقافتی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بہتر انداز میں کام کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے برعکس جب مفادات اور ترجیحات میں فرق پیدا ہوجائے تو بقول مارٹن لوتھر جونیئر نے امریکی حکمرانوں اور امریکی میڈیا کے حوالے سے کہا تھاکہ "امریکی حکومت دنیا میں فسادات کو ہوا دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے "۔ اسی طرح امریکی ماہر تعلیم اور سماجی رہنما سولومن کمیشنگ اپنے تجزیئے میں کہتے ہیں کہ امریکی حکومت نے دنیا بھر میں اپنی جنگوں کو پھیلا کر موت کے دائرے کو بہت وسیع کردیا ہے ۔ ان جنگوں میں بیک وقت کئی ممالک میں شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور امریکی کارپوریٹ میڈیا سوچء سمجھی اسکیم کے تحت انسانیت کے خلاف امریکی حکومت کے جرائم کا شریک بن چکا ہے۔"

ہمیں دیکھنا یہی ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا کیا کردار اور کیسا ادا کر رہا ہے ۔اظہار رائے کی آزادی کہیں بے لگام گھوڑا تو نہیں بن گیا جس کے جانے کا رخ کا کسی کو علم ہی نہیں ہے یا پھر اس کے باگیں ( ڈوریں ) ایسے ہاتھوں میں ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق ایسے ہلاتا رہتا ہے۔عالم فانی میں جنگوں سے پہلے میڈیا نے جنگ کیلئے راہ ہموار کی ، تو دوسری جانب ایسی مثالیں کم ملتی ہیں کہ امن کیلئے میڈیا نے اسی طرح کام کیا ہو جس طرح جنگ کیلئے کام کیا ۔ باہمی نفرتوں ، تشدد ، جھڑپیں،قتال ، دہماکے ہمارے میڈیا کی ہاٹ اسٹوریز میں شامل ہیں لیکن امن کے نام پر عالمی میڈیا جہاں اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے تو ہمارا میڈیا بھی اس سے دور نہیں ہے۔ میڈیا کے مثبت کردار کیلئے مثبت سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارا میڈیا مکمل طور پر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن ہم یہ بھی بغور دیکھتے ہیں کہ کیا میڈیا کا کردار مغرب کے میڈیا کے حرکات کا جواب دینے کیلئے موثر قوت رکھتا ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر بی بی سی کے نیوز فیدرنگ شعبے کی سربراہ فران انزورتھ کا ماننا تھا کہ "میرے خیال میں یہی کہوں گی کہ ہمیں واضح طور پر یہ سمجھ نہیں آئی کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار واقعی نہیں ۔ یہ ہمیں دیر میں سمجھ آئی ، اس وقت کی وہ فائل جسے اب "دوجی ڈوزئیر" کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی شہادتیں سامنے آئیں جن سے اشارے ملے کہ میڈیا اس معاملے میں حکومتی دعوں کے سامنے بیوقوف بن گیا۔"اور اس بے وقوفی کی سزا کے حوالے سے اس عراقی خاتون کا ذکر کیا جاتا ہے جو ان الفاظوں کے ساتھ امریکی صدر جارج بش کو مخاطب کر رہی تھی کہ "میرے گھر میں خوش آمدید ، مسٹر بش ، اسے دیکھیں کیا آپ میں ذرا بھر انسانیت ہے ؟ آپ ایک چھوٹی سی بچی کو اپنے ماں اور باپ کیلئے روتا کیسے دیکھ سکتے ہیں ، کہاں آپ کی انسانیت ؟ کہاں ہے آپ کا ضمیر ؟۔"

وہ اپنے تجزیوں اور تبصروں میں مغربی میڈیا پر اس انداز میں بات نہیں کرتے جس طرح مغربی میڈیا اپنی حکومت کی پالیسیوں کا رخ تبدیل کرنے کیلئے یا پھر حکومتیں عوام کی سوچ کے دھارے اپنی پالیسیوں کے مطابق چلانے کیلئے میڈیاکا ا ستعمال کرتے ہیں۔ امریکی ماہر تعلیم اور سماجی رہنماسولومن مزید آگے بڑھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ" امریکی میڈیا امریکی حکومت کے جنگ کے نشے کے بارے میں بالکل فکر مند نہیں بلکہ اسے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ان جنگوں کے نتیجے میں کرہ ارض کس تباہی سے دوچار ہو رہی ہے ، امریکی میڈیا کو اس سے غرض نہیں تھا کہ وہ کس کو پیغام دے رہے ہیں ، جبکہ ان کا پیغام بردار بھی ایک ہی رہا ہے ، ہماری افواج کی حمایت کرو ۔۔ خواہ یہ افواج معصوم لوگوں اور شہریوں کا قتل عام کر رہی ہوں ۔ سولومن نے میلکم ایکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ"میڈیا طاقت ور ہے بے گناہ کو مجرم اور مجرم کو بے گناہ بنا دیتا ہے اور عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کرتا ہے اگر آپ ہوشیارر نہ رہے تو آپ کو معصوم اور مظلوم سے نفرت اور ظالم سے محبت کرنے پر مجبور کردیگا۔"اب امریکہ ہو یا برطانیہ یا پھر مغرب کا کوئی بھی معروف میڈیا جب پاکستان کے حوالے سے رپورٹنگ کریگا تو اس کی پالیسی واضح ہوگی کہ اس سے ان کے ملک اور ان کے میڈیا کو کس قدر فائدہ ملے گا۔اس کا پروپیگنڈاکس قدر منفی ہے یا مثبت ہے اس سے بھی ان کو سروکار نہیں ہوتا ۔ بلکہ ہمارے یہ عادت سی بنتی جا رہی ہے کہ غیر ملکی ابلاغ کی رپورٹ کو ہم من و عن درست سمجھتے ہوئے ایسے مناسب جگہ فراہم ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر اپنے تبصروں اور آرا سے وہ ماحول پیدا کردیتے ہیں جیسے مغربی ابلاغ سے زیادہ خیر خواہ کوئی پاکستان کا ہے ہی نہیں ، بلکہ مغرب ابلاغ پاکستان کا سب سے بڑا بہی خواہ ہے۔ جب غزہ پر اسرائیل کی جانب سے حملے ہوئے اور معصوم بچوں ، خواتین بزرگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو مغربی میڈیا نے اسے دکھانے سے اغراض اس لئے برتا کیونکہ اُن کی حکومت کی پالیسی یہی تھی کہ حقیقت سے کوئی آشنا نہ ہو پائے ، یہاں تک کہ نیوز اینکر و کاسٹر تک رو پڑتے تھے لیکن اپنی حکومت کی میڈیا پالیسی کے ہاتھوں اس قدر مجبور تھے لیکن اپنے انسانی جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں جب ہم مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا مقابلہ دیکھتے ہیں تو ان کے عشر عشیر بھی ہماری رپورٹس میں نہیں ہوتا ، مظاہروں اور تقاریر کی تھوڑی سی جھلک دکھا کر اپنے ذمے داری پوری کرنے کا جھوٹا احساس پیدا کرلیا جاتا ہے۔صحافت میں ایک اصطلاح "غیر جانبدار"کی استعمال ہوتی ہے جسے پاکستانی اور مسلمان صحافی " فروفیشنل ازم "کے نام پر استعمال کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال ہوجاتے ہیں ، جبکہ مغربی میڈیا ہمیشہ اسلام کے خلا ف جانبدار ہوتا ہے۔قابل ذکر اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ایسے مغربی ابلاغ کے بیشتر نمائندے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ اقلتیوں کے نام پر حقوق ، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں برپا سورش ، بلوچستان ، کراچی خیبر پختونخوا کے۔

غیر مستحکم حالات ، مسلم دنیا میں مسلم امہ پر ہونے والے مظالم کی درست رپورٹنگ سے گریز ، فرقہ واریت میں پیش پیش ، روشن خیالی کے نام پر بے حیائی و بے غیرتی کا پرچار ، مختلف طبقات کے برسروپیکار ہونے کی بات اور اداروں میں اقربا پروری ، کرپشن اور بے قاعدگیوں کو منظر عام پر لانے میں تفریق پیدا کردیتے ہیں ۔ ہمیں بین الااقوامی ابلاغ کی جانب سے رائے ، تبصروں اور خبروں پر یکطرفہ موقف اپنا کر اپنے اداروں پر حقیقت کی افشانی تک رائے زنی سے گریز کرنا چاہیے ۔معصوم عوام میں بد امنی اور اضطراب کو سنسنی سے جنم دیکر ختم کرنے سے گریز اور کھوکھلی شہرے کے عوض اپنا ایمان اور وفاداریوں کی فروخت کرنے میں نام نہاد پاکستانیوں اور مسلمانوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743973 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.