روزہ اور خود اعتمادی

خارجی تحّمل:۔
روزہ کے لاتعداد جسمانی ،نفسیاتی اور روحانی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ روزہ دار کی خود اعتمادی کو تقویت بخشتا ہے۔ اسکے باطن میں چھپے روحانی طاقت کے خزانے کو آشکار کردیتا ہے۔ چنانچہ جب ایک مسلمان ماہِ رمضان کے دوران مختلف موسموں میں مختلف تکالیف برداشت کرکے صبرو رضا کی انمول نعمت سے آشنا ہوتا ہے۔ توآشنائی اسے روحانی قوت درک کرنے اور اسکاصحیح استعمال کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوتی ہے۔جون جولائی کی گرمی میں جب چندگھڑیوں بعد ہی انسان کو پانی کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ روزہ دار دن بھر پیاس کی شدت کو برداشت کرکے گویا بزبان ِحال کہتا ہے کہ زندگی کا سفر رضائے الہٰی کے تحت طے کر سکتا ہوں خو اہ سحرائے زیست میں پیاسا بھی رہناپڑے۔ کڑاکے کی سردی میں جب دیر تک بستر سے باہر آنے کو جی نہیں چاہتا ہے روزہ دار سحر کو ہی اٹھ کربادِ سحر گاہی کے سرد جھونکوں سے ایک طرف اپنے دل میں روشن ایمانی شعلوں کو تیز ترکردیتا ہے۔ اور دوسری طرف ہوائے خزاں سے عبدیت کے چمنستان میں عبادت کے پھولوں کومہکانے کے لیئے بادِ نوبہار کا کام لیتا ہے۔ الغرض جتنے بھی صبرآزمامراحل سامنے آجاتے ہیں۔ روزہ دار کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

داخلی فتح یابی:۔
خواہشاتِ نفسانی کو قابو کرناکوئی معمولی بات نہیں۔داخلی محاذ آرائی یعنی نفس کے ساتھ جنگ بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن ماہِ رمضان ان تمام خواہشوں کو لگام دینے کا ماحول وموقع فراہم کرتا ہے۔ نفسِ امارہ کی یورش کا مقابلہ کرنے کیلئے روزہ ایک کار آمد ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے فتح یابی ایک مسلمان کا نصیب بن جاتی ہے۔ چنانچہ ماہِ رمضان میں روزہ دار اپنے تمام اعضاوجوارع کو حکم الٰہی کے طابع بنا دیتا ہے۔لہٰذا نفس کی سرکشی کے تمام امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ نفس روزہ دار کی آنکھوں کو محرمات کا نظارہ کرنے پر اُکساتاہے۔مگر وہ یہ کہہ کر کہ ہم روزہ دار ہیں انکارکر دیتی ہیں۔ یہی نفس زبان کا غلط استعمال کرکے اپنی خواہشات کو پورا کرناچاہتا ہے۔ لیکن وہ بھی روزہ داری کی بناء پر اسکی فرمانبرداری سے قاصر ہے۔ اسی طرح ہر ممدومعاون سے منفی جواب پاکر نفس کی ہار ہوتی ہے۔اس طرح یہ روزہ دار فطری طور سمجھتا ہے کہ ظاہر و باطن پر میری ہی حکومت ہے۔ ہر اعضاء پر میرا ہی کنٹرول ہے۔ میرے خالق کی مرضی کے عین مطابق ہی میرا ظاہری اور باطنی نظام چلتا ہے۔ میرا اٹھنا، بیٹھنا ،سونا،جاگنا یہاں تک کہ تمام حرکات وسکنات عبادت میں شامل ہے۔ اس سے بڑھ کر خود اعتمادی کا مقام کیا ہوگا۔

خصوصی ہدف :۔
انسان کو اپنی صلاحتیوں پر اُسوقت بھر پور اعتماد حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے کچھ مخصوص فرائض کی انجام دہی میں کامیاب ہوجاتا ہے۔مثلاًانجینر (Engineer)کو کسی بڑے پروجیکٹ کی تکمیل پر فطری طور اپنے اوپر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر کا اوپریشن (Operation)کا میا ب ہوجائے تو یہ کامیابی اسکی ڈاکٹری کے لئے باعثِ اعتماد تصور کی جائے گی۔ریسرچ سکا لر کوئی مشکل اور اچھوتی تحقیق پیش کرے۔ایک پڑھا لکھا نوجوان مسابقاتی امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کرے تو انہیں اپنے با صلاحیت ہونے کے یقین میں اضافہ ہو گا۔ٹھیک اسی طرح مومن خلوص ِنیت کے ساتھ کسی عمل کی انجام دہی پر خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ روزہ بندوں کو اپنے رب کی طرف سے مخصوص ہدف(Special Task)مقررہوا ہے۔ اس مخصوص ہدف کو پورا کرنے کی بارہا تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس کے متعلق حدیث قدسی میں آیا ہے کہ"روزہ میرے لئے ہیں اور میں ہی اسکا اجر دوں گا"لھٰذا جو بھی سعادت مند بندہ اپنے رب کے مقرر کردہ مخصوص ہدف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے اُسے لازمی طور بندگی خدا پر فخر ہوگا۔ کیونکہ وہ اس مقام پر پہونچ جاتا ہے جہاں اس کے دہن کی بدبو بھی خوشبو بن کر معبود کے حضورمیں پسندیدہ بن جاتی ہے۔

مہمان خانۂ خدایک مضبوط پناہ گاہ :۔
بے پناہ قدرت و بصیرت کے حامل اﷲ سے منسوب ہو نا ہی بندہ ٔ حقیر کیلئے نفسیاتی بر تری کا ایک اہم محرک ثابت ہو ا ہے ۔انسان اپنی کم مائیگی،فناپزیری،بے بصری،بے بضاعتی،کے احساس سے نفسیاتی سطح پر لازماًٹوٹ کر بکھر جائے گااگر اسکے ذہن میں ایک توانا ، بصیر و علیم،قادرو قدیم،رحیم وکریم،صاحبِ قدرت و جلالت خدا کے سہارے کا تصّورموجود نہ ہو۔قرآن کریم نے سمندر کے گرداب کی گرفت میں آنے والے ،اور تمام ظاہری سہاروں سے منقطع ہونے والے انسان کے بارے میں کہا ہے کہ تمام ناپائیدارسہاروں سے مایوس ہو کر اس کی نظرِ امید بالآخر کہاں پر جا کے ٹھہرتی ہے ؟ سورہ ٔ یونس کی آیت نمبر ۲۲ میں خدا وند متعال فرماتا ہے’’ کہ وہ خدا وہ ہے کہ جو تمہیں خشکی اور سمندر میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں تھے اور پاکیزہ ہو ائیں چلیں اور سارے مسافر خوش ہو گئے تو اچانک ایک تیز ہوا چل گئی اور موجوں نے ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا اور اس خیال سے کہ چاروں طرف سے گھر گئے ہیں دین میں خلوص کے ساتھ اﷲ سے دعا کرنے لگے کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو ہم یقیناً شکر گذاروں میں ہو جائیں گے‘‘ متذکرہ آیت میں اگر چہ بظا ہر ان لوگوں سے خدا مخاطب ہے جن کا سمندری سفر کے دوران تباہ کن طوفان سے واسطہ پڑا ہو ۔لیکن آیت ِمذکورہ کا اس قسم کی صورت ِحال سے دو چار ہونے والے افراد سے راست اور عیاں تعلق ہونے کے علاوہ ایک عمومی پہلو (general aspect (بھی ہے جس کا تعلق یکسان طور پرتمام اولادِآدم سے ہے لہٰذ ایک پیچیدہ اور عمیق نفسیاتی مسٔلے کو آسان اور عام فہم تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ معمولی سے معمولی فہم و ادراک رکھنے والے انسان کو اسکے اعلیٰ مفاہیم سے روشناس کرایا جائے۔اصل میں سمندر انسانی حیات کا استعارہ ہے اور اسکابلا خیز موجوں کی زد میں آجانا اسکی ہر اس مجبوری اوربے اختیاری کی جانب بلیغ اشارہ ہے جس کازندگی کے قدم قدم پر اسے سامنا ہوتا ہے خاص طور سے جب کبھی یہ ناتوانی اور بے اختیاری اپنے عروج تک پہنچے اور نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ در پیش ہواس مرحلہ پر انسان کا ذہن وجدان لازمی طور پرایک برترووالا تر ہستی کی جانب راجع ہوتا ہے موّحد تو موّحد ایک منکر ِ خدا کافر و زندیق بھی اس صورت حال میں چارو ناچاراسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ جزوی طور مایوسی کے بھنور سے نجات پانے والا بنی آدم اپنی سرشت سے مجبور ہو کراپنے رب کے غیبی کرم کو بھول جائے اور پھر سے ظاہری سہاروں اور اپنی نیرومندی کا ڈھونڈورا پیٹنے لگے۔انسان کی اس ناشکری اور روباہی کی خصلت کوسورہ یونس کی اگلی آیت میں ظاہر کیا گیا ہے۔مفہوم:۔اس کے بعد جب اس نے نجات دیدی تو زمین میں نا حق ظلم کرنے لگے ۔ انسانو !یاد رکھو تمہارا ظلم تمہارے ہی خلاف ہو گا یہ صرف چند روزہ زندگی کا مزہ ہے اس کے بعد تم سب کی بازگشت ہماری طرف ہی ہو گی‘‘(سورہ یونس آیت نمبر ۲۳) حاصل ِ کلام یہ کہ کمزور و ناتواں انسان ہر لمحہ ایک قادر و توانا خالق کی پناہ کا طالب ہو تا ہے اور ماہ مبارکِ رمضان میں جب بندہ ٔ حقیر اپنے عظیم پروردگار کا مہمان بن جائے تو اسے اپنے محفوظ ہونے کا احساس کس درجہ بلند ہو گا؟دوسری جانب وہ اس معبود حقیقی کے بے پناہ احسانات سے بھی صرفِ نظر نہیں کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص اپنے سے کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کے تیر ِ عداوت کا ہدف ہے اور اس کی زندگی چاروں اطراف سے خطرے میں ہے۔اور اپنی زندگی کو بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے ، اسی حالت میں اسے اچانک حاکمِ وقت کے یہاں مہمان ہونے کا موقع مل جائے ۔جہاں تک اس کے دشمن کی رسا ئی ممکن نہ ہو تو اس کا اپنے تحفظ کے تئیں اپنا اعتماد پھر سے بحال ہو گا۔اب جو بندہ مہمانِ پروردگار بن جائے اس کا سفینۂ حیات طلاطم خیز موجوں میں بھی کیونکر ڈگمگائے۔یہاں تک کہ اس کی جان موت کے کھٹکے سے بھی بے چین نہیں ہو گی۔ علامہ اقبال نے ولیم جیمز کے حوالے سے اس سلسلے میں ایک بلیغ نکتہ اپنے ایک اہم خطبے میں بیا ن فرمایا ہے کہ ’’دراصل دعا کو تحریک ہوتی ہے تو اس لئے کہ نفس ِ انسانی کے کئی مراتب ہیں اور ان کی تہوں میں ایک نفس اجتماعی پوشیدہ ہے جسے اپنا سچا ہمدم (رفیقِ اعلیٰ) کسی مثالی دنیا میں ہی مل سکتا ہے لہذا کتنے انسان ہیں جو ہمیشہ نہیں تو اکثر اس ہمدم صادق کی تمنا اپنے سینوں میں لئے پھرتے ہیں اور جس کی بدولت ایک حقیر سا انسان بھی جسے بظاہر لوگوں نے دھتکار رکھا ہو ، محسوس کرتا ہے کہ اس کی ذات بھی عزت ومقام رکھتی ہے (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۱۰۵ بحوالہ انسان اور کائنات ص ۳۲۱ استاد مطہری)

ہمت ِ مرداں مددِ خدا:۔
خود اعتمادی انسانی حیات کا لازمی جز ہے بغیر اسکے زندگی میں پیش آنے والے امتحانوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا نا ممکن ہے۔ زندگی کے ہر گام پر خود اعتمادی کا ساتھ ناگزیر ہے اسی سے انسان کی عمومی اور مخصوص صلاحیتوں میں نکھارآجاتا ہے۔ خود اعتمادی کا دارومدار دوعناصر پر ہے (۱)خارجی امداد (۲)ذاتی صلاحیت و محنت ! مادی اور روحانی ترقی کی حصولیابی کے لیئے انسان ذاتی طور ناقص ہے۔ نظام حیات کو چلانے اور اسمیں توازن برقراار رکھنے پر عقل انسانی پوری طرح قادر ہوتی ۔ تو خدا وند کریم کو عالم ِ انسانیت کی رہنمائی کی خاطر انبیاء و مرسلین ؑ مبعوث فرمانے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ واضح ہوا کہ کوئی بھی عمل صالح اپنی کوشش اور خدا کے توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ماہِ رمضان میں ایک روزہ دار ذاتی استعداد کے مطابق جہاں صبح و شام نیک اعمال میں محو اور مشغول رہتا ہے۔ وہاں بیرونی امداد کے بطور اُسے اپنے معبود کی جانب سے کچھ اس طرح کا روح پرور ماحول نصیب ہوتا ہے کہ جسمیں تمام شیاطین قید کرلیئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرلیئے جاتے ہیں۔ جنت کے تمام دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔ فضاء میں مسلسل یہ صدائی گونجتی رہتی ہیں۔ کہ ہے کوئی مانگنے والا جسکو عطاکروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا جسکی توبہ میں قبول کروں، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسکی مغفرت کروں۔

عادت سے چھٹکارا:۔
کہا جاتا ہے کہ"اگر تم سے کہا جائے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑکر دوسری جگہ پر آگیا اس پر یقین کرو برعکس اس کے کہ کسی نے اپنی عادت ترک کردی"بری عادت کو ترک کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہے۔ یہ روزہ ہی ہے جو روزہ دار کی خود اعتمادی کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی عادتوں کو ترک کرکے صرف حکمِ الٰہی کا پابند ہوکر رہ جاتا ہے۔عادت کو ترک کرنے کیلئے مستحکم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے رمضان المبارک میں ارادوں کے استحکام کی مشق ہوتی ہے جسے ایک روزہ دار مسلسل تیس روزتک گزرتا ہے اپنے معمولات میں یکسر تبدیلی لانا اور پھر اس پر ایک ماہ تک لگاتار ڈٹے رہنا عزم بالجزم کا متقاضی ہے اور اس تقاضے کو جو مرد مومن بخوبی پورا کرے اس کے لئے بہت ہی آسان ہے کہ وہ اپنی غیر مستحسن عادتوں کو مستقلاً ترک کر دے
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و بناتات مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند (علامہ اقبالؒ)
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.