اب کیا ہونے جا رہا ہے......
(Tajamul Mehmood Janjua, )
تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد
سیاسی ماحول قدرے جمود کا شکار تھا مگرپچھلے کچھ ماہ میں ملکی سیاست میں
ایک بھونچال برپا ہے ۔ ایم کیو ایم کو نکیل ڈالنے کا معاملہ ہو یا پی پی پی
کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی بات۔ ’’را‘‘ سے فنڈنگ کے قصے ہوں یا کرپشن کی
داستان عظیم۔ آئے روز کوئی نہ کوئی دھماکہ خیز انکشاف سننے کو مل رہا ہے۔
ایسے میں ہر محب وطن شہری مستقبل کے بارے میں فکرمند نظر آتا ہے۔ کہیں ان
سب حالات کو ملکی مجموعی صورت حال کو بہتری کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا
رہا ہے تو کہیں فوج کی بے جا مداخلت کا نام ۔ تجزیہ کار ایم کیو ایم اور پی
پی پی کے معاملے کے بعد علامہ طاہر القادری کی اچانک پاکستان آمد اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم راہنماؤں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی کڑیاں بھی
اسی سے ملا رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال کے بارے میں ایک آن لائن نیوز ویب
سائٹ نے کچھ اس انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ لکھا ہے کہ ’’پیپلز پارٹی کے
سینئر راہنماؤں صمصام بخاری اور اشرف سوہناکے پاکستان تحریک انصاف میں
شمولیت کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں تلاطم تو برپا ہوا ہی تھالیکن صمصام
بخاری کے اس انکشاف نے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت میں ایک نئی سیاسی
جماعت کی تشکیل کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے
ارکان شامل ہوں گے، ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق سابق
صدر پرویز مشرف کی مجوزہ نئی سیاسی جماعت میں پیپلز پارٹی کے علاوہ ن لیگ،
ق لیگ اور ایم کیو ایم کے اہم ستون شامل ہوں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں قومی حکومت کا قیام ناگزیر
سمجھا جا رہا ہے کیونکہ برسراقتدار ن لیگ اور سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی
ڈیلور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ’’پک اینڈ چوز‘‘ کے ذریعے قومی
حکومت کے قیام کو اختلافات کا شکار نہیں بنانا چاہتی اور قومی حکومت بنانے
کا متبادل طریق کار ایک نئی سیاسی جماعت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ سابق
صدر پرویز مشرف جو مستقل مزاجی سے سیاست کے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، خود کو
سیاسی کھلاڑی ثابت کر چکے ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے سابق سیاسی ساتھیوں جن میں
چوہدری شجاعت ، محمد علی درانی اور طارق عظیم شامل ہیں، کو بھی نئی سیاسی
جماعت میں اہم عہدے ملیں گے۔ ن لیگ کے ناراض عہدیداروں جیسے غوث علی شاہ
اور ذوالفقار کھوسہ بھی نئی سیاسی جماعت کا حصہ ہوں گے۔ سیاسی پنڈتوں کا
کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے کچھ ارکان جن میں مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور
دیگر شامل ہیں، بھی نئی سیاسی جماعت کو جوائن کریں گے۔ نئی جماعت کا اعلان
ہوتے ہی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا۔ جس کے لئے اسٹیج سج چکاہے۔
طاہرالقادری کی اچانک وطن واپسی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران سیاسی افق پر حیران کن
تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں گی کیونکہ دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانے کے بعد
اور صوبہ سندھ میں معاشی دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجے میں ملک
میں ایک سیاسی خلاء نمودار ہونے والا ہے، جسے پُر کرنے کے لئے مقتدر حلقوں
نے اپنا منصوبہ ترتیب دے رکھا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد پی این اے کی
تحریک نے جس طرح جنم لیا تھا، اس وقت حالات بالکل اس طرح کے ہیں لیکن جس
طرح اس وقت مذہبی جماعتوں کو آزمایا گیالیکن وہ تولے گئے اور کم نکلے، اس
وقت اسٹیبلشمنٹ آزمائے ہوؤں کو آزما کر کوئی نیا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی
اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہ رہی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی مجوزہ
نئی سیاسی جماعت الیکشن جیت کر حکومت بنائے گی کیونکہ ملک کو درپیش عالمی
چیلنجز کے پیش نظر ملک میں ایک ایسی قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہے جو کم از
کم ملک کو استحکام کے رستے پرڈال سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت موجودہ صورت حال میں اپنے پتے کس
ہوشیاری سے کھیلتی ہے۔ اس وقت عوام کو موت دکھا کر بخار پر راضی کیا جا
سکتا ہے کیونکہ ان کی مشکلات کا طویل دور ختم ہونے کو نہیں آ رہااور حکومت
کی جانب سے تین سال بعد ریلیف فراہمی کے وعدوں پر گزارا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔‘‘
یہ بات سچ ہے کہ عوام سے کئے گئے وعدوں پر موجودہ حکومت سمیت کوئی بھی
حکومت پورا نہیں اتر سکی۔ بلکہ عوام کو محض سبز باض ہی دکھائے جاتے رہے ہیں۔
اگر نئی سیاسی جماعت کا قیام ملکی استحکام کے لئے اس قدر ہی ضروری ہو چکا
ہے تو پھر چلے ہوئے کارتوس ہی اس پارٹی کا حصہ کیوں ہوں گے۔ اور اگر اس
مجوزہ نئی سیاسی پارٹی کے متوقع سربراہ سابق صدر پرویز مشرف ہی اس ملک کی
تقدیر ٹھہرے ہیں تو کیا ان کو عہدہ سے ہٹایا جانا اور ٹرائل کے نام پر اب
تک ان کے ساتھ جو ہوا، وہ غلط تھا۔سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سوال تو یہ ہے
کہ اگر یہ مجوزہ نئی سیاسی جماعت بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی تب
عوام کا کیا ہو گا۔۔۔۔۔ |
|