مودی جی بہت ہوگیا،کچھ تو بولیں!
(Muhammad Asif Iqbal, India)
سرگرمیاں جو انجام دی جا رہی ہیں
اور منصوبے جو روبہ عمل لانے کی خواہش ہے،جب منصوبوں اور عمل میں تضاد
سامنے آنے لگے اور نیت میں کھوٹ بھی جھلکے ساتھ ہی آپ کے اپنے چاہنے والے
الزام تراشی سے کام لیں،جس میں کسی حد تک سچائی بھی موجود ہوتو پھر ایسے
موقعہ پر تنقیدبرداشت کرنا مشکل ترین مرحلہ ہوتاہے۔برخلاف اس کے تنقید آپ
کے حریف کریں تو عام لوگوں کو یہ سمجھانا کسی حد تک آسان ہے کہ چونکہ یہ
ہمارے حریف ہیں لہذا تنقید تو کریں گے ہی۔لیکن اگر وہ آپ کے اپنے ہوں تو نہ
صرف اپنو ں کے درمیاں بلکہ دوسروں کے درمیان بھی سمجھانے کا عمل ناکام ہی
ثابت ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل ملک عزیز ہندوستان میں جاری ہے۔برسر
اقتدار گروہ مختلف منصوبے بنا رہا ہے، ان کو روبہ عمل لانے کی حد تک کوششیں
بھی جاری ہیں،اس کے باوجود نہ صرف دوسرے بلکہ اپنے بھی طریقہ کار پر سوالات
کھڑے کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں آر ایس ایس کے چوٹی کے رہنما اور تھنک ٹینک کہلانے والے گووند
آچاریہ نے تنازعات میں گھرے بی جے پی کے وزراء کو لے کر نریندر مودی حکومت
پر زور دار حملہ بولا ہے۔گووند آچاریہ نے کہا کہ ایسے وزراء کی حمایت کرکے
مرکزی حکومت سیاسی ایمانداری کو ختم کر رہی ہے۔مودی حکومت اقتدار مرکوز
ہوگئی ہے۔ اقتدار کے لیے مودی حکومت نے مسائل اور اقدار کو گڈ بائے کہہ دیا
ہے۔ بی جے پی کے سابق جنرل سکریٹر نے مودی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ
یہ حکومت اقتدار کے لیے ہے نہ کہ عوام کے لیے۔دوسری طرف وزیر اعظم دیجیٹل
انڈیا کو ملک کے مستقبل کی شاہراہ قرار رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ نجی
سیکٹر دیجیٹل انڈیا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے ساڑھے چار لاکھ کروڑ
روپے کی سرمایہ کاری اور اٹھارہ لاکھ لوگوں کو روز گار دے گا۔چونکہ اس
موقعہ پر ملک کے کچھ اہم صنعت کاروں نے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے لیے سرمایہ
کاری اور روزگار کے مواقع کی بات کہی ہے اس لیے وزیر اعظم کے مطابق وقت
تیزی سے بدل رہا ہے اور ٹکنالوجی کے معاملے میں ہمیں بھی وقت کی مانگ کے
مطابق ہی چلنا ہوگا۔ممکن ہے ڈیجیٹل انڈیا کا پروگرام،اس کا افتتاح،اور ملک
کے بدلتے حالات کی سمجھ کے ساتھ اس سیکٹر میں قدم رکھنے کی خواہش کے نتیجہ
میں کچھ تبدیلی آجائے ۔لیکن دوسری جانب ٹکنالوجی کے اس بدلتے دور میں کیا
ہم اور ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال میں تیزی کے ساتھ پستی کی جانب گامزن نہیں
ہے؟وہیں مخصوص فکر سے وابستہ چند مخصوص لوگ ملک کے شہریوں کو مختلف دائروں
میں تقسیم کرنے کے لیے منظم سعی و جہد نہیں کر رہے ہیں؟اسی کے ساتھ ملک میں
ظلم و زیادتیوں کا بازار گرم ہے،غربت اور بنیادی وسائل کی فراہمی ایک بڑا
مسئلہ بنتا جا رہا ہے،امیر و غریب کے درمیان موجود خلیج بڑھ رہی ہے،اور اس
طرھ کے بے شمار مسائل ہیں کہ جن سے اہل ملک نبرد آزماں ہیں۔پھر کیا ان
حالات میں مخصوص صنعت کاروں کا سرمایہ اور ان کی فراہم کردہ ٹکنالوجی مسائل
کے حل میں کارگر ہوسکتی ہے؟اس پس منظر میں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ
گوند آچاریہ کی بات بہت حد تک صحیح ہے ۔کہ حکومت سیاسی ایمانداری کو ختم کر
رہی ہے،اقتدار کے گردمرکوز ہے،نیز حکومت نے مسائل اور اقدار کو گڈ بائے کہہ
دیا ہے۔
بی جے پی کے ایک اور شبھ چنتک جناب وید پرتاپ ویدک،جن کے تذکرے گزشتہ دنوں
نہ صرف سوشل میڈیا پر ایک تصویر سامنے آنے کے بعدبہت زیادہ ہوئے
تھیبلکہپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی ہوئے تھے ،اورجو ایک بڑے جرنلسٹ
بھی ہیں۔وہ حالیہ دنوں لکھے اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ:"نریندر مودی
کے خاموشی کی دہاڑ پورا ملک سن رہا ہے۔آج پورا ملک حیرت زدہ ہے اور بس سن
رہا ہے،لیکن وہ اپنا منہ کب تک بند رکھے گا؟ جب ملک بولنے لگے گا تو حکومت
اور لیڈروں کی آواز کہاں ڈوب جائے گی، پتہ بھی نہیں چلے گا۔ پہلا معاملہ
سشما سوراج کا ہی تھا۔پھر آیا وسندھرا راجے کا اور اب آگئے ہیں،اسمرتی
ایرانی اور پنکجا منڈے کے معاملے بھی!کچھ ارو معاملے بھی ہیں،لیکن ابھی وہ
سامنے نہیں آئے ہیں۔بس ،جھروکھوسے جھانک رہے ہیں۔سارا ملک حیرت زدہ ہے کہ
نریندر مودی جیسے منہ پھٹ آدمی کی بولتی کیسے بند ہو گئی، کیوں ہوگئی؟یہ
ٹھیک ہے کہ گجرات کرکٹ ایسو سی ایشن کے سابق صدر ہونے کے ناطے نریندر مودی
کی للت مودی سے اچھے تعلقات رہے ہوں گے،لیکن نریندر مودی جیسے روکھے آدمی
پر یہ شک کرنا مشکل ہے کہ للت مودی سے ان کے اتنے قریبی تعلقات ہو گئے ہوں
گے،جتنے سشما یا وسندھرا کے تھے یا شردپوار یا کچھ کانگریسی رہنماؤں کے رہے
ہوں گے۔ مودی اور امت شاہ جو بھی کام کرتے ہیں،کافی چاک-چوبند ہوکر کرتے
ہیں،اس لیے ڈریہ نہیں ہے کہ للت ان دونوں رہنماؤں کی کوئی پول کھول دیں
گے۔ان کی خاموشی کی وجہ یہ ڈر نہیں ہے۔خاموشی کی وجہ کچھ اور ہوسکتی ہے۔وہ
یہ کہ نریندر بھائی بولیں تو کیا بولیں؟جب دونوں خواتین-لیڈر صحافیوں کا
سامنا کرنے سے کترارہی ہیں تو مودی اپنی گردن کو کس طرح پھنسائیں؟اگر مودی
یہ بولیں کہ یہ خواتین معصوم ہیں تو سارا الزام پھر ان ماتھے پر لگ جائے
گا۔ابھی تو دو عورتیں تھیں، اب چار ہوگئیں۔مودی آخر کس کس کا دفاع کریں
گے؟"۔مضمون تفصیلی ہے اور دلچسپ بھی،لیکن ہم جس مدے پر بات کر رہے ہیں وہ
یہ کہ جب اندر کی باتیں باہر آنے لگیں اور جب مشکل ترین مرحلے میں آپ کے
اپنے بھی کام نہ آئیں تو پھر معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔اور اس سنگینی
کا دوسرا رخ یہ ہے ایک طرف عوام بے شمار مسائل سے دوچار ہیں تو وہیں اہل
اقتدار خوب خوب آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
منصوبے اور منصوبوں کی عمل آوری میں تضاد،جس سے ہم نے مضمون کا آغاز کیا
تھا،آئیے اس کی ایک مثال بھی دیتے چلیں۔جس سے با خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ
آیا جوبات کہی جارہی ہے وہ تنقید برائے تنقید ہی نہیں بلکہ اُس میں سچائی
بھی موجود ہے۔اقتدار میں آتے ہی حکومت نے ایک بڑا پروجیکٹ گنگا کی صفائی کے
تعلق شروع کیاتھا۔گنگا جو ایک ندی ہے ساتھ ہی مخصوص فکر و عمل سے وابستہ
افراد کی آستھا سے جڑاہوا متبرک پانی،کی صفائی ستھرائی کا پروجیکٹ۔لیکن جب
'نمامی گنگے'جو وزیر اعظم کے مرکزی ایجنڈے کے طور پر پہلے ہی سے مشتہر بھی
تھا،پر کام شروع ہوا تو زبانی حملے بھی ہوئے۔اور اُس پروجیکٹ پر حملے کا
مطلب ہے نریندر مودی پر حملہ۔پھر یہ حملہ کسی اور نے نہیں بلکہ بی جے پی ہی
کے ایک قد آور لیڈر مرلی منوہر جوشی جو سیاسی تجربہ سے مالامال اور دانشور
بھی ہیں ،کی جانب سے ہوا ہے۔اُنہوں نے گنگا کی صفائی کے مسئلے پر زمینی
حالت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ گنگا اگلے 50سال میں بھی صاف نہیں ہوسکے گی،تو
اس بات نے نہ صرف ایک طرف بی جے پی کی اندرونی سیاست میں بھونچال مچادیا
بلکہ دوسری جانب یہ بات بھی واضح کردی کہ منصوبے پر عمل درآمد کا طریقہ
مناسب نہیں ہے۔جوشی نے مرکزی حکومت کے پروگرام'نمامی گنگے'پر الگ رخ اختیار
کرتیہوئے واضح طور پر کہا کہ گنگا ندی کی صفائی کے لیے جس طرح سے پروجیکٹ
چلایا جا رہا ہے،اس سے اگلے 50سال میں بھی ندی صاف نہیں ہوسکے گی۔ساتھ ہی
یہ بھی بتایا کہ جب تک ندی میں اسموتھ واٹر فلو نہیں ہوتا،گنگا کی صفائی
دُور کا خواب ہوگا۔وہیں جوشی نے مرکزی وزیر نتن گڈکری کے 'ان لینڈ واٹر ویز
پروجیکٹ'پر بھی تیکھا طنز کیا۔اور کہا، گنگا میں جہاز چلانا تو دور ،بڑی
ناؤ بھی نہیں چل پائے گی،جبکہ گڈکری کہہ رہے ہیں کہ بھاری مصنوعات کی
ڈھلائی کے لیے گنگا ندی میں بڑے بڑے جہاز چلائیں گے۔اُنہیں گنگا کی موجودہ
حالت کا پتہ لگالینا چاہیے۔جوشی کا مقصد ندیوں کی حالت اور اس کی جغرافیائی
حالت کو لے کر جہاز رانی وزارت کی جنرل نالج سے تھا۔اور جوشی کی بات میں اس
وقت مزید وزن پیدا ہوگیا جب دوارکا اور جیوتش پیٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی
سروپانند سرسوتی بھی مرلی منوہر جوشی کی حمایت میں آگئے۔دوسری جانب سابق
مرکزی وزیر اور سینئر بی جے پی لیڈر ارون شوری نے بھی وزیر اعظم مودی کی
پالیسیوں پر تیکھے سوال اٹھائے ہیں اور مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا
ہے۔مودی حکومت کے طریقہ کار کو لے کر ایک طویل لسٹ ہے یہاں تذکرا ہی ممکن
ہے لہذااتر پردیش کے جالون سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھانو پرتاپ ورما
کی بغاوت کے خط نہیں بھلایا جاسکتا،جس نے بڑے پیمانہ پر وبال مچا یا
تھا۔حالانکہ ورما نے کہا کہ اس خط پر ان کے دستخظ نہیں ہیں،اس کے باوجود خط
میں بی جے پی کو چار گجراتیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بتایا گیا تھا اور کہا
گیا تھا کہ پارٹی میں 'اپنا پن' کا جذبہ ختم کرکے کارپوریٹ تہذیب اپنائی جا
رہی ہے۔ساتھ ہی مودی کی دہشت کا اشارہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ کانگریس میں صرف
ایک منموہن ہیں،لیکن بی جے پی قیادت نے تو ہم سب کو 'مون موہن'بنا رکھا
ہے۔لیکن آج یہ 'مون موہن 'کی بات تو وزیر اعظم پر صادق آتی ہے جبکہ ان سے
پورا ملک کہہ رہا ہو کہ مودی جی اب بہت ہوگیا،کچھ تو بولیں،یہ للت لیکس کیا
ہے؟ا س میں ملوث پارٹی لیڈران کا معاملہ کیا ہے! |
|