چند ایام کابْل میں

’’تشکر کابْل‘‘
(2008ء کا دورہ کابْل)
تحریر: رئیس اختر

جب آپ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر فضا سے کابل شہر پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو خشک پہاڑوں کے درمیان یہ شہر ایک عجیب اور بے رونق شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ اور ذہن ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ نجانے وہاں کیا حالات ہوں۔ لیکن جب آپ کابل کے شہریوں سے ملتے ہیں، وہاں گھومتے پھرتے ہیں تو آپ کا اندازہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ کابل جو کہ 30 سال سے جنگ اور خانہ جنگی کاشکار ہے۔ ایک ایسے نئے شہر کے خدوخال پیش کرتا ہے جو آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمیں اس دورہٓ کابل کا موقع جرمنی کے ایک غیر سرکاری ادارے Friedrich Ebert Stiflungنے فراہم کیا۔ 13پاکستانی نوجوانوں پرمبنی وفد 20اکتوبر 2008کو FESافغانستان کی دعوت پر کابل روانہ ہوا۔ دورے کا مقصدافغانی اور پاکستانی نوجوانوں کو ایک دوسرے سے ملانا اور دونوں ممالک کو درپیش مسائل اور معاملات پر غور و فکر کرنے کے علاوہ باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا تھا۔ پاکستانی وفد کی میزبانFESافغانستان کی کنٹری ڈائریکٹر اْرزو کولاخ اور اْن کے معاون سلیمان قیامت نے میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پاکستانی وفد کا بہت خیال رکھا۔ کابل میں ہمارا قیام شہر نو کے علاقہ میں واقع سینٹرل ہوٹل میں تھا۔ شہر نو کا علاقہ ظاہر شاہ کے دور میں آباد ہوا۔ جو ایک جدید اور گنجان علاقہ تھا مگر اب صورتِ حال مختلف ہے۔ کابل شہر کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے، وہاں کے شہریوں کی اکثریت فارسی بولتی اور سمجھتی ہے۔ کابل کے شہری نسلاً تو پختون ہیں لیکن وہ خود کو کابلی کہلانا زیادہ پسند کرتیہیں۔ کابل شہر میں چند سنیما گھر بھی ہیں جن میں زیادہ تر بھارتی اور ایرانی فلموں کی نمائش ہوتی ہے۔ یہاں لسانی کشیدگی بدستور موجود ہے اور فارسی بولنے والے قندھار اور جلال آباد جانے سے کتراتے ہیں اور پختون مزار شریف جانے سے۔ اس صورتِ حال کے باوجود تمام افغانی افغانستان کو متحد اور طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور باہمی اختلافات کے نقصانات کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔
کابل شہر میں قہوہ خانے، شراب خانے اور نائٹ کلب بھی موجود ہیں۔ کابل میں ایک جبکہ کابل سے باہر دو متوازی حکومتیں ہیں ایک حامد کرزئی اور دوسری جنگجو سرداروں اور طالبان کی۔عوام دونوں کے ہی احکامات کو مانتے ہیں۔ آج کی افغان سرکار میں پاکستانی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ افغان نوجوان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جو افغان حکومت میں اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت اور عقیدت بھی۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہم نے تو خود اپنے آپ سے محبت کرنا چھوڑ دی ہے تو پھر دوسرے ہمارے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ افغانستان آنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ افغانستان میں سول سوسائٹی زیادہ اثر نہیں رکھتی۔ مگر کابل آکر میرا اندازہ غلط نکلا۔ یہاں کی سوسائٹی کافی مضبوط ہورہی ہے اور اپنا کردارموثر انداز میں ادا کررہی ہے۔ یہ بات میرے لئے حیرت کا باعث تھی کہ صرف کابل شہر میں 100 سے زائد این جی اوز، خواتین کے حقوق کے لئے کام کررہی ہیں۔ افغانستان کے لوگ پاکستان کے لوگوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان کے احسان مند ہیں کہ اْنہوں نے جنگ کے دوران افغانیوں کو پناہ دی مگر افغان پاکستانی حکومت اور اداروں سے خفا ہیں اور ان کو اپنی بعض مشکلات کا باعث سمجھتے ہیں۔ اپنے اس وزٹ میں مجھے مختلف شعبوں کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ جن میں جرنلسٹ، ممبر آف پارلیمنٹ، سول سوسائٹی کے افراد اور عام افغانی بالخصوص نوجوان، سب کو پاکستان سے مخلص اور محبت کرنے والا پایا۔ کابل آکر اس خیال کی بھی تردید ہوئی کہ کابل میں لوگ پاکستانیوں کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کیبرعکس کابل کے لوگ پاکستانیوں کو اپنا بھائی کہتے ہیں اور پاکستان کے خراب حالات میں افغانستان پر اْس کے اثرات کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں اور موجودہ صورت حال پر کابلی لوگوں میں کافی تشویش میں محسوس کی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان وفود کا تبادلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس سے رابطے کا جو فقدان ہے اْس میں کمی واقع ہوگی۔ مختصراً یہ کہ مستحکم اور پْرامن حالات پاکستان و افغانستان دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔

کابل شہر میں فارسی و پشتو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اْردو ہے۔ کابل شہرجدید عمارات اور شاپنگ سینٹرز کے ذریعے اپنے تیس سالہ جنگی دور کے اثرات کو زائل کررہا ہے۔ زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔بھارتی چینلوں کے ڈرامے وہاں مقبول ہیں جنہیں فارسی زبان میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور اسٹار پلس بھی فارسی زبان میں ہی نشر کیا جاتا ہے۔ کابل شہر میں بھارت کا تعمیر کے تعمیر کردہ اندراگاندھی اسپتال کا شمار شہر کے بڑے اور اچھے اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ کابل کی سڑکوں پر ٹاٹا کمپنی کی بھارتی اور پاکستان کی جانب سے دی گئیں بسیں بھی سڑکوں پر باآسانی دکھائی دیتی ہیں۔ جب ہم کابل اور دہلی کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں تو افغان نوجوان اْس سے خائف ہوتے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ جس طرح پاکستان سے ہمارے تعلقات اہم ہیں اْسی طرح بھارت سے بھی ہیں۔ پاکستان ہمیں Dictationنہ دے اور افغانیوں کی ایک کثیر تعداد انڈیا سے دوستانہ تعلقات کی خواہش مند ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انڈیا افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کے ساتھ موجود ہے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم افغانستان اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو نشانہ بنانے کے بجائے افغانستان سے اپنے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی۔ افغانستان میں قیام کے دوران پاکستانی وفد کو کابل کے نوجوان ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی تنظیم اور پاکستانی نوجوانوں کا کردار پاکستان اور افغانستان کی موجودہ صورت حال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر پاکستانی وفد کے میزبان سلیمان قیامت بھی موجود تھے ، کاشانہ نویس گان کے علاوہ دیگر گروپس، آرگنائزیشن، سرکاری اداروں، اخبارات جن میں کو آپریشن فار پیس اینڈ یونٹی، یوتھ ایمپاورمنٹ پروگرام، انجمن نوجوانانِ ولایت کابل، افغانستان سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز، انٹرنیوز نیٹ ورک افغانستان، ریجنل اسٹڈیز سینٹرآف افغانستان۔ افغان سول سوسائٹی فور ACSF، نے پاکستانی وفد کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیئے۔ ان تقاریب میں پاکستانی نوجوانوں کو افغانی نوجوانوں اور اداروں سے کھل کر بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ منسٹری آف فارن چیف اسٹاف فارن اور کلچر افیئرز، ڈپٹی منسٹر یوتھ افیئرز محمد ظاہر غوث اور کابل سے رکن پارلیمنٹ جمیل کرزئی جو نیشنل یوتھ سو لیڈریٹی پارٹی آف افغانستان کے سربراہ ہیں نے پاکستانی وفد کے اعزاز میں مختلف تقاریب منعقد کی۔ جمیل کرزئی آٹھ سال کا طویل عرصہ کوئٹہ پاکستان میں گزار چکے ہیں اور حامد کرزئی کے کرزئی کے کزن ہیں۔ دوران گفتگو جمیل کرزئی نے پاکستان حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ افغانستان کبھی بھی بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بلوچستان لسانی خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے جس سے افغانستان مزید متاثر ہوگا۔ اس طرح کے ملتے جلتے خیالات کااظہار مختلف محفلوں میں افغان صحافیوں، ادیبوں، سول سوسائٹی کے لوگوں اور دیگر شعبہ جات کے لوگوں نے کیا۔ شمالی اتحاد کے شہید سربراہ احمد شاہ مسعود کے دستِ راست اور ہفت روزہ کابل کے چیف ایڈیٹر فہیم دشتی مجھ سے ملاقات کے لئے ہوٹل تشریف لائے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ میری خواہش ملاقات پر وہ خود تشریف لائے۔ فہیم دشتی کی مادری زبان فارسی ہے اور سیاسی وابستگی احمد شاہ مسعود سے رہی ہے۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے فہیم دشتی سے کھل کر گفتگو ہوئی۔ فہیم دشتی نے شکوہ کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ فارسی بولنے والوں کو نظر انداز کیا۔ اس حقیقت باوجود کہ افغانستان کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کی مادری زبان پشتو نہیں ہے اور کابل شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی غیر پختونوں پر مشتمل ہے۔ فہیم دشتی نے کہا کہ پاکستانی اداروں نے صرف لسانی بنیاد پر پختون سیاسی اور مذہبی گروپوں کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی اتحاد پاکستان سے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کا خواہاں ہے مگر اس کے لئے پاکستان بھی ہاتھ بڑھائے۔ اْنہوں نے پاکستانی عوام سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا مگر اس کے ساتھ ہی پاکستانی حکومت اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ فہیم دشتی نے پاکستان اور بالخصوص کراچی کا دورہ کرنے اور پاکستانی سول سوسائٹی، صحافیوں، ادیبوں سے ملنے اور شمالی اتحاد اور فارسی بولنے والے لوگوں کا نقطہٓ نظر پیش کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف شعبہٓ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئے کہ وہ باہمی روابط کو بڑھائیں تاکہ آپس میں پید اہونے والی غلط فہمیاں اور دوریاں ختم ہوں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386220 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More