پہلا روزہ۔۔ ٹھیک سے تو
یاد نہیں۔۔ یہ تو گھر والوں کو اچھے سے پتہ ہو گا کہ انھوں نے ہمارا پہلا
روزہ کب رکھوایا۔۔ اس لیے نہ دن یاد ہے نہ رات، نہ عمر یاد ہے نہ ماہ و
سال، مہربانوں نے ہمیں سکول پڑھنے کے لیے عام عمر سے ایک سال پہلے بھیج دیا
تھا تو روزے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کیا ہو گا۔۔
یاد ہے تو۔۔!
بچپن میں رمضان کی آمد پر گھر می مکمل صفائیاں ہونا کسی کی آمد کی تیاری
جیسا لگتا۔ پھر سب کو روزہ، رمضان کا چاند دیکھتے ہوئے پاتی تھی۔ جبکہ میں
اس اہتمام کو ایسے دیکھتی تھی کہ روزے آئیں گے تو عید آئے گی، عید آئے گی
تو عید کا جوڑا، مہندی، چوڑیاں، کھانے کو سویاں ملیں گی اور عید کے روز گھر
کے باہر سہیلی گروپ کے ساتھ عید گزارنے کا تصور بڑا دلکش لگتا تھا۔۔۔ عید
کے دن لپ اسٹک لگانے کی بھی کھلی چھٹی۔۔ جو سارا سال پابندی کی طرح ہم پہ
عائد رہتی۔اس لیے ہمارے عیدی والے پرس میں عیدی کے علاوہ ایک عدد سرخ رنگ
کی سستی سی لپ اسٹک بھی رہتی تھی۔ عید منانے کے لیے ہم گھر سے بن سنور کر
جاتے لیکن جیسے ہی کسی سٹال سے آلو چنے کی چٹپٹی چاٹ یا کچھ اور کھاتے پیتے
تو فورا لپ اسٹک اترنے کا احتمال سر پہ سوار ہو جاتا۔ ہم فورا پرس سے لپ
اسٹک نکال کر اندازے سے دوبارہ ہونٹوں پہ جما لیتے۔۔ یوں پورا دن نہ جانے
کتنی بار ہمارا پرس کھلتا۔۔۔۔ لیکن وہ تب کی اکلوتی لپ اسٹک جو دلی خوشی
ہمیں دیا کرتی تھی۔۔ آج ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی کئی خوبصورت رنگوں کی مہنگی
مہنگی لپ اسٹک سے بھی مفقود ہے۔
تب تک ہمیں روزہ کے بارے میں کوئی خاص پتہ نہ تھا۔ دو تین بار رات کے
اندھیرے میں ہم نے گھر والوں کو برتنوں کی کھٹر پٹر اور باتیں کرتے محسوس
کیا۔ صبح پوچھ لیں گے یہ سوچ کر کروٹ بدل کر سو گئے۔ صبح ہوتے ہی بھول
جاتے۔ ایک بار یاد آیا تو امی سے پوچھ لیا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم صبح روزہ
رکھتے ہیں۔ نہ انھوں نے مزید بتایا نہ ان سے پوچھا گیا۔ ہم نے خود ہی روزے
کی بجائے۔۔ رکھنے۔۔ پہ دھیان جما لیا کہ ہوتی ہو گی کوئی چیز جسے یہ صبح
صبح اٹھ کر الماری میں رکھتے ہوں گے۔ اگر زیادہ ضروری ہوتی ہو گی تو تالا
بھی لگا لیتے ہوں گے۔ یوں ہم نے روزے کو الماری میں رکھ دیا۔۔
پھر اسی طرح ایک بار سحری کے وقت ہماری آنکھ کھلی تو ہم بستر سے اٹھ کر چل
دیئے۔ واہ۔ دستر خوان بچھا ہوا تھا اور گھر والے سحری کھا رہے تھے۔ سب چونک
کر سر اٹھا کر ہمیں یوں دیکھنے لگے جیسے ہم نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا
ہو۔۔
“ارے اتنی جلدی اٹھ گئی۔۔ اچھا چلو آ ہی گئی ہو تو تم بھی روٹی کھا لو۔۔”
واہ واہ روٹی کے نام پر۔۔ گھی سے تربترپراٹھے، انڈے کا خاگینہ، قیمہ آلو،
میٹھا دہی گرم گرم چائے۔۔ اتنی صبح کھانا کھانے کا یہ پہلا اتفاق تھا لیکن
دل کو بہت بھایا(ہوں، تو صبح صبح یہ مزے ہوتے ہیں)اس طرح ہم نے بغیر روزے
کے کئی سحریاں کھائیں۔ بغیر کسی محنت کے ہماری آنکھ ہلکے سے کھٹکے سے کھل
جاتی اور ہم فورا بستر سے نیچے پاؤں اتار دیتے۔ گھر والے مسکرا کر اپنے
درمیان ہمیں بھی فٹ کر لیتےاور سحری کھلا کر دوبارہ بستر میں بھیج دیتے۔۔
واللہ قسم، ہم چٹورے ہرگز نہیں ہیں۔۔ کھانا بھی ناپ تول کر ڈاکٹر حکماء کی
نصیحتوں، فضیحتوں کے مطابق کھاتے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارے اندر نہ جانے
کونسی گھڑی فٹ ہو گئی تھی جو عین اسی وقت الارم بجا دیتی۔۔
پھر آہستہ آہستہ عید کی خاطر ہی سہی لیکن رمضان کے چاند کا انتظار رہنے
لگا۔۔ چھت پر جا کر اسے دیکھنے کی خوشی ملنے لگی۔ گھر والوں کو سحری کھاتے
اور افطاری کا اہتمام کرتے دیکھنا اچھا لگنے لگا۔ افطاری کے لیے کھانے کے
ساتھ کبھی پکوڑے گھر میں بن جاتے، کبھی سموسے باہر سے آ جاتے۔ یہ بڑامزے کا
پروگرا م لگتا۔ دیگر گھروں سے بھی افطاری کے نام پہ پکوان آ جاتے۔ خود بھی
افطاری تقسیم کی جاتی۔ اہتمام، شیئرنگ، خوشی، جذبہ سب گڈ مڈ ہونے لگے۔ گھر
والے ہمیں چھوٹا جان کر نظر انداز کیے ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک دھماکا ہو
گیا، جب ہم نے یہ اعلان کر دیا،
“ہم بھی روزہ رکھیں گے۔”
(گھر والوں نے چونک کر ہماری طرف دیکھا(کیا ہم واقعی بڑے ہو گئے تھے
“اچھا دیکھتے ہیں۔”
ان کا جواب بڑا سیاسی تھا۔ اس دیکھتے کے نام پہ جو کچھ انھوں نے ہمارے ساتھ
کیا وہ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا۔ اگلی صبح سحری کھلانے کے بعد انھوں نے کہا
کہ تمھارا روزہ ہو گیا ہے۔ اور دوپہر کو بلا کر کھانا کھلا دیا کہ تمھارا
روزہ کھل گیا ہے۔ ہم نے اپنے روزے کا مقابلہ کرنا چاہا تو انھوں نے آرام سے
کہہ دیا۔
“بڑے ایک دن میں ایک روزہ رکھتے ہیں اور بچے دو۔۔ یہ اللہ میاں کی بچوں کے
لیے خاص رعایت ہے۔ ”
وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے ہمارا۔۔ چڑی روزہ ۔۔ رکھوا دیا تھا۔
جبکہ ہم ایک دن میں دو روزے رکھ کر خوش تھے۔ لیکن یہ رعایت صرف اور صرف
عارضی تھی۔ کیونکہ بڑے ہونے پر باقاعدگی سے جو روزوں کا آغاز ہوا تو مجال
ہے کبھی گھر والوں نے کوئی رعایت دی ہو یا کبھی کھوجا کرنے کا موقع دیا ہو۔
یاد کیا دل نے ۔۔۔!
ایک بار بچپن میں ہم نے روزوں میں بغاوت کر دی۔۔!
افطاری میں روزانہ تقریبا ایک جیسی چیزیں دیکھ کرہمیں کچھ چڑ سی ہونے لگی
تھی۔ اس دن بھی دستر خوان حسبِ دستور سجا تھا۔ کھجوریں، لیموں پانی۔ کٹے
ہوئے پھل، جن میں امرود واضح تھا۔ گھر کے آنگن میں اس کا موجود ہونا مطلب
روز افطاری کے دسترخوان پہ اس کا نظر آنا ۔۔۔۔
کبھی گلابی گلابی کٹے امرود۔۔۔
کبھی مختلف پھلوں کے اندر جلوہ افروز ہوتا ہوا امرود۔۔
زیادہ ہی رتبہ بلند ہوا تو امرود کاٹ کر اس پہ خوب نمک، لال مرچ اور لیموں
ڈال کر امرودوں کا کچالو۔۔
جسے دیکھ کر طبیعت للچانے کی بجائے کچھ اوبنے لگی تھی۔ ہم نے شکایتی نظروں
سے صحن کے کونے میں لگے امرود کے درخت کو دیکھا۔ اورعین روزہ کھلتے ہی ہم
نے اعلان کر دیا،
میں روزہ نہیں کھولوں گی۔!
افطاری کی دعا پڑھ کر کوئی لیموں پانی پی رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں کھجور
تھی، کوئی پھل کی قاش اٹھا رہا تھا۔۔ سب ہاتھ روک کرحیران ہکا بکا ہو کر
دیکھنے لگے۔۔(رمضان میں شیطان کا نزول)
منظر ساکت ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
گھر والوں نے دو تین بار وجہ پوچھی اورپیار سے روزہ کھولنے کے لیے کہا۔۔
لیکن ہم اکڑے بیٹھے تھے۔ وجہ بھی نہ بتائی۔ روزانہ کا خاموش احتجاج رنگ لے
آیا تھا۔ پَر کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ والد صاحب جو پہلے پیار سے پوچھ رہے
تھے، سنتِ رسول سمجھاتے ہوئے انھوں نے اچانک اپنا لیکچر شروع کر دیا۔۔ اس
سے پہلے کہ ان کا لیکچر لمبا ہو جائے کوئی چارہ نہ پا کر ہم نے چپکے سے ایک
کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی اور روزہ کھول لیا۔
بچپن کے رمضان کی ایک اور یاد بڑی دلکش ہے۔ ہمیشہ مولوی صاحب مسجد میں لگے
سپیکر کے ذریعے روزہ کھلنے کا اعلان کرتے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ مولوی
صاحب سپیکر میں دو تین پھونکیں مار کر خاموش ہو جاتے۔ ادھر لوگ کھجور ہاتھ
میں لیے ایسے بیٹھے ہیں جیسے کوئی ریس شروع ہونے والی ہے۔ اعلان میں دیر ہو
جاتی تو لوگ شکوہ کناں ہو کر کہتے، لگتا ہے مولوی صاحب پہلے خود روزہ
کھولیں گے۔ پھر اعلان کر کے دوسروں کا روزہ کھلوائیں گے۔۔۔
یاد نہ جائے بیتے دنوں کی،
بچپن کے یہ دن بڑے ہی سہانے تھے اور یادیں بڑی دلکش۔۔ کہ آج موبائل، ٹی وی
کے ساتھ روزہ کھولنے والوں کو بھی یقینا وہ وقت تو ضرور یاد آتا ہو گا۔۔ |