آج کی زندگی

دور حاضر میں جہاں ہم نے اپنے ویل ایجوکیٹیڈ اور ماڈرن سمجھتے ہیں وہاں کے باقی ،حق گوئی ،سچ ایمانداری جیسی چیزیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی جبکہ لالچ ،حوس ،مکاری اور فریب ہر طرف نمایا ں ہے غرور ،تکبر ،نکتہ چینی اور دوسروں کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی خواہش ہمارا شوق بن چکی ہے۔

انسان کی سرشت ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہے جس میں ہر قسم کا عکس پڑتا ہے جہاں بھی جس بھی حال میں وہ رہتا ہے ویسا ہی روپ ڈھال لیتا ہے پہاڑوں میں پہاڑ سا ،چٹانوں میں چٹان سا ،پھولوں میں گلاب سا اور بروں میں شیطان سا ۔آج کے انسان کا وجود بالکل ویسا ہے جس کو صرف اپنی ہی فکر ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بے باقی حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری دروبارہی پر اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
کردا کا ،گفتار کا ،عمل کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کو ئی پنجاب کا مومن
ڈھونڈنے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے یہ واقعہ
ایک مرتبہ ایک آدمی بابا جی کے پاس گیا اس آدمی نے سن رکھا تھا کہ یہ بابا سونا بنانے کا ہنر جانتا ہے آدمی بابا جی پاس حاضر ہوا اور بولا کیا آپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے بابا نے خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور سر ہاں میں ہلا دیا ۔آدمی نے عرض کیا آپ یہ ہنر مجھے میں سیکھا دیں گے ؟ بابا نے غور سے اس آدمی کو دیکھا اور پوچھا یہ ہنر جان کر تم کیا کروگے ؟میں دولت بناؤں گا بابا بہت زیادہ ہنسا جب ہنس ہنس کر بے حال ہوا تو اسی بے حالی کے عالم میں پوچھا تم دولت مند ہوگئے تو کیا کروگے پھر ؟

آدمی نے جواب دیا میں دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا خوش ہوں گا اور سکون مجھے حاصل ہوگا ۔بابا جی نے غور سے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہاگویا تم دولت نہیں بلکہ سکون اورخوشحالی چاہتے ہوکیا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو آدمی اس وقت خاموش رہا نوجوان تھا اور دنیا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سمجھتا تھا اس وقت وہ بابا جی باتو ں میں کنفیوز ہوگیا اور ہا ں میں سر ہلا دیا ۔

آدمی کے ہاں میں سر ہلانے سے بابا نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا اور ہنستے ہنستے بولا میں تمہیں سونے کے بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ سکھا دوں ؟ خوش رہنے کا قرب کیو ں نہ سیکھا دوں۔آدمی خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔انسان کی خواہش اس کی وجود اور عمر سے لمبی ہے تم اپنی خواہش کو اپنی عمر اور وجود سے چھوٹا کرلو تم خوش بھی ہوجاؤ ں گے اور بندے بھی بن جاؤگے ۔

تم قرآن پاک میں پڑھو اﷲ نے اپنی خواہشوں میں لگے ہوتے بشر کو انسان اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ کہا ہے ۔

بابا جی کامران کی بارہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے اس کو بتانے والا بھی انسان تھا ۔وہ پوری زندگی دولت ہی جمع کرتا رہا دولت اور عمارات نے اسے سکون اور خوشی نہ دی پرسکون تو میں ہوں جو اس دولت مند کی گری بڑی بارہ دری میں برستی بارش میں پرسکون بیٹھا ہوں ۔اس آدمی نے بے صبر ی سے کہا اور میں بھی تو بابا جی سے سیکھنا شروع کردیا اور فرمایا تم جب تک تامبا کو سونا بنانے کا خبط پالتے رہوگے تم اس وقت خوشی سے دور رہوگے ۔

بابا جی نے زمین سے ایک ٹہنی توڑی اور فرش پر رگڑی اور بولے میں تمہیں انسان سے بندہ بنانے کانسخہ بتا تا ہوں۔اپنی خواہش کو کبھی اپنے قدمو ں سے آگے نہ نکلنے دو ۔جو مل گیا اس پر شکر ادا کرو۔جو چھین گیا اس پر افسوس نہ کرو۔جو مانگ لے اسے دے دو۔جوبھول جائے اس بھول جاؤ ۔دنیا میں بے سامان آئے تھے بے سامان ہی جاؤگے ،ہنجوم سے پرہیز کرو۔مفتی ہوتو فتوی جاری نہ کرو ۔بلا ضروت سچ فساد ہے کوئی پوچھے تو سچ بولو ورنہ چپ رہو ۔لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے ۔

زندگی میں خوشی اور سکون کم ہوجائے تو سیر پر نکل جاؤراستے میں سکون اور خوشی مل جائے گی ۔دینے میں خوشی اور وصو ل کرنے میں غم ہے ۔جو دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاؤ گے ۔چوروں میں رہوگے تو چور بن جاؤ گے ۔سادوں میں رہوگے تو اندرکی سادگی جاگ جائے گی۔اﷲ تعالی راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا وہ ناراض رہے گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑجائے گی ۔

جب تم رشتہ دار ،اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگے تو جان لو خالق راضی ہے اور ہجرت کرنے والا کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔ان الفاظ کے بعد بابا جی نے اس آدمی کی چھتری کھولی اور فرمایا جاؤتم پر یہ رحمت کی چھتری آخری سانس تک رہے گی ۔بس ایک چیز کا دھیان رکھنا ۔

کسی کو خود نہ چھوڑنا اور دوسرے کو فیصلہ کرنے کا موقع دینا یہ اﷲ کی سنت ہے اﷲ کبھی بھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں کرتا ۔مخلوق خالق کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔

جو جارہا ہے اسے جانے دینا مگر جو واپس آرہا ہو اس پر کبھی اپنے دروازے بند مت کرنا یہ بھی اﷲ کی عادت ہے اﷲ واپس آنے والوں پر بھی اپنے دروازے بند نہیں رکھتا اﷲ تم پر راضی رہے گا دور تمہارے در پرمیلہ لگارہے گا ۔
Khushbukht
About the Author: Khushbukht Read More Articles by Khushbukht: 5 Articles with 4403 views I am digital marketer by profession but at the same time i am running small origination for poor where i do teach them and provide them breakfast.I am.. View More