۱۷ رمضان المبارک ، عالم اسلام
کے لیے ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ آج ہی کے دن غزوۂ بدر پیش آیا۔ اسلام اور
کفر کا پہلا اور اہم ترین معرکہ۔ اس غزوہ میں مسلمان قریش کے مقابلہ میں
ایک تہائی سے بھی کم تھے۔ باجود اس کے فتح و نصرت مسلمانوں کے حصے میں آئی۔
غزوۂ بدر ہو یا دیگر غزوات۔ مسلمانوں کی فتح و نصرت کی وجہ صرف ایک تھی۔ اﷲ
اور اس کے رسول سے شدید محبت۔ اس جنگ میں کئی ایسے صحابی بھی تھے جن کے
سامنے ان کے انتہائی قریبی رشتہ دار تھے لیکن ایمان لانے کے بعد اﷲ اور اس
کے رسول کی محبت کے آگے سارے رشتے، ساری محبتیں ہیچ تھیں۔نبی ﷺ کی محبت کے
جام نے انھیں مادّی احساسات سے بے نیاز کر دیا تھا۔ انھیں بس ایک ہی فکر
تھی کہ اﷲ اور اس کا رسولﷺ ان سے رازی ہو جائے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے اور
مسلمانوں کی کامیابیوں کے عظیم اورناقابل فراموش واقعات پر جس قدر غور
کیجیے، عقل حیران رہ جاتی ہے۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے جوش جہاد کا اندازہ
صرف اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ دورانِ جنگ ایک صحابی( عمر بن جام)
کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرم کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و
استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘
سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان صرف
اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے
کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔یہی وہ جذبۂ محبت
تھا جو انھیں ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے راغب کرتا تھا۔ اسلام کی فتح
و سربلندی کی ساری داستانوں کا مرکز و محوریہی ’’جذبۂ عشق‘‘ ہے
صدق خلیلؓ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
اسی غزوۂ بدر میں انصار کے دو کم سن بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن
عفر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کے پاس آئے اور ان سے ابوجہل کے متعلق پوچھنے
لگے کہ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ
وہ ہمارے پیارے رسولﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔اس ذات پاک کی قسم جس کے
قبضے میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اس وقت تک اس سے جدا نہ
ہوں گا جب تک میں اسے مار نہ دوں یا خود شہید نہ ہو جاؤں۔ اتفاق سے ابوجہل
کا ادھر سے گذر ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے ابو جہل کی طرف اشارہ کر
دیا۔ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اس کی طرف لپکے ۔ ایک نے ابو جہل
پر اور ایک نے اس کے گھوڑے پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابو جہل دونوں ہی گڑ
پڑے۔ ابو جہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر ایسا وار کیا کہ ان کا بازو لٹک
گیا۔ نبی کی محبت سے سرشار اس کم عمر صحابی نے بازو کو راستے میں حائل
دیکھا تو اپنے پیر سے داب کر اسے کندھے سے جدا کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے
دشمن پر حملہ بول دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور
انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس
کا سر تن سے جدا کر دیا۔
یہ تو محض چند مثالیں ہیں ۔ تاریخ کے اوراق عشق و محبت اور وفاداری کے ایسے
ہزارہا واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ آج ہم مسلمانوں کے سینے عشق کی اس آگ سے
ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔ ذرا اپنے دل سے پوچھیے کہ کیا ہمارے دلوں میں اﷲ اور اس
کے رسول کی محبتیں جوش مارتی ہیں؟ کیا خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہم
دنیاوی آرام و آسائش ، عہدے و منصب چھوڑنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا اﷲ اور اس
کے رسول کی محبت ہمیں اطاعت پر مجبور کرتی ہے؟ نہیں ۔۔۔۔ شاید نہیں۔پھر یہ
علم و حکمت کی باتیں، یہ منطق و فلسفے، یہ بحث و مناظرے، تحریر و تقریر کی
گرم بازاریاں آخر کس کام کی
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہم سے یا ایھا الذین امنو ا ادخلو ا فی السلم
کافۃ(ائے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ) کا تقاضا کرتی
ہے۔ آج کے دن ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس آیت کے تقاضوں کو
کہاں تک پورا کررہا ہے۔ دعویٔ محبت ہم سے یا ایھا الذین امنو ا اتقوا اﷲ و
قولو ا قولا سدیدا( ائے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہو) کا
مطالبہ کر رہا ہے۔ آج کے دن ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم اس حکم پر کس قدر
عمل پیرا ہیں۔ آج کے دن ہمیں یہ آیت یا ایھا الذین امنو ا لما تقولون ما لا
تفعلون (ائے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں) یاد دہانی کرا
رہی ہے کہ کیا ہمارے قول و فعل میں یکسانیت ہے؟
غزوہ ٔ بدر اسلام اور کفر کے درمیان صرف ایک جنگ ہی نہیں تھی بلکہ رہتی
دنیا تک کے لیے اس میں ایک لافانی پیغام بھی تھا۔ مسلمانوں کا مختصر سا
دستہ ، تعداد ، طاقت و قوت اور اسباب و وسائل ہر اعتبارسے کافروں کے مقابلہ
میں کمزور تھا۔ ان کے پاس طاقت تھی تو بس ایمان اور یقین کی اور ایمان و
یقین کا یہ بیش قیمت خزانہ انھیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے عوض حاصل
ہوا تھا۔ یہی محبت انھیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے حکموں کی اطاعت پر ابھارتی
تھی۔ یہی محبت انھیں خلق خدا کے لیے صعوبتیں اٹھانے پر مجبور کرتی تھی۔ اسی
محبت کے طفیل بڑے بڑے بادشاہان وقت نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ آج ہمارے
دلوں سے یہی جذبۂ محبت سرد ہو چکا ہے یا باقی بھی ہے تو صرف کھوکھلے دعووں
تک۔ آج کے دن اپنے دلوں کو محاسبے کے لیے چھوڑ دیجیے۔ اس سے پوچھیے کہ تو
اگر خدا اور رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو بتا کہ ان کے حکموں کی
کہاں تک بجا آوری کرتا ہے؟ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی ہمیں یہ پیغام
دیتی ہے کہ ہمیں زبانی دعووں سے اوپر اٹھ کر عملی سطح پر پیش رفت کرنی ہوگی
تبھی اﷲ کی نصرت ہمیں نصیب ہوگی اور ہمارا شمار بھی اس کے مقرب ترین بندوں
میں ہوگا
فضائے بدر پیدا کر، ستارے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی |