ماہ ِ رمضان کی آمد آمد ہے ۔ یہ
مہینہ مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ مبارک مہینہ اپنے ساتھ بے
شمار فیوض و برکات لے کر آتا ہے ۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی گلیوں بازاروں
میں رونق بڑھ جاتی ہے ۔مسجدوں میں عبادات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس
ماہ ِ مبارک مہینے کو رحمتوں کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ دراصل یہ ایک ایسا
مہینہ ہے جو کہ تقوی ٰ اور پرہیزگاری کی جانب بڑھنے کے لیے ایک پریکٹس کی
سی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس ماہ ِ مبارک میں روزہ رکھنے والا شخص ان غریبوں کی
بھوک اور پیاس کا اندازہ کر پا تا ہے جنھیں کھانے کو کچھ میسر نہیں ۔
جسمانی برکات کے ساتھ ساتھ اس ماہ ِ مبارک کو جہنم سے نجات کا مہینہ بھی
کہا جاتا ہے ۔قرآن اور حدیث میں رمضان کے ان گنت فضائل بیان ہوئے ۔قرآن پاک
میں اﷲ تعالی ٰ کا ارشاد ہے
اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے
گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ(البقرہ :۱۸۳)
ایک اور جگہ کچھ یوں ارشاد ہوتا ہے
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے
اور جس میں رہنمائی کرنے کرنے والی اور( حق اور باطل میں)امتیاز کرنے والی
واضع نشانیاں ہیں ۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پا لے تو وہ اس کے
روزے رکھے (البقرہ :۱۸۵)
حدیث مبارکہ میں کچھ اس طرح بیان ہوا۔
جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اﷲتعالیٰ کو
اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے ۔ (بخاری )
جب کوئی روزہ رکھے تو کوئی بے ہودہ بات نہ کرے نہ ہی لغویات کرے ۔ اگر کوئی
اس سے جھگڑا کرے تووہ کہہ دے میں روزے سے ہوں ۔( بخاری )گویا روزہ دار کے
لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ رکھ کر بھی ان کاموں کو نہ چھوڑے جن کو اپنانے کی
مذہب اجازت نہیں دیتا ۔ روزہ دار اگر گالی گلوچ ، ذخیرہ اندوزی ، اور دیگر
برائیاں نہ چھوڑے تو روزہ رکھنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ روزہ از
خود بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی احسن تربیت ہے جس کو
اگر مکمل روح کے ساتھ اپنایا جائے تو کئی قسم کی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے
۔روزہ نہ صرف معاشرتی برائیوں کے خلاف ایک جنگ ہے بلکہ یہ کئی طرح کی
بیماریوں روحانی اور جسمانی سے بھیبچاؤ کا ایک ذریعہ ہے ۔رمضان کا احترام
یہ ہے کہ روزہ رکھ کر دین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے ، اور جو عادات
رمضان میں اپنائی جائیں انھیں اگلا پورا سال اپنی زندگیوں پر لاگو کیا جائے
۔ ہمارے ہاں رمضان میں تو مساجد میں رونق دیدنی ہوتی ہے لیکن رمضان کے گزر
جانے کے بعد مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔
ہمارے ہاں روزہ تو بڑے اہتمام سے رکھا جاتا ہے تاہم اکثر و بیشتر دیکھنے
میں آیا ہے کہ روزہ رکھنے کے باوجود ہمارے یہاں نہ تو ذخیرہ اندوزی چھوڑی
جاتی ہے ، اورلوگ بازاروں ، دفاتر اور گھروں میں لڑتے جھگڑتے رہیتے ہیں۔
غریبوں اور ناداروں کا احساس نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنے نفس کا تذکیہ
کیا جاتا ہے ۔
ہر سال ماہِ رمضان برکتیں اور رحمتیں اپنے ساتھ لاتا ہے لیکن اس کے باوجود
ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوتی اس کا
بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں روزہ تو رکھا جاتا ہے لیکن اس کی روح کو
سمجھنے یا روزے کی فرضیت کے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔بنیادی
طور پر ہمارے ہاں روزے کو ایک فرض کے طور پر رکھا جاتا ہے ۔ حالانکہ روزہ
کی حیثیت ایک ایسی جسمانی عبادت کی سی ہے جو کہ انفرادی حیثیت سے لے کر
اجتماعی طور پر پورے معاشرے کی اصلاح کا سبب بن سکتا ہے ۔
مغربی ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ جب ان کے ہاں کرسمس یا کوئی اور مذہبی
تہوار آتا ہے تو یہ ممالک میں مذہبی تہواروں کے موقع پر حکومت اور تاجر
حضرات کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔ امریکہ ، جرمنی ، برطانیہ
اور خاص طور پر یورپی ممالک میں یہ رواج عام ہے کہ ان ممالک میں کرسمس کے
دنوں میں کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ کم کر دئیے جاتے ہیں ۔ہیں تاکہ وہ لوگ
جن کی قوت ِ خرید کم ہے یا وہ جو غریب ہیں انھیں ان اشیاء کی خریداری میں
آسانی ہو ۔
لیکن ہمارے وطن ِ عزیز میں ان ممالک کے برعکس ہوتا ہے ۔ہم فیشن پرستی اور
زبان کے معاملے میں تو ان ممالک کی پیروی کرنے کو قابل ِ فخر سمجھتے ہیں
لیکن غریبوں اور ناداروں کے احساس کی جہاں بات آتی ہے وہاں ہم مذہب اسلام
پر تو کیا ،ان مغربی ممالک کے نقش ِ قدم پر چلنا پسند نہیں کرتے ۔ہمارے ملک
میں ماۃ ِ رمضان جہاں اپنے ساتھ بے شمار رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے
وہاں مہنگائی کا ایک طوفان بھی اپنے ساتھ لاتا ہے ۔ رمضان کا آغاز ہونے سے
پہلے ہی بجٹ کی آمد نے لوگوں کی قوتِ خرید پر نہایت برے اثرات مرتب کیے ہیں
۔ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں تقریبا ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ افطار
پر کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے ایسے میں فروٹ ، دہی ، چنا ،
ٹماٹر وغیرہ کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے ، اس مانگ میں اضافے کو دیکھتے
ہوئے دکان دار ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔خصوصا جب عید کے
دن قریب ہوتے ہیں تو کپڑوں اور جوتوں کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کو روکنے کے لیے حکومت نے کوئی
اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی ان اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے لیے کوئی اقدام
کیا گیا ۔تاجر حضرات اپنی مرضی سے قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ
سے غریب طبقہ اس مبارک ماہ میں بھی کھانے پینے کی چیزوں تک سے محروم رہتا
ہے ۔ اگرچہ حکومت ماہ رمضان میں ہر سال کھانے پینے کی اشیاء پر ایک مخصوص
سبسڈی دیتی ہے ۔ یوٹیلٹی سٹور ز میں موجود دالوں ، وغیرہ کی قیمتوں میں کمی
کی جاتی ہے تاہم عام دکاندار ان سٹورز سے بھاری تعداد میں اشیاء صرف کم
داموں خرید لیتے ہیں اور انھیں زخیرہ کر کے بعد میں مارکیٹ میں مہنگے داموں
فروخت کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یوٹیلٹی سٹورز پر موجود ان اشیاء کی قلت
ہوجاتی ہے ۔ عام صارف اس سبسڈی سے بھی کوئی فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہتا
ہے ۔اسے باہر حال یہ اشیاء عام دکانوں سے مہنگے داموں خریدنا پڑھتی ہیں ۔
حکومت کو چاہپیے کہ اس طرح کے اقدامات کو روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کرے ۔
اس سلسلے میں علاقے کے ڈی سی او کو خصوصی ہدایات دی جائیں ۔تاکہ حکومت کی
جانب سے دی گئی سبسڈی کا فائدہ اس سفید پوش شخص کو بھی پہنچے جس کا یہ حق
ہے ۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس ماہ ِ مبارک میں تاجر حضرات اور مخیر حضرات کو
چاہیے کہ ان غیریبوں کی خصوصی امداد کی جائے ۔صدقات ، عطیات اور زکوۃ ان حق
داروں کو دی جائے جو کہ سفید پوش ہیں اورغیرت مند ہونے کی وجہ سے کسی کے
آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔اس کے علاوہ خصوصی طور پردکانداروں کو چاہیے کہ
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں اور ان سے ملنے والے منافع کو ایک مناسب حد
پر رکھا جائے تاکہ سفید پوش افراد بھی رمضان کے مہینے میں آسانی سے اشیاء
صرف خرید سکیں ۔ |