اقوام متحدہ کو کراچی میں ہیٹ
سٹروک سے مرنے والوں پر ترس آگیا
اپنے صوبائی اور وفاقی وزرا کے ضمیر بے غیرتی کی نیند سوئے رہے
ایک وقت تھا کہ گاؤ ں میں کوئی مرگ ہو جاتی تو پورے گاؤ ں میں چولہے جلنا
بند ہو جاتے…… بچوں سے بڑوں تک سب بھوکے رہتے جب تک مرنے والے کی تدفین نہ
ہو جاتی تھی…… یہ اس دور کی باتیں ہیں جسے ہم جہالت اور پسماندگی کا دور سے
تعبیر کرتے ہیں……لیکن آج ایسا نہیں ہوتا جبکہ آج ہم جہالت کے دور یا پتھر
کے زمانے سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ لیکن گاؤ ں میں تو شائد ابھی بھی لحاظ
،مروت اور دید حیا باقی موجود ہے مگر مجھے کہنے دیجئے کہ شہروں خصوصا پوش
علاقوں میں دید لحاظ اور مروت نام کی کوئی شے دستیاب نہیں…… ساتھ والے گھر
میں جوان مرگ ہوجائے تو میوزک پارٹیاں ہورہی ہوتی ہیں۔محمود شام صاحب کراچی
کی صورت حال پر ’’کڑ ‘‘ رہے ہیں ان کا دل دوسرے درد دل رکھنے والے
پاکستانیوں کی طرح خون کے آنسو رو رہا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ غصہ سندھ کے
این ڈی ایم اے ڈیپارٹمنٹ پر ہے۔ جس کی ذمہ داری ہی یہی ہے کہ وہ عوام کو
آنے والے حالات ،مشکلات سے آگاہ کرے اور انہیں بچاؤ کی تدابیر سے بھی
روشناس کروائے۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے کے فنڈز پر سانپ بنے بیٹھے این ڈی
ایم اے کے حکام عوام کی راہنمائی کرنے کی بجائے نہ جانے کن سہانے سپنوں میں
کھویا ہوا تھا۔ اور مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں نیند سے کس نے
بیدار کیا کیونکہ ان کی جانب سے سینکڑوں اموات ہوجانے کے بعد اخبارات میں
اشتۃار شائع کروایا گیا جس میں بتایا گیا کہ آنے والے ایام میں موسم کی ھدت
کس قدر شدت والی ہوگی۔سینڑوں انسانوں کو موت کی آغوش میں بھیجنے کے بعد ہوش
میں آنے والے این دی ایم اے کا سب سے پہلے احتساب ہونا چاہیے، کم از کم میں
محمود شام ساحب کے اس مطالبے کی حمایت و تائید کرتا ہوں۔
این ڈی ایم اے کے ساتھ سندھ کے وزیر اعلی اور متعلق وزرا اور پانی و بجلی
کے وفاقی وزیر خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی کو بھی رینجرز اپنی
تحویل میں لے لے اور کراچی کے بیٹوں،بیٹیوں ، ماؤ ں ،بہنوں بزرگوں کی بنا
جرم و خطا موت کے جرم میں کہٹرے میں لایا جائے۔ عابد شیر علی کہتے ہیں کہ’’
گرمی کی لو لگنے سے مرنے والوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد نہیں ہوتی
اسکی زمہ دار سندھ حکومت ہے‘‘ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ’’میرے استعفی سے مسلہ
حل نہیں ہوگا‘‘ کوئی ان سے دریافت کرنے کی جسارت کرے کہ خواجہ صاحب ! بھارت
میں ٹرین کے ایک حادثے میں لال بہادر شاستری نے وزارت سے استعفی دیدیا تھا۔
ملائیشیا میں ایک جہاز ڈوبنے پر وزیر اعظم مستعفی ہوگیا تھا ۔ خواجہ صاحب
کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ مستعفی ہونے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اس
میں اضافہ ہی ہوتا ہے کیونکہ لوگ اسے زمہ دار قرار دیتے ہیں نہ کہ نالائق
اور نااہل۔
کراچی میں موت کا رقص ساتویں روز مین داخل ہوگیا ہے، گرمی کی حدت نے پانی
کی قلت اور لود شیڈنگ کی شدت نے نڈھال اور بے بس عوام کو اپنی آگوش مین
لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور آج ((27/06/2015کی صبح دو بجے تک کی
اطلاعات کے مطابق 74 زندگیوں کے چراغ گل کر دئیے ہیں۔کراچی میں موت کے رقص
نے عالمی ضمیر کو تو جھنجوڑ کے رکھ دیا اور کئی عالمی ادروں نے حکومت کو
اپنے تعاون کی پیش کشیں بھی کی ہیں ۔اقوام متحدہ نے ہیٹ سٹروک سے انسانی
جانوں کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنا تعاون کی پیش کش کردی ہے ۔لیکن ہمارے
صوبائی اور وفاقی حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے، گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں
دفن عظیم ہستیوں کے پیروکار ہونے کے دعویدار عوام کی خاطر مرکر یہاں دفن
ہونے کو ترجیح دینے کی بجائے دبئی اور دیگر ممالک کی راہ لے چکے ہیں جنرل
راحیل شریف سے اپیل ہے کہ وہ انہیں فیالفور وطن واپس لانے کے لیے اقدامات
کرنے کے احکامات دیں اور مذید کو ملک سے فرار ہونے سے روکنے کے انتظامات
کرنے کی بھی ہدایات دینی چاہئیں۔
سنا تھا کہ سیاستدان بہت بڑے اداکار ہوتے ہیں اور اپنی اداکاری کے بل بوتے
پر ہی عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں لیکن مجھے تو پنجاب
کے وزیر اعلی سمیت سب ناکام اداکار لگے ہیں کیونکہ کسی بھی سیاستدان اداکار
نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے کراچی کے ہسپتالوں کا دورہ نہیں کیا
،لواحقین کے گھروں میں جاکر مگرچھ کے آنسو یا ٹسو بہا کر ان سے ہمدردی
جتانے کی اداکاری نہیں کی
۔ میرا خیال ہے کہ پنجاب اور ااسلام آباد کے حکمران خود کسی صدمے سے دوچار
ہیں اور اس سے سنبھلنے اور نکلنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ سندھ کے
’’بیٹے‘‘ اپنے مال وزر کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف
کر رہے ہیں ان کی جانب سے مرنے والے جائیں بھاڑ میں۔س اپنی جان سے تو کوئی
عزیز نہیں ہوتا ناں
بہت پہلے میں نے لکھا تھا کہ سائیں زرداری صاحب ! سست ترین اور کاہل اعظم ،
میدر کے مارے قائم علی شاہ جیسے نالائق اور ناا اہل بندے کو شہباز شریف
جیست متحرک انسان کے مقابلے میں اتار کر آپ] کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
عالمی رائے عامہ اور عالمی راہنما خوامخواہ تو وزیر اعلی پنجاب کی تعریفوں
کے پل باندھ رہے کچھ نہ کچھ تو انہیں معلوم ہوگا یا انکو بتایا جاتا ہوگا
یا وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ اور پڑھتے ہوں گے…… اگر آپ سندھ پر اپنا
قبضہ برقرار رکھنے کے آرزو مند ہیں تو قائم علی شاہ کی جگہ تازہ اور گرم
خون کو میدان منیں اتار ئیے لیکن انہوں نے ادھر سے سنی اور ادھر سے نکال
دی۔ نتیجہ سامنے ہے۔
ان سطور کے لکھتے وقت اطلاعات آئی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی دبئی سے
ہنگامی وطن واپسی ہوئی ہے،البتہ انکے پاپا جانی سابق صدر آصف علی زرداری
اور انکی پھوپھو جان فریال تالپور فیالھال بیرون ملک ہی قیام کریں گی اور
ملک کے حالات تبدیل ہونے اور ’’اچھے دن‘‘ آنے کا انتطار کیا جائیگا۔ اور
انہوں نے ماضی کے بیان کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ’’ انکا جینا مرنا عوام کے
ساتھ ہے‘‘ انکا مزید کہنا ہے کہ وہ ڈرنے والے نہیں‘‘ عید کے بعد وہ ملک بھر
کا دورہ کریں گے اور انتخابات میں سرپرائز دیں گے‘‘ لیکن اس سارے بیان میں
انہوں نے کہیں نے کہا کہ وہ کراچی کے ایک ہسپتال جائیں گے اور مریضوں کی
تیمارداری کریں گے اور نہ ہی انہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ کراچی میں اب تک
مرنے والوں کے ایک ایک گھر میں جاکر ان سے سندھ حکومت کی غفلت پر معذرت
کریں گے اور ان سے اظہار ہمدردی بھی کیا جائیگا۔
اوپر میں نے کہا ناں کہ اب پہلے والے دل نہیں رہے جو کچھ مرضی ہوجائے جتنے
چاہیں مشترکہ دوست بیچ میں آ جائیں فوج ،پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے
مابین اعتماد کی وہ پہلے والی فضا قائم ہونے کی قطعا امید باقی نہیں رہی
کیونکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی
ہنگامی واپسی سے مجھے میمو گیٹ سکینڈل کے دوران آصف علی زرداری کا دبئی
جانا یاد آ گیا ہے اس وقت بھی زرداری صاحب بلاول بھٹو کو اسلام آباد میں
چھوڑ کر گئے تھے لیکن اس وقت بیماری کا کیس تھا اب ایسی کوئی اطلاعات
نہیں…… اس وقت زرداری دس پندرہ دنوں مین وطن واپس لوٹ آئے تھے لیکن کیا اب
بھی وہ انکے دبئی جانے سے پیدا شدہ حالات اور پھیلنے والی افواہوں کو غلط
ثابت کرنے کے لیے چند دنوں مین واقعی وطن واپس آئیں گے یا کسی مناسب وقت کی
آمد تک دبئی میں ہی قیام کریں گے؟
|