فارسی کا اثر دکن سطح مرتفع پر ایک طائرانہ جائزہ
(Nisar Ahmed Syed, India)
یوں تو ملک فارس (ایران) کے
تعلقات ہندوستان سے ہزاروں سال پرانے ہیں۔ اگر ہم پچھلے ۶۰۰ سال کی تاریخ
میں جھانک کر دیکھیں مستند وسائل اور حوالہ جات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں
کہ ہندکے سطح مرتفع دکن کے علاقہ جات پر فارسی تمدن، تہذیب ، فن تعمیر، ادب
اور دیگر سماجی و ثقافت کے تاثرات کافی گہرے طور پر پائے جاتے ہیں۔
مختلف ادوار کا طائرانہ جائزہ لیں تو علاء الدین خلجی، محمد بن تغلق کے
جنوبی ہند کی جانب آمد، فتوحات اور سلاطین کی توسیع کے بموجب دکن میں فارسی
اثر رسوخ کا آغازی دور تھا۔ بہمنی سلطنت کا دور فارسیت کو دکن میں استحکام
پہنچایا۔
دکن سلاطین، نظام شاہی (احمد نگر)، عادل شاہی (بیجاپور)، عمدشاہی (بیرار)،
برید شاہی (بیدر)اور قطب شاہی (گولکنڈہ) کے ادوار میں دکنی زبان کا سنہرا
دور تصور کیا جاتا ہے، جس میں فارسی ادب اور ثقافت بام عروج پر رہے۔
خواجہ محمود گیلانی جنہیں محمود گوان کے نام سے جانا جاتاہے، ایک ایرانی
تاجر تھے جو بہمنی سلطنت کے دور میں تشریف لائے اور یہیں مقیم ہوئے۔ اپنی
دانشوری کے لئے مشہور محمود، بہمنی سلطان محمد شاہ سوم کے دربار میں وزیر
کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ محمود گوان ایک مصنف، شاعر ، سائنسدان، ماہر
ریاضیات و دیگر علوم میں بھی کافی مہارات رکھتے تھے۔ سلطان کی اجازت سے شہر
بیدر میں ایک جامعہ قائم کیا جو مدرسہ گوان کے نام سے مشہور ہے۔ اس مدرسہ
کی بدولت اس سلطنت میں علم و فراست کی روشنی پھیلی۔اس مدرسہ کی فن تعمیر
بھی انڈوپرشین طرز کی ہے۔
۱۵ ویں صدی عیسوی میں محمود گوان کی آمد اور فعال کی وجہ سے دکن میں فارسی
عام ہوئی۔ بہمنی سلطنت کے دور میں سرکاری زبان کے طور پر فارسی بھی رائج
تھی۔ تاریخِ ممبئی میں بھی فارسی کا اثر اور غلبہ دیکھا جاکستا ہے۔
محمود گوان سے قبل دیکھا جائے تو کئی صوفیائے کرام کی آمد اور صوفیائے دکن
کی خدمات برائے ادب قابل نافراموش ہیں۔
صوفیائے کرام کی تصانیف تصوف سے لبریز اور روایتی زبان جس پرفارسی کا خاصہ
تاثر درخشاں نظر آتاہے۔
صوفیا اور تصانیف : محمد بن تغلق کے دور میں امیر نجم الدین حسن دکن تشریف
لائے۔ یہ صاحب کمال شاعر اور صوفی بزرگ تھے جن کی آمد سے فارسی ادب کا آغاز
دکن میں ہوا۔ ان کا روزہ خلدآباد (مہاراشٹر) میں موجود ہے۔
عہد بندہ نواز سے عہد محمود گوان۔ بعد ازیں عہدقلی قطب شاہ اور عہد ولی
دکنی ، اور پھر اگلا دور۔ ان تمام ادوار میں دکنی زبان پروان چڑھی۔ دکنی
زبان کو گُل سمجھا جائے تو اس میں مہک فارسی کی ہے۔ ان ادوار میں تخلیق شدہ
تصانیف خواہ نثر ہو کہ نظم ان عناصر سے آراستہ رہے۔ سادگی ، سرخوشی، روانی
، رنگینی، نشاطیہ کیفیتیں،معنی آفریں تاثر، تشبیہات و استعارات میں فارسی
کا عنصر اور امتزاج نمایاں ہے۔ ان ادوار کے صوفی شعراء ، خواجہ بندہ نواز
گیسو دراز، وہ قلی قطب شاہ ہو یا ولی دکنی ، ان کی شاعری میں فارسی عناصر
کا گہرارنگ موجود ہیں۔
زبان کے سلاسل میں ایک اوراہم بات؛
مراٹھی زبان میں بھی فارسی اور عربی زبان کے بے شمار الفاظ شامل اور عام
ہیں۔ بی الخصوص فارسی زبان موثر ہے۔مراٹھا سلطنت کے دور میں سرکاری دفاتر
میں دستاویزات کی زبان کے طور پر فارسی مروج تھی۔ کئی دفاتر اور دستاویز
ایسے ہیں جو خالص فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔
بعد اذیں مقامی زبانوں کے الفاظ اور لسانی قواعد کے اشتراک سے دکنی زبان نے
ایک نیا لہجہ پایا مگر اس کااساس اور فارسی عناصر کاشیرازہ بکھر نہ پایا۔
دکنی زبان گویا کہ فارسی اور علاقائی زبانوں کے اصطلاحات اور لسانی قواعد
کا مرقع یا مخلوط شکل مانی جاسکتی ہے ۔
مراٹھی علاقوں میں مروج دکنی زبان پر مراٹھی زبان کا اثر، کنڑ علاقے کی
دکنی زبان پر کنڑ زبان کا اثر، اسی طرح تلنگانا، آندھرا، تملناڑو، کیرلا کی
دکنی زبانوں پر اُن کی علاقائی زبان کا اثر پایا جاتا ہے۔ مگر مکمل دکن
علاقے میں مروجہ دکنی زبان کی لسانی اور مروجہ ساخت میں ہم آہنگی پائی جاتی
ہے۔
ان تمام علاقوں میں مروجہ دکنی اردو پر فارسی کا گہرااثر ہی نہیں بلکہ
بولیوں میں ہم رشتگی پیداکرنے میں زبان فارسی معاون ثابت ہوئی ہے۔
دکنی عام بول چال میں فارسی الفاظ کا استعمال:
خدا، نماز اور روزہ جیسے الفاظ کو لے لیجے، یہ الفاظ خالص فارسی زبان کے
الفاظ ہیں مگر دکنی اردو میں عام ہیں۔
الفاظ جیسے ، نادیدہ، گم گشتہ، خان سامہ، گلستان، چمن چمنستان، چراغاں
وغیرہ عام ہیں۔
عام بولی میں؛ چاہتاں، مصیبتاں، دوستاں، دشمناں، جاناں، حقیقتاں جیسے الفاظ
جو ۔اں ۔ کی اضافت سے بنے ہیں عام ہیں جو فارسی کے لب و لہجے سے آراستہ ہیں۔
دکن کی موجودہ ریاستوں کی سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں فارسی اصطلاحات
کاعام اور خاص استعمال:
سرکاردفاتر میں خاص اور عام اصطلاحات؛ سرکار، سرکاری،دفتر، دستاویز، دستوری،
دستخط، حلف نامہ، وسیعت نامہ، وغیرہ۔
عدالتوں میں : دفتر، قلم (ایکٹ)، حاضر، عمل نامہ، شکایت نامہ، دستور، گواہ،
گواہی، پیش، پیشی، پیش کش، پوچی، پوچی خط،منصف، منصف کورٹ، عدالت، وکیل،
وکالت ، وکالت نامہ، قید، قیدی، حکم، حکم نامہ، فیصلہ،قانون وغیرہ۔یہ
اصطلاحات آج بھی مروج ہیں۔
فارسی نام بطور اسم خاص؛ مثلاً فیروز، افروز، پروین، نسرین، گلاب، شہناز،
ممتاز، شیریں،شاہ، شاہ عالم، عالم شاہ، جہانگیر، شاہجہاں، ہمایوں، بیگ،
بیگم، بانو جیسے الفاظ عام ہیں۔
فن تعمیر پر فارسی تمدن کا اثر:
جب بات فن تعمیر کی کیجائے تو
٭ محمود گوان مدرسہ بیدر،
٭ گول گمبد بیجاپور،
٭ حیدرآباد کا چارمینار، قطب شاہی مقبرے،
٭ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے مقبرے سری رنگا پٹنم،
٭ نواب عبدالوھاب خان کا مقبرہ گولے گمہ کرنول،
٭ میر رضا علی کا مقبرہ گرمکنڈہ ضلع چتور و دیگر مقامات کی طرز تعمیر انڈو
پرشین طرز تعمیر رہی جس کو انڈو اسلامک آرکیٹکچر کے نام سے موسوم کیاگیا۔
احمد نگر، بیدر، بیرار، گلبرگہ ، بیجاپور ، حیدرآباد جیسے شہر اور انکی
ڈیزائننگ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اس کی طرز تعمیر ہند ایرانی طرز
تعمیر ہے۔ ان تعمیرات کے گنبد، مینارے، صحن، در و دیوار، ان پر نقش و
نگاریاں فارسی فن تعمیرکی عکاسی کا اعلان کرتی ہیں۔اور ان تعمیرات میں
ایرانی شہر اسفہان، تبریز، شیرازکی آفرینی چھلکتی ہے۔
شہر حیدرآباد کی بات کی جائے تو یہ شہر، ایرانی شہر اسفہان کے نمونے پر
تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک دور ایسا بھی گزراہے کہ شمالی ہند کے شہر جونپور کو
شیرازِہندکہاگیا، تو شہر حیدرآباد کو اسفہانِ ہند ۔
حیدرآباد کا ایرانی ثقافتی مرکز اس بات کی دلیل ہے کہ دکن سے ایران اور
فارسی سے کتنی گہری نسبت ہے اور اثرورسوخ کیاہیں۔
ثقافت اور دیگر فنون : لب و لہجہ، بول چال، تہذیب و تمدن،فن شاعری،تفریح ،
پہراوا،پکوان، گھر کی آرائشیں ان تمام پر فارسی فرہنگ کا اثرگہرا پایا جاتا
ہے۔
فارسی زبان میں تعلیم ایک سیکیولر تعلیم مانی جاتی تھی ، جس کو مختلف مذاہب
کے لوگوں نے ہم آہنگی کے ساتھ اپنایا۔ یعنی دکن میں سیکیولر طریقے سے تعلیم
فراہم کرنے والی زبان فارسی کو تسلیم کیا، اس طرح اس طرز تعلیم کا رواج
صدیوں رہا۔
جشنِ عروسی، عطلس اور ابریشمی کپڑے، چائے اور اور چائے خانے، حقہ،
کوفتے،کباب، پلاؤ، یہ ساری چیزیں جو دکن میں عام ہیں فارسی ثقافت کی دین
ہیں۔ کھیل جیسے رساکشی (دکنی لہجے میں رسی کھینچنا)بھی فارسی ہی کا دیا ہوا
ورثہ ہے۔ |
|