ایک بوڑھی عورت ہماری بستی میں رہتی تھی ۔ وہ چوراہے پے پڑے بیکار پتھر
روزانہ ایک ٹوکری میں ڈالتی ،سر پے اٹھا کر بستی سے باہر پہاڑ پے پھینک آتی
۔ مجھے اس کے اس فعل کی کبھی سمجھ نہیں آئی ۔ آخر ایک دن میں نے اماں سے اس
عمل کی وجہ پوچھی ۔ اماں نے کہا بیٹا یہ پتھر ہمارے ماضی کی نااسودہ
خواہشات، حسرتیں ، غم اور غلطیاں ہیں جن سے ٹکرا کر ہم خود کو روز زخمی
کرتے ہیں ۔ ہم اپنی منزل کی جانب جانے کی بجائے ماضی کے پتھروں میں الجھے
رہتے ہیں ۔ ہمارا سفر یا تو ماضی کے پتھروں سے ٹکرانا ہوتا ہے یا مستقبل کی
رکاوٹوں میں خود کو بے حال کرنا ہوتا ہے۔حال سے ہمارا کچھ بھی لینا دینا
نہیں ہے۔میں چاہتی ہوں کہ لوگ اپنے ماضی سے نکل کر بس حال میں جئیں۔
میں نے پوچھا اماں جی میں حال میں کیسے جی سکتا ہوں ؟
اماں نے کہا دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو، لوگوں کی مصیبت میں کام
آؤ۔بھوکے کو کھانا کھلاؤ،ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھوں سے کرو،کسی بھی اچھے
عمل کو چھوٹا نہ سمجھو،چھوٹے چھوٹے نیکی کے اعمال کو حقیر سمجھ کر مت چھوڑو
اور سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیٹا یہ سب کرو گے تو تم بھی صاحب حال
ہو جاؤ گے پھر نہ تمھیں ماضی کا غم رہے گا نہ مستقبل کا خوف۔
|