13سالہ طویل عرصے کے بعد افغانستان میں مقیم اتحادی افواج
کا انخلا گزشتہ دنوں مکمل ہو گیا ۔ اب معاہدے کے مطابق چند ہزار امر یکی
فوجی کیمپوں تک محدود ہے لیکن اس طویل عرصے میں اتحادی افواج، افغان طالبان
کو شکست نہیں دے سکیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان سر زمین نے ایک دفعہ پھر
تاریخ کو دہرا دیا ہے کہ افغان سر زمین غیر ملکیوں کے لیے قبر ستان ہے۔ آج
نیٹوممالک کے سر براہان اور افغانستان میں اتحادی افواج کے کمانڈسھنبالنے
والے یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کو شکست ہو چکی ہے۔
اگراس حقیقت کو تسلیم بھی کیا جائے کہ افغانستان میں غیر ملکیوں کو شکست
ہوئی لیکن اس سچ کو بھی ماننا پڑے گا کہ آج افغانستان ایک دفعہ پھر خانہ
جنگی کے دہانے پرکھڑا ہے ۔ ایک طرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی
جارہی ہے تو دوسری جانب طالبان اور داعش کے درمیان نئی جنگ شروع ہو چکی ہے
،وہ طالبان جن کو امر یکہ اور اس کے پچاس اتحادی ممالک شکست نہیں دے سکیں ۔
آج داعش کے ساتھ خطر ناک لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ کیا امر یکا نے ایک سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت داعش جیسے تنظیم کو لانچ کیا ہے کہ افغانستان سمیت دوسرے
اسلامی ممالک میں جو خون بہہ رہا ہے اس میں مز ید اضافہ ہواورخاص کر
افغانستان میں ایک دفعہ پھر خانہ جنگی شروع ہو جائے ۔
رپورٹزکے مطابق داعش نے گزشتہ روز ایک ویڈیو جاری کی جس میں تین افغان
طالبان کے سر قلم کر نے کے مناظر دکھائے گئے ۔ ویڈ یو پیغام میں بتا یا گیا
ہے کہ جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں انہوں نے داعش کو چھوڑ کر طالبان میں
شمولیت اختیار کی تھی جس کی وجہ سے انہیں موت کی سزا دی گئی۔یہ بھی واضح
رہے کہ چند روز قبل افغان طالبان کے نائب ملااختر منصور نے داعش کے سر براہ
ابوبکر بغدادی کے نام ایک خط جاری کیاتھا جس میں انہیں متنبہ کیا گیا تھاکہ
داعش افغانستان میں داخلے کی کوشش نہ کر یں اگر انہوں نے غیر ملکی فوج کے
خلاف لڑنا ہے تو سب سے پہلے طالبان کے جھنڈے تلے جمع ہو اور جہاد کر یں
لیکن ایک الگ جماعت کے طور پر داعش نے افغانستان میں داخلے کی کوشش کی
توطالبان شدید ردعمل کرنے کی کوشش کر یں گے۔ انہوں نے واضح کیاتھا افغان سر
زمین پر آنے والے داعش کے جنگجوؤں کے سر قلم کر د ئیے جا ئیں گے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کا اثرو رسوخ
بڑھنے لگا ہے۔ داعش نے ایک ضلع میں باقاعدہ حکومت بنا رکھی ہے اور دیگر
اضلاع تک دائرہ بڑھا یا جا رہاہے۔یہ بھی اطلاع آرہی ہے کہ داعش نے صوبہ
ننگر ہارکے چھ اضلاع میں کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے ۔طا لبان اور داعش
کے درمیان ننگر ہار کے اضلاع خو گیانی اورپے چیراگام میں شدید لڑائی جاری
ہے۔ بعض رپورٹز کے مطابق طالبان نے کچھ جگہوں پر پسپائی بھی اختیار کر لی
ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے مقامی لو گوں کو بھرتی کر نے کے لیے رقم بھی تقسیم
کر رہے ہیں جب کہ طا لبان امیر ملا عمر کے خلاف بھی بیان سامنے آیا ہے ۔ننگر
ہار کے معرکے میں داعش کے حامیوں کوطالبان کے رہنماملا عمر کو قتل کرنے کے
لیے لو گوں پر زور دیا گیاکہ خلیفہ ایک ہی ابو بکر بغدادی مو جود ہیں۔افغان
حکام کے مطابق داعش کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد افغانستان کے مختلف اضلاع میں
طالبان کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے۔ طالبان کے لیے فنڈز کا ذریعہ ختم کرنے
کے لیے داعش نے پوست کی فصل کا بھی خاتمہ کر دیا ہے۔بی بی سی کے مطابق
افغاانستان میں تعینات سینئر امر یکی فوجی کمانڈرجنرل شان سوئنڈل کا کہنا
ہے کہ افغانستان میں داعش سے منسلک جنگجوشام میں تنظیم کی قیادت سے رابطے
میں ہیں۔ ان کے مطابق غیر مطمئن طالبان جنگجو ؤں نے ایک فر نیچائزقائم کی
ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش تنظیم اس قدر سنجیدہ نہیں جس
طرح وہ عراق یا لیبیا میں ہے۔داعش سے منسلک ایک ویب سائٹ کے بعض حصے اب
مکمل طور پر’خراسان دولت اسلامیہ‘کے لیے مخصوص ہے۔خراسان افغانستان اور اس
سے ملحقہ علاقوں کا پرانا نام ہے۔ اسی ویب سائٹ پر طا لبان کو دولت اسلامیہ
میں شامل نہ ہونے پر دھمکی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ
کا سر تن سے جدا کیا جائے اورآپ کے گھر تباہ کیے جائیں؟کیا آپ کو یہ گمان
ہے کہ آپ عراقی ملیشیا سے زیادہ طاقت ور ہیں، جن کی پشت پر امر یکا کھڑا ہے؟۔
سینئر صحافی طا ہر خان کے مطابق گز شتہ روزافغانستان میں طالبان سے الگ
ہونے والے جنگجو د ھڑے نے اسلامی خلافت کا دعوی کر نے والے تنظیم دولت
اسلامی یعنی داعش کے خلیفہ ابوبکر بغدادی سے ملاقات کے لیے اپنا تین رکنی
وفد شام بھیجا ہے اور انہیں یقین دہا نی کرائی ہے کہ وہ تنظیم کی افغانستان
میں سر گر میوں کے مخالف نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ کچھ دن پہلے طا لبان کی
جانب سے جاری خط کا جواب تاحال داعش رہنماؤں نے نہیں دیا ہے۔افغا نستان میں
داعش کی قیادت اس وقت گوانتاناموبے کے سابق قیدی عبد الرحیم مسلم کے پاس ہے۔
افغانستان کے موجود حالات میں جہاں پر اتحادی افواج کو ناکامی ہوئی وہاں آج
افغان طالبان سے منحرف گرپ جو اب داعش میں شامل ہو چکا ہے ،آپس میں نہ صرف
اختلافات شد ید ہو گئے ہیں بلکہ شدیدلڑ ائی میں ایک دوسرے کو بہت زیادہ
نقصان بھی دے رہے ہیں۔طا لبان اور داعش کے درمیان لڑائی سے افغانستان کی سر
زمین ایک نئی جنگ میں داخل ہو گئی ہے یعنی ایک دفعہ پھر افغانستان میں خانہ
جنگی شروع ہو گئی اس نئی جنگ کا نتیجہ بھی افغانیوں کے لیے مایوسی ، جنگ
وجدل اور قتل وغارت کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
افغانستان میں طالبان اور داعش کی شروع ہو نے والے لڑائی کے بارے میں مختلف
با تیں کی جارہی ہے ، بعض تجزیہ کار اور ماہر ین اس لڑائی اور خانہ جنگی کو
بہت بڑے پلان کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ اس پلان کا بنیادی مقصد افغانستان
میں طالبان کو کمزور کر نا ہے ۔ جس طر ح شام ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں
داعش کے جنگجو ؤں نے آپس میں لڑائی شروع کر کے اپنے ہی لو گوں کو قتل کر
رہے ہیں اسی طرح افغانستان میں بھی یہ تا ثر پیدا کر نے کی کوشش کی جارہی
ہے کہ افغانستان میں طالبان اب کمز ور ہو چکے ہیں ۔ اب داعش نے ان کی جگہ
لے لی ہے اسی افواہ اور پلاننگ کے تحت افغان طالبان میں دارڑیں اور گروپ
پیدا کیے جارہے ہیں تاکہ طا لبان کو عوام کی نظر میں کمزور ثابت کیا جائے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں حالیہ حملوں
میں تیزی بھی اسی سبب زیادہ ہو ئی ہے کہ طالبان باآور کر ائیں کہ افغانستان
میں ان کی قوت کو چیلینج کر نے والا کوئی نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ دو
مہینوں کے دوران افغان طالبان نے پے درپے حملے کیے ہیں جس میں زیادہ تر
ہائی سکیورٹی زون، اتحادی افواج اور افغان سکیو رٹی فورسز کو ٹارگٹ کیا گیا
اور بہت سے اضلاع میں افغان سکیورٹی فورسز سے شدید لڑائی بھی ہو ئی جس کے
نتیجے میں بعض اضلاع پر طالبان نے قبضہ بھی کیا ہے۔ |